تحریر: اختر سردار چودھری ،کسووال
دوسروں کے کام آنا ہی اصل زندگی ہے۔ جو دوسروں کے کام نہیں آتا، اس میں اور جانور میں کیا فرق ہے۔ کیونکہ اپنے لئے تو جانور بھی جیتے ہیں۔ ان کو بھی سردی گرمی ،بھوک پیاس محسوس ہوتی ہے۔ان کی بھی اپنی ضروریات ہوتی ہیں اور وہ اپنی ان بنیادی ضروریات کی تکمیل کے لیے کوشش بھی کرتے ہیں ۔ انسان تو وہ ہے ، جو اللہ کے بندوں اور اپنے بھائیوں اور دوسرے انسانوں کے لئے جیتا ہو۔ ان کی سردی گرمی ،بھوک پیاس ،دکھ غم میں شریک ہوتا ہو ۔اور اللہ کی خوش نودی کے لیے ان کے کام آتا ہو۔ علامہ اقبال کے الفاظ میں۔
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
حدیث میں ہے کہ یوم محشر اللہ تعالی لوگوں سے یہ بھی سوال کرے گا کہ تو نے مجھے کھلایا نہیں، پلایا نہیں، پہنایا نہیں۔ بندہ پوچھے گا کہ اے رب العالمین تو ان سب ضرورتوں سے مبرا اور بلند تر ہے ۔ اللہ فرمائے گا کہ کیا تجھے یاد نہیں کہ میرا فلاں فلاں بندہ ان ضرورتوں کا طلب گار تھا اور تجھے معلوم بھی تھا، تو نے اس کی ان ضرورتوں کو پورا نہیں کیا۔ دوسروں کو نفع پہنچانا اسلام کی روح اور ایمان کا تقاضا ہے ۔ ایک اچھے مسلمان کی یہ خوبی ہے کہ وہ ایسے کام کرتا ہے، جو دوسرے انسانوں کے لئے فائدہ مند ہوں۔ ترجمہ حدیث ۖہے’ ‘لوگوں میں سب سے اچھا وہ ہے جو لوگوں کو نفع اور فائدہ پہنچائے ”۔
امریکی جریدے سائنٹیفیک امیریکن مائنڈ کے مطابق دوسروں کا درد رکھنے والوں کے دل زیادہ صحت مند ہوتے ہیں۔ خدمت خلق سے انسان کے دل اور شریانوں کی صحت بہتر ہوتی ہے اور دل مختلف امراض سے محفوظ رہتا ہے ۔رضا کارانہ طور پر دوسروں کی مدد کرنے سے انسان کے جسم میں ایسے کیمیکلز خارج ہوتے ہیں، جن کی وجہ سے انسان کا ذہنی دباؤ کم ہوتا ہے ۔دوسروں کی مدد کرنے والے اپنے بارے میں اچھا محسوس کرتے ہیں اور وہ منفی موڈ کے شکار کم ہوتے ہیں۔
انسانی زندگی کے لئے مال و دولت کی بہت اہمیت ہے ۔اسلام کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ دین فطرت ہے ، مال و دولت کو اسلام نے نہ نا پسند کیا ہے اور نہ اس سے منع فرمایا ہے ۔شرط یہ ہے کہ جائز طریقہ پر مال حاصل کیا جائے اور اسے دوسروں کی بھلائی کے خرچ کیا جائے ۔دیکھا گیا ہے کہ اگر ایک شخص کے پاس نسل در نسل مال و دولت کا انبار ہو تو اس میں تکبر پیدا ہوجاتا ہے ، وہ دوسرے انسانوں کو حقیر سمجھنے لگتا ہے ۔بہت کم نہ ہونے کے برابر ایسے افراد زندگی میں ملتے ہیں، جن کو دولت حاصل ہو، اس کے باوجود وہ متکبرنہ ہوں ۔ایسا کیوں ہو جاتا ہے ۔حالانکہ انسان فانی ہے ۔اور امیر ہو یا غریب مرنے کے بعد سب برابر ہو جاتے ہیں ۔بلکہ پیدائش سے قبل بھی برابر ہوتے ہیں۔
اسلام میں رنگ و نسل ،ذات پات ،امارت و غربت کی بنیاد پر کوئی ادنی ٰ یا اعلی نہیں ہے ۔اسلام تو ان بتوں کو پاش پاش کرنے آیا تھا، ۔لیکن ایک افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ دنیا پرستی نے انسان سے اس کی انسانیت ہی چھین لی ہے۔ ایک طرف انسانیت ایڑیاں رگڑ رہی ہے ۔دوسری طرف ان کے کتے ،گھوڑے مربعے کھاتے ہیں۔
اسلام تو ایسے معاشرے کی تشکیل نہیں چاہتا تھا ۔جہاں ہمدردی کی بجائے بے حسی ہو۔ محبت کی بجائے نفرت ہو۔ایثار و قربانی کی بجائے خود غرضی ہو ۔اسلام تو ایسا معاشرہ تعمیر کرنا چاہتا ہے ۔بلکہ اس پر زور دیتا ہے کہ خدمت خلق ہی معراج انسانیت ہے ،دین اسلام کا مقصد ہے ۔ایک مسلمان میں سب سے بڑی خوبی یہ ہونی چاہئے کہ وہ دوسرے انسان کی خدمت کرے اور اسے دین اسلام کا فریضہ سمجھے۔
بقول خواجہ میر درد
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ اطاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
اسلام صرف چند عبادات کے مجموعہ کانام نہیں، بلکہ زندگی گزارنے کے ہر پہلو کے بارے میں واضع ہدایات دیتا ہے ۔ ہم نے اسلام کی تعلیمات کو چھوڑ دیا ۔خاص کر حقوق العباد کو تو ہم عبادت ہی خیال نہیں کرتے ۔اسی وجہ سے ہم میں اتحاد و اتفاق نہیں رہا ،یکجہتی اور بھائی چارہ نہیںرہا،اخوت ،محبت،رواداری،اور ایک دوسرے کا احساس نہیں رہا۔ہم اپنی جڑیں اپنے ہاتھوں سے کاٹ رہے ہیں۔اپنی ملت کو ڈبو رہے ہیں ۔ ہم اتنے خود غرض ہو چکے ہیں کہ ہمیں اپنی ذات کے سوا کچھ نظر نہیں آ رہا ۔ یہ جو دنیا میں انسانیت سسک رہی ہے ، ہم سب اس اجتمائی برائی میں برابر کے شریک ہیں۔
جس سماج میں عدم مساوات ، دولت کی غلط تقسیم ، معاشی بدعنوانی اور سیاسی خود غرضی اور موقع پرستی جیسے رجحانات ہوں ، وہ معاشرہ ترقی یافتہ اور خوشحال نہیں ہوسکتا ۔رشوت ، کام چوری اور جھوٹ ،تکبر یا احساس برتری جو کہ برے ا خلاق کی نشانیاں ہیں ،ہمارے معاشرے میں سرایت کر چکی ہوں، جس سے ملک کا امن و انصاف ختم ہو جاتا ہے ۔ اس کی وجہ آخرت کے خوف کا نہ ہونا بھی ہے ۔ اور یہی وہ بنیادی نکتہ ہے ،جہاں سے معاشرے کی تنزلی شروع ہوتی ہے ۔دکھی انسانیت کی خدمت سب سے بڑی عبادت ہے ، سب لوگوں کو اپنی بساط کے مطابق اس معاشرے کو سدھارنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگاـ ارشاد نبوی ۖ ہے کہ ”ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے ، اور سب سے زیادہ اللہ کا محبوب بندہ وہ ہے جو اللہ کے کنبے کو نفع پہنچائے”۔
تحریر: اختر سردار چودھری ،کسووال