counter easy hit

نقطہ

Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

بے شک اللہ تعالیٰ جس کا چاہے ذکر بلند کرتا اور جسے چاہے عزت عطا فرماتا ہے ۔جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا ذکر بلند فرماتا ہے تو مخلوق بھی اُن سے فیض یاب ہوتی ہے۔محنت یا اعمال کا معاملہ اور بات ہے اور رحمت الٰہی کااور ۔میرے ،آپ کے اعمال اور محنتوں کا شمار ممکن ہے جبکہ رب تعالیٰ کی رحمت کی کوئی حد نہیں ۔پیر ومرشد کا فرمان ہے کہ جب اللہ تعالیٰ مہربانی فرماتا ہے تو پھر دنیا و آخرت کی کوئی منزل مشکل نہیں رہتی ۔پیرو مرشد کی زندگی کے متعلق مضمون پیر سید عرفان احمد شاہ المعروف نانگا مست پڑھ کرایک نقطہ سمجھنے کی کوشش کرتے کرتے یہ وقت آگیا ہے

نقطہ بیان کررہا ہوں۔نقطہ بیان کرنے سے پہلے آپ کو مضمون میں تحریر واقعات کاانتہائی مختصر تعارف کروانا ضروری سمجھتا ہوں۔ نمبر1بچپن میں جھولے سے غائب ہونا2جسم کے عضا ء کا علیحدہ علیحدہ ہونا 3 عالم مجذوبی کے دور کے واقعات4 وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف کے والد اور والدہ کی دُعاکی درخواست5 کاغذ کے ٹکڑوں کا کرنسی نوٹ بن جانا 6 عبدالغنی چشتی سرکار سے ملاقات 7 محترمہ بے نظیر بھٹو کی دُعا کی درخواست 8 سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے صدر بننے کی پشین گوئی 9 سابق صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق کی موت کی پیشنگوئی 10 والدہ محترمہ کی دُعا 11 بابا جی محمد علی مست سرکار سے ملاقات 12 آپ کے مرشد عبدالغنی چشتی سرکار کا دنیا سے پردہ کرنا 13 بابا جی محمد یوسف سائیں سے ملاقات 14 پیر صابر علی شاہ سے ملاقات 15 پرویز نام کے بارے میں تحقیق 16 ناپاک نظریں اورلقمہ حلال 17 سودی نظام کے خاتمے کا میاں محمد شریف کا وعد 18 ڈاکٹر کا مردے کو زندہ دیکھ کر دماغی توازن کھو دینا 19 سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم بننے کی پیشنگوئی 20 سید سلامت علی شاہ المعروف چھتری والی سرکار سے گفتگو 21 پیر سعید میاں شاہ کے آستانے پر امامت 22 بچے کے سر پر زخم کا نشان نہ ہونا23 اقبال سائیں المعروف محبت سائیں کا نظر سے درخت کو ہلانا 24 ڈاکٹر کا ہاتھ ملاتے ہی کرنٹ لگنا 25 حضرت خواجہ اُویس قرنیکے آستانے کے لئے جگہ 26 سابق آئی جی پنجاب حاجی حبیب الرحمٰن سے ملاقات 27 شہد کی مکھی کا آپ کے چہرہ مبارک کا بوسہ لینا ”میرے ذاتی نقطہ نظر میں بہت سے تضادات کی گنجائش موجود ہے پر جو نقطہ آج بیان کرنے جارہا ہوں وہ ذاتی نہیں عطائی ہے

اِس لئے شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔قدرت کے کارخانے میں لاتعداد حقائق اور نقطے موجود ہیں۔دنیاوی حقائق کو سمجھنے والے صرف دنیا کے ہوکے رہ جاتے ہیں جبکہ روحانی نقطوں کی سمجھ بوجھ عطاہوجانے پر انسان دنیاوی معاملات کے ساتھ وہ کچھ دیکھ ،سن ،بول ،سمجھ اور سمجھا سکتاہے جو دنیاوی حقائق کی چھان بین کرنے والے صدیوں تک نہیں سمجھ پاتے ۔اس حقیقت کو چند الفاظ میں بیان کیا جائے تو کچھ یوں کہا جاسکتاہے نقطہ وہی جو سمجھ آجائے ۔پیرومرشد کی زندگی کے موضوع پررضابھائی کا تحریر کردہ مضمون پیرسید عرفان احمد شاہ المعروف نانگامست راقم مہینوں گزر جانے کے باوجود پورا نہیں پڑھ سکا۔

جب بھی پڑھنا شروع کرتا ہوں دل ودماغ کے ساتھ ساتھ روح بھی اس ایک نقطے میں اٹک جاتے ہیں کہ جب پیرومرشد کے ماںجی نے اپنے جگر کے ٹکڑے کو صرف ساڑھے تین سال کی عمر میں لا محدود مدت کیلئے درگاہ سید علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا حضور دربار پر یہ سمجھا کر چھوڑا کہ آپ کو اللہ،رسول للہۖاور صالحین کے سپرد کرتی ہوں اُس وقت اُن کے حوصلے کا عالم کیا ہوگا؟ماںجی کے حکم کی تعمیل میںساڑھے تین سال کی عمر کا معصوم بچہ اپنی ماں کے پیچھے نہیں بھاگتا،واویلا نہیں کرتا،خاموشی کے ساتھ اُسی مقام پر تھم جاتا ہے جس پر ماں جی نے حکم فرمایا۔یہ بھی کسی عام بچے کے بس کی بات نہیں ۔یقیناایسا حوصلہ عام ماں بیٹانہیں دیکھا سکتے۔

آپ کی والدہ محترمہ اور آپ کامقام امتحان دیکھ یہ نقطہ صاف صاف سمجھ آگیا کہ ایسی بے مثال قربانیاں آل رسول اللہۖ ہی دے سکتی ہے جنہوں نے میدان کربلا میں قربانیوںکی ایسی بے مثل داستان رقم کی جس کی مثال کسی زمانے میںنہیں ملتی اور نہ آنے والے زمانوں میں پیداہوگی ۔بیٹاچاہے بوڑھا ہوجائے کوئی بھی ماں اُسے اپنی آنکھوں سے دور کرنا برداشت نہیں کرسکتی۔بات کردینا بہت آسان ہے ساڑھے تین سال کی عمرکے بیٹے کو خود سے دور کردینا بہت بڑا امتحان ہے ۔پیرومرشد کے ماں جی نے اس مشکل امتحان سے گزر کرمیرے جیسے ناقص العلم لوگوں کیلئے یہ نقطہ سمجھنا آسان کردیا کہ آل رسول اللہ ۖ آج بھی اُمت کی خیرخواہی کے مشن میں ہر طرح کی قربانیوں اور امتحانات سے گزر رہے ہیں ۔عقل ایسے نقطوں کو کم ہی سمجھ پاتی ہے

تب ہی سمجھ آتے ہیں جب کوئی سمجھانے والی عظیم ہستی آپ کے دل کے پنہا خانوں میں اُتر کر اپنی چاہت، محبت اور ادب و احترام کی مہر ثبت کردے۔دل پہ جمے زنگ کو دست شفقت سے نہ صرف صاف بلکہ پاک بھی کردے۔ آپ سوچیں یہ کام قلم یاکتابیں کرسکتی ہیں؟ہرگز نہیں کرسکتی ۔مجھے کتاب کی حقیقت سے بھی انکار نہیں ہے۔کتاب علم کو پھیلانے کا عظیم ترین ذریعہ ہے پر یہاں تو معاملہ ہی کچھ اورہے اللہ والوں کی محفل میں پہنچ کر علم اور عقل کام چھوڑجائے تونقطے سمجھ آنے لگتے ہیں۔ایسے نقطے جو انسان کو سچ میں انسان بنا دیتے ہیں۔گزشتہ دنوںروحانیت کے موضوع پر ایک تحریر نظر سے گزری جس میں مضمون نگار نے کہا کہ روحانیت کی منازل پالینے کے بعد اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے لکھنے لکھانے سے پرے اپنے آپ کو تلاشنے اور تراشنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

میرا خیال قدرے مختلف ہے میں سمجھتاہوں کہ روحانیت کی منازل پالینے والے لوگ انسانیت کے اعلیٰ ترین درجات پر فائز ہوجاتے ہیں ۔اُن کو میری طرح کاغذ و قلم کی ضرورت نہیں رہتی ،میرے جیسے کئی لکھنے والے صدیوں تک اوراق سیاہ کرتے کرتے اسی سیاہی میں گم ہو جاتے ہیں پھر بھی کسی کے پلے کچھ نہیں پڑتا۔دوسری جانب اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے اپنی نگائوں سے دلوں پر ایسے نقطے رقم کرتے ہیںکہ اہل دل کی دنیا بدل کے رکھ دیتے ہیں ۔کتاب لکھنے اور پڑھنے والے اوراق کی خاک چھانتے رہ جاتے ہیں ۔ اللہ والے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے وہ علم حاصل کرتے ہیں جن کا کسی کتاب میں ذکر تک نہیں ملتا ،کہیں موجود بھی ہوتو کتابی لوگ اسے سمجھ نہیںپاتے کہ اصل معاملہ کیا ہے۔راقم خود کو روحانیت کے موضوع پر لکھنے کا اہل نہیں سمجھتا پھربھی بعد اجازت پیرومرشد اتنا ضرور کہوں گا کہ اللہ والوں کو بڑی بڑی تحاریر لکھنے کی ضرورت نہیں ۔اُن کا اِک نقطہ نصیب ہوجائے توزندگی بن جاتی ہے۔

ایک اور قیمتی بات آپ کو بتاتا چلوں جو پیرومرشد کی صحبت میں وقت گزار کر سمجھ آئی ۔انسان کوآخرت کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں اس دنیا کی زندگی کو خوبصورت بنائو۔آخرت میں جنت کی فکر کرنے والے یہ جان لیں کہ جنت بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے دوسری بہت سی مخلوقات کی طرح جبکہ انسان اشرف المخلوقات ہے ۔ انسان تمام مخلوقات سے اعلیٰ ہے ۔بے شک جنت اللہ تعالیٰ کا خوبصورت انعام ہے اپنے بندوں کیلئے ۔اپنے اعمال کا محور جنت کو بنانے کی بجائے رضائے الٰہی کے طلب گار بنو،جنت مانگ مانگ کر شرمندہ ہونے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس طرح سرجھکائوکہ جنت تیری طلب کرنے لگ جائے۔پیرومرشد کافرمان ہے سجدے کے ساتھ سرنڈر بھی ہوجائے تو بڑی بات ہے۔

سجدہ ہم سب سمجھتے ہیں سرنڈر کا مطلب ہے یااللہ میں ساری دنیا سے رشتہ توڑکر تیری بارگاہ میں حاضر ہوں مجھے ویسا بنا دے جیسا تجھے تیرے حبیب کو پسند آجائوں،مجھ سے وہ کام لے جو اپنے مقبول بندوں سے لیا کرتے ہو ۔میں اقرار کرتا ہوں کہ میں سراپا خطاتو سراپا عطا ہے ۔مجھے دنیا کے جھمیلوں سے نکال کر اپنے برگزیدہ بندوں کی صحبت نصیب فرما۔مجھے دانش و عقل کے جال سے آزادکرکے اُن نقطوں کی سمجھ عطا فرما جو تیری باگاہ میں مقبول بندوں کی خدمت میں پہنچا کرتیرے قرب میں حاضری کے اثباب پیداکرتے ہیں ۔اب تو لگتا ہے جیسے یہ زندگی بھی ایک نقطہ ہی ہے جسے سمجھ آگئی وہ امر ہے باقی فانی ۔رب رحمان کی کائنات میںنقطوں کی بھرمارہے پر ہمارے لئے وہی نقطہ ،نقطہ ہے جس کی سمجھ آجائے یعنی نقطہ وہی جو سمجھ آجائے

تحریر: امتیاز علی شاکر :لاہور
imtiazali470@gmail.com