مضان المبارک کا مہینہ اپنی برکتوں سمیت رواں دواں ہے اور نیک لوگ بھر بھر کے نیکیاں اور ثواب کما رہے ہیں تو دوسری طرف منافع خور بس زیادہ سے زیادہ نوٹ کمانے کی فکرمیں خود کو بوڑھا کررہے ہیں۔
رمضان کی آمد کے ساتھ ہی جہاں نیکیوں اور نوٹوں کا سیزن شروع ہوجاتا ہے وہیں منی پاکستان یعنی شہر کراچی کی گلی گلی میں ایک سیزن شروع ہوجاتا ہے اور وہ ہے رات سے صبح سحر تک اسٹریٹ کرکٹ کا اور موسم بھلے سرد ہو یا گرم کرکٹ کے اِس میلے کی رانق کبھی ماند نہیں پڑتی
وگ دن بھر اپنے کام دھندوں اوردیگرمعاملات میں مصروفیات کے بعد افطار کی رونقوں سے لطف اندوز ہوکر اور نماز تراویح پڑھ کے اور اپنے دیگر کام نپٹا کرلوگ جب پوری طرح فارغ ہوجاتے ہیں تو رات کو کراچی شہر کی گلیوں اورسڑکوں پرجگہ جگہ لوگ اپنی اپنی وکٹیں لگا لیتے ہیں۔ جو عموماً کولڈرنک کے دو خالی کریٹوں کو اوپر نیچے رکھ کر بنائی جاتی ہیں۔ صرف لیاقت آباد ڈاکخانے سے لیاقت آباد سندھی ہوٹل تک آپ کو ایسی کئی وکٹیں لگی مل جائیں گی۔ ٹینس بال پر ٹیپ چڑھا کرکھیلی جانے والی لیگ اور آف سائیڈ کی باؤنڈریز سے محروم کرکٹ کے اصول بھی گلیوں والے ہوتے ہیں۔
- سامنے کی باؤنڈری وہ کھمبا پار ہے۔
- پیچھے گیند اگر بلے سے لگے بنا جائے گی تو کوئی رن نہیں ہوگا
- دیوار سے ٹکرا کر آنے والی گیند کا ایک ہاتھ سے کیچ تھام لیا تو آؤٹ
- گیند اگر کسی کے گھر میں گئی تو آؤٹ
نائٹ میچز کی یہ رونقیں بجلی کی محتاج ہوتی ہیں مگر افسوس یہ کہ اِس رمضان تو بجلی ایسی روٹھی کہ رات تو کیا دن میں بھی مشکل سے ہی جھلک دکھلاتی ہے۔ اِس لیے اداروں کی نالائقی کے سبب جہاں لوگوں کی پریشانیوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے وہیں برسوں پرانی روایت بھی ماند پڑتی جارہی ہے۔