تحریر: رضوان اللہ پشاوری
خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
لبِ خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
آج کل ہمارے اس مملکت خداداد میں تعلیم کا سورج غروب ہونے کو، شمع بُجنے کواور روشنی مانند پڑنے کو ہے اس طور پر کہ جب ہمارے ہاں مرحلہ ثانویہ کے امتحانات شروع ہو جاتے ہیں تو ویسے ہی اسی سالِ رواں کا ورلڈ کپ بھی شروع ہو جاتا ہے ،اسی ورلڈ کپ کے شروع ہونے کے ساتھ ہی ہمارے طلبائے کرام میں سٹڈی (study) کا شوق بھی مانند پڑجاتا ہے اس طور پر کہ جب یہاں طالب علم سٹڈی کے لیے کتاب کھولتا ہے تو وہاں ٹی وی سکرین (screen) پر کرکٹ میچ بھی شروع ہو جاتا ہے تو کیا طلبائے کرام ایک وقت میں ایک ہی کام کریں گے؟ کیونکہ ذہن بسیط ہے ،ذہن آنِ واحد میں ایک ہی کام کر سکتا ہے ،تو یہ نہیں ہو سکتا کہ سٹڈی بھی شوق وشغف کے ساتھ جاری ہو اور ٹی وی سکرین پر کرکٹ میچ بھی دیکھیں۔
جیساکہ اہل پشتو کا ایک مقولہ ہے کہ” یا بہ ستوان خری او یا بہ شپیلی وہی”ایسا ہی ایک واقعہ میرے ساتھ بھی ہوا تھا کہ جب میں 2011 ء میں نویں کلاس کا امتحان دے رہا تھاتو سیکنڈ ٹائم میں میرا سیویکس (civics)کا پیپر تھا لیکن عجب اتفاق یہ تھا کہ دوپہر دو بجے پیپر بھی شروع ہواور میچ بھی دو بجے شروع ہواکہ جیسا ہی پیپر شروع ہوا تو ویسے ہی کرکٹ میچ بھی شروع ہوگئی،اور وہ میچ بھی پاکستان اور بھارت کے مابین کھیلا جا رہا تھا،تو استادنے ہمیں ابجیکٹیو (objective ) اور سوالیہ پیپر دونوں اکھٹے دیدئے اور کہا کہ بس آرام کے ساتھ اپنا پیپر حل کرتے جائے اور شور شرابہ بالکل نہ کریں، جو لکھنا چاہے لکھتے جائے اور جس چیز سے لکھنا چاہتے ہو لکھتے رہو لیکن ہم کو آرام کے ساتھ میچ دیکھنے دیں۔
تعلیم مغربی ہے بہت جرات آفریں
پہلا سبق ہے بیٹھ کے کالج میں مار ڈینگ
بستے ہیں ہند میں جو خریدار ہیں فقط
آغا بھی لے کے آتے ہیں اپنے وطن سے ہینگ
یہ ہے ہمارا نظام تعلیم کا حال۔آج مملکت خداداد میں بیسوں لوگ ایسے موجود ہیں کہ جن کے پاس بڑے بڑے ڈگریاں موجود ہوتے ہیں مگر ان کو کوئی مناسب نوکری نہیں مل رہی اور اگر دوسرے ممالک بھی چلاجائے تو یہ کہہ کر چھوڑ دیا جاتا ہے کہ چھوڑو پاکستانی ہے بس صرف کرکٹ میچ کھیلتے اور دیکھتے رہتے ہیں، پڑھائی سے تو ان کا دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے۔اور اب بھی یہ وقت آنے کو ہے کہ 14 فروری سے ورلڈکپ 2015 ء کا آغاز ہو گیا اور مارچ میں مرحلہ ثانویہ کے امتحانات کا آغاز ہو جائے گا تو ہمارے طلبائے کرام کیا خاک امتحان کے لیے محنت کر لیں گے؟بلکہ طلبائے کرام کو سٹڈی کو اور برباد کر نے کے لیے امتحان سے دویا تین ہفتے قبل ہی سٹڈی چھوڑنا ہوگا کہ بس میچ اور یہ، تو یہ طلبائے کرام بورڈ امتحان کیسے دیں گے؟حالانکہ یہ اوقات یعنی دو یا تین ہفتے قبل کا وقت وہ وقت ہوتا ہے کہ اس میں طالب علم کوپانی کے پسینے کی بجائے خون کا پسنہ نکالنا ہوگا میرا مراد محنت اور خوب محنت کا ہے۔
تو اب میں حکومت خیبر پختونخوااور خاص کر وزیر تعلیم سے ایک دردمندانہ اپیل کرتا ہوں کہ خدارا!اس مملکت خداداد کے مستقبل کے معمار بننے والے بچوں پر رحم کھا کر آپ اپنا ایک ہنگامی میٹنگ منگوا کر مشورہ کر لیں کہ یا تو اس امتحان کو جنوری سے شروع کر لیا کریںاور یا اس امتحان کو اپریل سے شروع کر لیا کریں تاکہ ہمارے ان مستقبل کے معمار بننے والوں کے محنت کا استعداد خراب نہ ہو ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہو (آمین)۔
تحریر: رضوان اللہ پشاوری
رابطہ نمبر: 0333-9036560/0313-5920580
ای میل ایڈریس: rizwan.peshawarii@gmail.com