تحریر : سید انور محمود
ماضی قریب میں پاکستان کوایک مہذب اور پرامن ملک کے طور پر متعارف کرانے میں کھیلوں کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ ایک وقت تھا کہ اسکوش اور ہاکی پر ہمارا راج تھا، کرکٹ کے ورلڈ کپ ہم زیادہ تو نہیں جیت پائےلیکن برحال پاکستانی کرکٹ ٹیم کو دنیا کی اچھی ٹیموں میں شمار کیا جاتا تھا۔ جب سے پاکستانی معاشرئے میں کرپشن، سفارش اور دوسری برایئوں میں اضافہ ہوا ہے اور سارئے پاکستانی معاشرئے پر اسکا برااثر پڑاہے وہاں کھیل بھی ان برایئوں سے نہ بچ سکے۔ مسلسل پندرہ سال سے زیادہ عرصے پاکستان اسکواش کا عالمی چیمپئن تھا، پھر آہستہ آہستہ ہم زوال پزیر ہوتے چلے گئے اور آج صورتحال یہ ہے کہ شاید ہماری نئی نسل اسکوایش کے چیمپین جہانگیر خان اور جہاں شیر خان سے واقف بھی نہ ہو، ہاکی کے کھیل میں ہمارئے پاس مایہ ناز کھلاڑی موجود تھے، پاکستان وہ ملک ہے جس نےہاکی کی چیمپئنز ٹرافی کی بنیاد 1978ء میں رکھی تھی، ایک وقت تھا جب ہاکی کے سارئے اعزاز ہمارئے پاس تھے۔ دنیا کی ہر اچھی ٹیم نے ہم سے شکست کھائی تھی، لیکن آج ہاکی کا برا حال ہے۔
اسکواش تو ہم بلکل بھول چکے ہیں، اسکے کھلاڑی کون ہیں پتہ نہیں اب رہی ہاکی تو قومی ہاکی ٹیم کے کپتان محمد عمران کا کہنا ہے کہ طویل عرصے انٹرنیشنل ایونٹ میں اچھی کار کردگی دکھانے کے باوجود کھلاڑیوں کی مالی طور حوصلہ افزائی نہیں کی جارہی ہے جس سے قومی کھلاڑی سخت مایوسی کا شکار ہوگئے ہیں، جبکہ پی ایچ ایف مالی مشکلات کے باعث قومی کھلاڑیوں کو سینٹرل کنٹکر یکٹ کی رقم نہیں دے رہی ہے۔ وفاقی سطح پر کھیلوں کی وزارت کو ختم کردیا گیا ہے جس کے بعد کھلاڑی اپنی شکایت کس کے سامنے پیش کریں۔ وزیراعظم نواز شریف کے پاس ہاکی آفیشل سے ملنے کا ٹائم ہی نہیں کیونکہ وہ ہاکی کو زندہ رکھنے کےلیے پیسے مانگ رہے ہیں، جبکہ بین الصوبائی رابطے کے وزیر اور پاکستان اسپورٹس بورڈ کے حکام بھی کھلاڑیوں سے ملنے میں اپنی توہین محسوس کررہے ہیں۔یہ یاد رہے کہ ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے۔ اگر دھیان نہ دیا گیا تو پھر ہم کہیں گے کہ کسی زمانے میں ہمارئے ملک میں بھی ہاکی کھیلی جاتی تھی۔ ہاکی میں ہماری کارکردگی بھی بہت پیچھے جاچکی ہے لہذا اب صرف کرکٹ کا کھیل باقی رہ گیا ہے اور اسکی وجہ کرکٹ میں پیسے کی بہتات ہے اسلیے حکومت کے ساتھ ساتھ کرپٹ مافیا دونوں ہی اس میں بھرپور دلچسپی لیتے ہیں۔
دہشت گردی اور امن و امان کی وجہ سے غیرملکی ٹیموں نے پاکستان آکر کھیلنا چھوڑدیا ہے اس لیے ہم جب میزبان ہوتے ہیں تو متحدہ عرب عمارات کے شہروں میں مہمان ٹیم کے ساتھ کھیل رہے ہوتے ہیں۔ آجکل ایک روزہ کرکٹ کا عالمی کپ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں جاری ہے، پاکستانی کرکٹ ٹیم کی جاری عالمی کرکٹ کپ میں ناقص کارکردگی کی گونج پورئے پاکستان میں سنائی دئے رہی ہے، ابھی تک کی صورتحال یہ ہے کہ پاکستان نے چارمیچ کھیلے ہیں جن میں اول دو ہارئے اور بعد کے دو جیتے، سب سے زیادہ افسوس حسب دستور بھارت سے پہلا میچ ہارنے کا ہے، بھارت نے 76رنز سے شکست دی اور بعد میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم کے ہاتھوں پاکستان کو 150رنز کی عبر تناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔پاکستان کا میڈیا حسب دستور بی جمالو کا کردار ادا کررہا ہے، اپنی ریٹنگ بڑھانے کےلیے نام نہاد ایکسپرٹ بٹھاکر پاکستانی ٹیم پر کچھ زیادہ ہی تنقید کی جارہی ہے جو مناسب نہیں ہے۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان وسیم اکرم نے ٹی وی چینلز پر ماہرانہ تبصرے کرنے والے سابق کرکٹرز کو مشورہ دیا ہے کہ وہ کرکٹ پر بات کریں لیکن کسی کی ذاتی زندگی کو اچھالنا مناسب بات نہیں ہے۔ وسیم اکرم کا خیال ہے کہ معین خان کے معاملے کو حد سے زیادہ اچھالا گیا ہے۔بقول وسیم اکرم سارا ملبہ معین خان پر ڈال دیاگیا ہے۔ اس وقت سب سے بڑا معاملہ ورلڈ کپ ہے جس پر زیادہ بات کرنے کی ضرورت ہے ۔پاکستان کے سابق کپتان کا کہنا ہے کہ غیر ضروری تنقید کے سبب کھلاڑیوں پر بھی بہت زیادہ دباؤ ہے۔ ماضی کے مقابلے میں ان دنوں تنقید کے انداز میں بھی تبدیلی آئی ہے اور اب یہ مسالہ ہوگیا ہے۔ ورلڈ کپ میں ٹیم دو میچ ہاری اور سوشل میڈیا پر اس کا مذاق اڑانا شروع ہوگیا، جس کے منہ میں جو آ رہا ہے وہ بولے جارہا ہے۔ ورلڈ کپ میں شامل کھلاڑیوں کے اہل خانہ جب یہ سب کچھ میڈیا پر دیکھتے ہونگے تو اُن پر کیا گذرتی ہوگی۔جس پرانے ٹی وی کے کوئی کباڑی 100 روپے بھی نہ دئے رہا ہوتا ہے وہ کیمرہ کے سامنے توڑا جاتا اور ہمارا میڈیا اُس کو پہلے بریکنگ نیوز بناتا ہے اور بعدمیں اُسکو ہیڈلائنز بناکر چلاتا ہے۔ یہ ہمارا میڈیا ہی ہے جو چند لوگوں کو کرکٹ کا علامتی جنازہ نکالتے ہوئے بھی دکھاتا ہے۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم کی آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں جاری عالمی کرکٹ کپ میں ناقص کارکردگی کی گونج سیاست دانوں اورمنتحب ایوانوں میں بھی سنائی دینے لگی ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور آج کے سیاستدان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ کرکٹ کی موجودہ صورتحال کی ذمہ دار ن لیگ ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ پی سی بی میں سفارشی لگیں گے تو کرکٹ تباہ ہو جائے گی۔ نجم سیٹھی کو الیکشن میں پنچر لگانے پر وزیراعظم نواز شریف نے انعام کے طور پر انہیں پی سی بی کا چیئرمین لگایا ۔ جواب میں وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر پرویزرشید نے کہا ہے کہ کرکٹ کی تباہی کے اصل ذمہ دار عمران خان ہیں۔ انہوں نے جب کرکٹ چھوڑی کرکٹ تباہ ہونا شروع ہوگئی۔ جبکہ منتخب نمائندوں کا کہنا ہے کہ اگر شدت پسندی کو روکنے کے لیے دہشت گردوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیجے جا سکتے ہیں تو پھر ان افراد کے خلاف بھی مقدمات فوجی عدالتوں میں بھجوائے جائیں جو قومی کرکٹ ٹیم کی اس ناقص کارکردگی کے ذمہ دار ہیں۔ یہاں عمران خان کی تنقید تو سمجھ میں آتی ہے کیونکہ وہ کرکٹ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں، لیکن درباری وزیر پرویز رشید اور منتخب نمائندوں کے بیانات صرف تنقید برائے تنقید ہیں۔
لگتا ایسا ہے کہ اس وقت پاکستان کرکٹ ٹیم کی خراب کارکردگی پر سب اپنے اپنے دل کے پھپھولے پھوڑنا ضروری سمجھ رہے ہیں، بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے، پاکستان کے ایک جواری کھلاڑی محمدآصف جو 2010ء میں برطانیہ کے دورے کے دوران اسپاٹ فکسنگ ثابت ہونے پر پابندی کا شکار ہوگیا تھا اور الزام ثابت ہونے پر برطانیہ کی جیل میں سزا بھی کاٹی تھی، اُس نےاپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ گیار ویں آئی سی سی ورلڈ کپ میں بری کارکردگی کی ذمہ دار صرف قومی کرکٹ ٹیم نہیں اس تاریخی شکست میں کرکٹ بورڈ کی سلیکشن کمیٹی برابر کی شریک ہے۔ قومی کرکٹ ٹیم نے جس بری کارکردگی سے پاکستانی قوم کی امیدوں پر پانی پھیر کر مایوس کیا پچھلے کئی برسوں سے اس کی مثال نہیں ملتی۔ محمدآصف کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ٹیم کی بدترین کارکردگی کے بعد ٹیم کے کپتان کوچ اور سلیکشن کمیٹی کو اپنے عہدوں پر براجمان رہنے کا کوئی حق نہیں بلکہ انہیں فوری طور پر اپنے عہدوں سے مستعفی ہوجانا چاہئے۔اور بقول ایک پاکستانی نژاد برطانوی کے کہ اگر آج پاکستانی ٹیم کو انگلینڈ میں سیریز کھیلنے کو مل رہی ہوتی تو اس سے پاکستانی کرکٹرز اور پاکستان کرکٹ بورڈ کو فائدہ پہنچتا لیکن چند پیسوں کے لیے محمد آصف ، محمد عامراورسلمان بٹ نے دنیا بھر میں ہمیں شرمسار کردیا۔ ابھی ورلڈ کپ جاری ہے ختم نہیں ہوا ہے اور نہ ہی اس ورلڈ کپ کے بعد پاکستان سے کرکٹ ختم ہوجائے گی۔ یقینا پاکستانی کرکٹ ٹیم میں بہت اصلاح کی ضرورت ہے، لیکن کیا اسطرح کی تنقید کرنے کا یہ مناسب وقت ہے۔ یہ چند لوگوں کے مفادات یا میڈیا کی ریٹنگ بڑھانےکی خواہش تو ہوسکتی ہے لیکن عوام کی نہیں، عوام کی ساری دلچسپی اپنی ٹیم کی جیت یا ہار سے ہے، تنقید ضرور کیجیے گا لیکن ورلڈ کپ کے فائنل کے بعداسلیے ہوسکتا ہے کہ آج جو تنقید آپ کررہے ہیں کل نتیجہ اُس کے برعکس ہو اور کرکٹ کے بارئے میں کوئی پیشنگوئی آخری نہیں کہی جاسکتی۔یقینا یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ٹیم کی بھرپور اصلاح کی جائے اور کرکٹ کا انجام اسکواش اور ہاکی جیسا نہ ہو، پاکستانی میڈیا کو بھی اپنی ریٹنگ بڑھانے سے زیادہ اپنی قومی ذمہ داری کو محسوس کرنا چاہیے۔
تحریر : سید انور محمود