تحریر : لقمان اسد
کیا سانحہ پشاور سے کوئی سبق ہم نہ سیکھ پائے اور کی آئندہ بھی اسی طرح سفاک قاتلوں اور اندھے دہشت گردوں کیلئے فضا ساز گار ہی رہے گی ؟حکومت کا وجود تو جیسے کہیں محسوس ہوتا دکھائی بھی نہیں دیتا تو کیا اب اللہ کی مخلوق اور عامی ہی خود اپنی جانوں کی حفاظت کیلئے کوئی لائحہ عمل ترتیب دیں ؟اگر حکومت نے کچھ کرنا ہوتا تو 2008یعنی جناب ڈاکٹر آصف علی زرداری کے دور بے مثال سے لیکر اب تک حکومتی سربراہان یہی طوطے کا رٹا رٹایا جملہ ہی دہرا کر زخموں سے چور قوم کے سامنے رکھتے آتے کہ مسائل ہمیں ورثہ میں ملے ہیں یہ پاکستان اور پاکستانی قوم کی بد قسمتی کی انتہا ہے کہ ہر بار وہ ایک نئی اُمید دلاتے سیاسی شعبدہ بازوں سے فریب کھاتے اور اُن پر اعتماد کرتے ہیں مگر کیا کیجیئے ستم بالا ئے ستم ہر بار عوام کے اعتماد کو ٹھیس ہی محض نہیں پہنچتی بلکہ ہر بار منتخب ہونے کے بعد حکمرانوں کا انداز جبر ایک نئے روپ میں سامنے آتا ہے
گویا اُنہیں جب بھی دیکھا ہے عالم نو دیکھا ہے مرحلہ طے نہ ہوا اُن کی شناسائی کا کہاں ہے خان عبدالغفار خان کی اے این پی کہ بھڑکتے آگ کے الائو میں اُس سرحدی گاندھی کی اولاد ہی بروئے کار آتی جو خود ان کمینے اور سر تا پا بے حیا سفاک دہشت گردوں کی زخم خوردہ ہے خیبر پختون خواہ کے غیرت مند ،درد مند اور بہادر پٹھان ہی کمر بستہ ہوں اور ان ظالم دہشت گردوں کے خلاف میدان عمل میں اُتریں دل پھٹنے کو ہے، دماغ مائوف اور کلیجہ منہ کو آتا ہے خدا کے بندو! حکومتوں کی طرف کب تک دیکھتے رہو گے ؟ اُن لوگوں سے اُمیدیں کیوںکر وابستہ کی جاسکتی ہیں کہ جنہیں اپنے خاندان کے ماسوا کسی کی حالت زار اور اپنے ذاتی مفادات اور کاروباروں کے سوا کسی عام آدمی کے شب و روز سے کوئی سروکار ہرگز نہیں اللوں تللوں پر بے دریغ سرکاری خزانہ خرچ کرنے کے مرض میں مبتلا یہ شاہی طبقہ اور اپنے لاڈلے شہزادوں کیلئے لینڈ کروزر کا ہر نیا اور مہنگا ترین ماڈل خریدنا جن کی اولین ترجیحات ہوں اور کیا وہ حکمران طبقہ جو حکومت میں ہونے کے باوجود اپنے ذاتی اثاثو ں کو ظاہر کرنے سے ہمیشہ ہچکچاتا اور ٹیکس ادا کرنے سے ہمیشہ گریز ہی کرتا ہے
دہشت گردی کے آسیب کے خلاف اس جنگ میں کمر بستہ ہو کر ان درندوں کو شکست فاش سے دوچار کرنے کی غرض سے میدان عمل میں نکلے گا ؟حکومت سے بغاوت مقصود نہیں مادر گیتی کا دفاع اور بیرون ایجنڈے پر چلنے والے ”راء ” کے ایجنٹ قاتلوں سے نجات مقصود ہے محب وطن حکمرانوں کا کردار یہ ہوتا ہے کہ وہ داعش کے دہشت گردوں کے ہاتھوں جلائے جانے والے ایک ہواباز شہری (پائیلٹ )کی موت کے بعد ہنگامی طور پر اپنی کابینہ کو یہ فیصلہ سناتا ہے کہ وہ اُس پائیلٹ کی جگہ خود بیٹھ کر دعش کے ٹھکانوں پر بمباری کرے گا اور دیکھے گا کہ اُن میں کتنا دم ہے یہ ایک چھوٹے سے اسلامی ملک کی مثال ہے جس کے پاس نہ ایٹم بم ہے اور نہ ہی اس قدر سکیورٹی فورسز مگر قومی غیرت ،زندہ ضمیری اور جرات نے اسے یہ کردار ادا جکرنے پر مجبور کیا لیکن اس کے برعکس وطن عزیز کے بے حس حکمراں ملک میں روزانہ کی بنیاد پردرجنوں کے حساب سے بے جرم گرتی لاشوں کو ایک کھیل سمجھ کر یکسر نظر انداز کرتے ہیں تو اس باب میں بتلائیے اور کیا کہا جائے
حیرت ہوتی اور دماغ کھولنے لگتا ہے ہر المناک انسانی المیہ پر صوبے کا آئی جی صرف یہی حقائق بتانے پر ہی اکتفا کرتا ہے کہ قاتل عقبی دروازہ سے نہیں بلکہ دیواریں پھلانگ کر اندر گھسے اور بے جرم انسانوں کا قتل عام کیا حکومت اگر کہیں قائم ہے اور حکومتی سربراہان کا ضمیر زندہ ہے تو آئی جی سے باز پرس کیوں نہیں ہوتی کوئی اُس پر یہ سوال کیوں نہیں داغتا کہ جناب آپ کو صوبے کی ایک فورس کی کمان کی ذمہ داری کیا اسی لئے سونپی گئی ہے کہ آپ قاتلوں کے طریقہ واردات اور اندر گھس آنے سے متعلق کہانیاں ہمیں سناتے رہیں خیبر پختون خواہ میں سولہ دسمبر کو کھیلی جانے والی خون کی ہولی کہ جس میں معصوم طلبہ و طالبات کو درندہ صفت قاتلوں نے ظلم کی تمام حدیں عبور کرتے ہوئے بے دردری سے شہید کردیا اُس سانحہ کا غم ابھی ذہنوں پر مسلط تھا کہ سانحہ حیات آباد جس میں بیس نمازی شہید ہوئے نے دکھ درد کے ایسے کرب میں پوری قوم کو دھکیل دیا ہے کہ مدتوں جس کا غم اذہان و قلوب پر نقش رہے گا
صوبہ خیبر پختون خواہ کی حکومت اور وزیر اعلیٰ یہ تصور ذہن سے نکال دیں کہ اخباری بیانات یا روایتی اقدامات اُٹھانے کے سبب صوبہ میں آگ کے اس جلتے الائو کو بجھایا جاسکتا ہے ایک خاموش مگر تیز حکمت عملی جو موثر انداز میں رو پذیر ہو سکے اس ضمن میں اس کی فوری ضرورت ہے تحریک انصاف کی حکومت اس صوبہ میں ہے جو مشکلات اُسے اس حوالے سے درپیش ہوں وہ وفاقی حکومت کو آگاہ کرے لیکن میڈیا پر ڈھول نہ پیٹا جائے یہ الگ بات کہ وہ اگر وفاق کو سنجدہ نہ پائیں تو جنل راحیل شریف کو اعتماد میں لیں ایسی کونسی قیامت ٹوٹ پڑی ہے کہ ایک منظم، طریقہ بروئے کار لایا جائے اور اُس کے باوجود بھی چند بے گھر بد معاشوں کا ٹولہ قابومیں نہ لیا جاسکے حکومت اور حکمران سنجیدگی کا مظاہرہ کریں
وہ اگر غیر ملکی دوروں اور لنچ اور ناشتوں میں ملک اور قوم کا وقت تباہ و برباد نہ کریں تو کوئی ایسی رکاوٹ اس راہ میں حائل نہیں کہ ملک میں امن نہ لایا جاسکے خدا خوفی دلوں میں ہو اور نیت بھی درست ہو تو اس دنیا میں انسان کونسی جدوجہد میں سرخرو اور کامیاب نہیں ٹھہرتا قصے بہت سن لئے اس قوم نے حیلے ،بہانے اور من گھڑتجھوٹے فسانے بھی خدا را بس کیجئے لاشوں کی سیاست سے گریز ہی برتیئے گا کہ اب تو ملک اس امر کا متحمل ہے اور نہ ہی قوم خدا را! یہ کھیل اب بند ہونا چاہیئے
تحریر : لقمان اسد