لاہور (ویب ڈیسک)مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے 72 گھنٹے میں ابتدائی رپورٹ تیار ہی نہیں کی بلکہ چیف منسٹر عثمان بزدار صاحب کے سامنے رکھ بھی دی۔ دفعہ 302 تعزیراتِ پاکستان اور انسدادِ دہشت گردی کی سیکشن 7 کے تحت درج مقدمے کی تفتیش کو آگے بڑھانے کے لیے جے آئی ٹی نے وقت مانگ لیا۔ نامور کالم نگار بابر اعوان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ بے گناہ مارے جانے والوں کے قاتلوں کا ہمدرد کون ہو سکتا ہے۔ پھر ملک کی ٹاپ تفتیشی اور انٹیلی جنس ایجنسیاں کسی رو رعایت کی طرف کیوں جائیں۔ ساہیوال سانحے کے قانونی پہلوئوں پر وزیرِ اعظم عمران خان اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب‘ دونوں سے میری علیحدہ علیحدہ بات بھی ہوئی۔ مجرم اور لحاظ۔ قتل اور کسی کی پشت پناہی۔ عمران خان کے ہوتے ہوئے ایسا ممکن نہیں۔ قطر میں وزیرِ اعظم سے ایک سے زیادہ مرتبہ رابطہ ہوا۔ اسی لیے یہ بات وثوق اور یقین سے قوم کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں۔ قا نون کی چکی چل پڑی ہے۔ صوبہ پنجاب کے چیف ایگزیکٹو نے نالائقی اور غفلت کرنے والے افسران کو ہٹا دیا۔ تفتیش مکمل ہو گی۔ چالان عدالت میں جائے گا‘ جہاں مقدمے کے واقعات اور شہادتوں کی روشنی میں فیصلہ آئے گا۔ مگر یہ کون لوگ ہیں‘ جن کی تفتیش مکمل ہو چکی ہے‘ اور میک اپ مکمل ہونے سے پہلے ہی فیصلہ بھی آ گیا۔ ذرا آوازیں سنیے‘ کہنے اور کہلانے والوں‘ دونوں کی آوازیں۔ چہرے آپ خوب پہچانتے ہیں۔ ایک نے کہا، یہ پو لیس مقابلہ حکمرانوں کے گلے پڑ جائے گا۔ وہ خود ماڈل ٹائون قتلِ عام کی F.I.R کا نامزد ملزم ہے۔ہمراہی نہیں‘ بڑا ملزم۔ اس دور میں ماڈل ٹائون قتلِ عام پر ایک نہیں دو، دو دفعہ J.I.T بنائی گئی۔ قتلِ عام کے ملزم اہلکار بیرونِ ملک انعامی پوسٹوں پر ٹرانسفر کیے گئے۔ کیمروں کی آنکھ کے سامنے گولیاں مارنے والے ابھی تک آزاد پھر رہے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹائون کے شہدا کے وارثان اور بیوائیں‘ بلکہ مقتول خواتین کے بھائی، بہن، شریکِ حیات اور بچے تڑپتے رہے۔ جسٹس باقر نجفی کمیشن رپورٹ کو ترستے رہے۔جسٹس باقر نجفی کی سربراہی میں قائم One Man جوڈیشل کمیشن نے 9 اگست 2014 کو اپنی رپورٹ مکمل کر دی۔ ماڈل ٹائون قتلِ عام کا ملزمِ اعلیٰ، چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے رپورٹ دبا کر اس پر بیٹھ گیا۔ مظلوم مقتولوں کے اہل خانہ کی طویل عدالتی جنگ۔ ہمارے دوست ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کی تھکا دینے والی جدوجہد کے نتیجے میں ہی یہ رپورٹ منظر عام پر آ سکی۔ ڈاکٹر قادری کو صرف یہ رپورٹ حاصل کرنے کے لیے 3 سال 1 ماہ اور 13 دن طویل عدالتی جنگ لڑنا پڑی۔ یاد رکھیے گا! یہ رپورٹ قاتل فریق نے باہر نہیں نکالی‘ بلکہ عدالتی حکم سے منظر عام پر آئی۔ اسی پنجاب میں ملک کی آخری عدالت کا ایک اور حکم بھی پچھلے سال سے عمل درآمد کا منتظر ہے۔اس حکم کے ذریعے مورخہ 5 دسمبر2018 کو انہی ملکی اداروں پر مشتمل ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل پائی ہے۔ سپریم کورٹ نے اس جے آئی ٹی کو حکم جاری کیا کہ وہ ماڈل ٹائون قتلِ عام پر منصفانہ تفتیش کرے‘ اور ملزموں کو انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کرے۔ یہاں بنیادی سوال یہ ہے مظلوموں کے لیے انصاف کے نعرے مارنے والا ماڈل ٹائون قتلِ عام کا بڑا ملزم اس J.I.T کا کام بھی 72 گھنٹے میں مکمل کرنے کا مطالبہ کرے گا کیا؟میں نے اس صفحے پر بار بار شہریوں کے ماورائے عدالت قتل اور 10 سالہ شریف دور کے پُلس مقابلوں کے خلاف لکھا‘ جن میں 8/8, 10/10 جوان لڑکے مار کر انہیں نا معلوم قبروں میں اتار دیا گیا۔ اسی میڈیا پہ صرف اتنی خبر چلی کہ اتنے شر پسند پولیس مقابلے میں پار ہو گئے۔ گجرات کے ایک تھانے کے پولیس مقابلے کی ایک فوٹو آج بھی سوشل میڈیا پر موجود ہے‘ جس میں بھاگتے ہوئے ”دہشت گرد‘‘ مار کر ان کی لاشوں کی تصویر بنوائی گئی۔ نہ وہ کسی مقدمے میں گرفتار تھے‘ نہ ہی کسی فوجداری جرم میں مطلوب۔ کی ان 9 لاشوں کے ساتھ تصویر کھنچوانے والے یہ حقیقت بھول گئے کہ ان سب کو ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھیں۔سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر یہ سوال آج بھی جواب مانگ رہا ہے کہ جو ملزم پولیس چوکی پر مبینہ حملے کے لیے تیار ہو کر آئے اور مقابلے کے دوران مار دیے گئے‘ ان کو ہتھکڑیاں کس نے پہنائیں۔ فرشتٔہِ اجل نے یا کسی عادی قاتل نے۔اگلے دن ساہیوال کے دل سوز سانحے پر قومی اسمبلی میں بحث ہوئی۔ ماڈل ٹائون قتلِ عام کے نامزد ملزموں کے گینگ نے مطالبہ کیا: ساہیوال قتل کا مقدمہ فوجی عدالت میں چلایا جائے۔ مطالبہ جائز ہے۔ کیوں نہیں، ضرور، ضرور۔ میں ساہیوال قتل کے مقدمے کو فوجی عدالت میں چلانے کی حمایت صرف اتنی سی ترمیم کے ساتھ کر رہا ہوں کہ ساہیوال اور ماڈل ٹائون‘ دونوں قتل کے مقدمات ٹرائل کے لیے فوجی عدالت میں بھیج دیے جائیں۔ کیا شہباز شریف اور ان کا گینگ اس مطالبے کی حمایت کرے گا؟ یہاں ایک بنیادی سوال یہ ہے آخر صرف پانچ مہینے پرانی وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت نے ایسا کیا جرم کر دیا‘ جو ہماری اپوزیشن اور میڈیا‘ دونوں کو مسلسل ناگوار گزر رہا ہے۔ کیا عمران خان کارِ سرکار کی بجائے ذاتی کاروبار میں ملوث ہو گئے ہیں یا پھر منی لانڈرنگ کے خلاف ملکی تاریخ کا سب سے بڑا آپریشن باعث پریشانی ہے‘ جس کی تعریف F.A.T.F نے بھی کر دی۔کہیں IMF کی توہین آمیز شرائط سے ملک کو بچانے کی سعی اور بیلنس آف پے منٹ کے بحران کو سفارت کاری کے ذریعے حل کرنا جرم تو نہیں بن گیا؟ کون نہیں جانتا کہ پاکستان میں بین الاقوامی بنیے کی جڑیں کس قدر گہری ہیں۔ پانچ مہینے کے مختصر ترین عرصے میں تجارتی خسارے کو نصف کر دینا یا پھر پاکستانی میڈیا کو سرکاری اشتہارات کی بدنامِ زمانہ خریداری کی پالیسی ترک کرنا‘ اور قومی خزانے سے پورے ہونے والے اشتہاروں کے ریٹ میں 70 فیصد تک کی کمی‘ موجودہ ”بخار‘‘ کا سبب ہے۔ ملائیشیا، یو اے ای اور سعودی عرب کی جانب سے سرمایہ کاری کے دروازے کھولنا اور گوادر میں آئل ریفائنری لگانے کا گناہ معاف نہیں ہو سکتا۔ جرمن ایئر لائن اور برٹش ایئر ویز کی عشرے بعد پاکستان میں سروس شروع کرنے کے اعلان و امکان تو پریشان نہیں کر رہے۔ ہو سکتا ہے 27 سال بعد دنیا کی سب سے بڑی آئل کمپنی کی پاکستان واپسی کسی کو کھٹک رہی ہو۔ کی رَٹ لگانے اور منترا گانے والے امریکہ بہادر نے پانچ ماہ کی غیرت مند سفارت کاری سے پاکستان کو عزت دینے اور سٹیک ہولڈر ماننے پر رضا مندی ظاہر کی۔ کیا اس سے پریشانی بڑھ گئی ہے۔ ارے یاد آیا! پناہ گاہوں کے قیام سے سڑک پر سونے والے بے سہارا لوگوں کو مفت چھت اور کھانا دینا جرمِ مسلسل ہے کیا۔ یا پھر آلو، پیاز بلکہ ساری سبزیاں اور تمام فروٹ لنڈے کے بھائو دھڑی کے حساب سے بکنے لگ گئے‘ اس کی پریشانی ہے کیا۔ یہ کیسی آ وازیں ہیں۔ پاکستان ٹیک آف نہیں کر سکتا۔ ایٹمی ریاست فیل ہو رہی ہے۔ ملک کا کوئی مستقبل منی لانڈرنگ، میگا کرپشن کے بغیر نہیں۔ جب سے چور چوکیدار کا کھیل ختم ہوا‘ کرپشن کے کارٹل خدشے میں آ گئے۔ اتنی سی بات تو سب سمجھتے ہیں۔ ایک ٹولہ 29 سال‘ دوسرا 36 سال برسرِ اقتدار رہا۔ یہ زبوں ہمت، تہی غیرت، سیہ فطرت فقیر ۔۔ گھن گرج باتوں میں، لیکن فی الحقیقت بے ضمیر ۔۔ حال کی تحریکِ آزادی میں رجعت کے سفیر ۔۔ مخبروں کے ڈار میں پولیس کے منکر نکیر ۔