کراچی: آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے کہا ہے کہ کراچی میں سیکیورٹی انفرااسٹرکچر میں سرمایہ کاری نہیں کی گئی۔آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے کہا ہے کہ کراچی میں سیکیورٹی انفرااسٹرکچر میں سرمایہ کاری نہیں کی گئی، شہر کو بدقسمتی سے کسی نے اوون نہیں کیا، اب تک 4 آپریشن کیے گئے لیکن ہر جگہ چھوٹی چھوٹی مافیاز موجود ہیں، شہر میں لسانی تعصب بڑا مسئلہ ہے،لاہور کا سیف سٹی نظام مثالی ہے، ڈولفن فورس جدید فورس ہے جو موثر انداز میں کام کررہی ہے، رمضان میں ملک بھر سے گداگروں کے ساتھ جرائم پیشہ عناصر بھی کراچی کا رخ کر لیتے ہیں، ایف پی سی سی آئی میں تاجروں اور صنعت کاروں سے خطاب کرتے ہوئے آئی جی سندھ نے کہا کہ بزنس کمیونٹی اور امن وامان کا براہ راست رابطہ ہے، امن وامان سے کاروبار میں تیزی آتی ہے۔شہر میں پائیدار امن کے لیے تعصب کا خاتمہ ضروری ہے، کراچی کے شہریوں کے دماغوں میں تعصب کا زہر گھولا گیا، یہ وہ واحد شہر ہے جہاں تعصب پر لوگوں کو قتل کیا جاتا ہے، معاشیات کے حوالے سے سب سے زیادہ زمینوں پر قبضہ نظر آتا ہے، پشتو اور دیگر زبانیں بولنے والے اپنے صوبوں سے زیادہ کراچی میں آباد ہیں، انھوں نے کہا کہ یہ سوچنا ضروری ہے کہ آخر کیوں کراچی میں بار بار آپریشن کی ضرورت پڑتی ہے۔یہ پہلا آپریشن نہیں کراچی میں پہلے بھی کئی آپریشن ہوچکے ہیں، کراچی میں یہ چوتھا آپریشن تھا،88کے بعد 93 پھر 99 کے بعد 2013 میں آپریشن ہوا، کراچی کو اونر شپ کی ضرورت ہے، آئی جی سندھ نے لاہور میں سیکیورٹی کے لیے جدید نظام کو سراہتے ہوئے کہا کہ لاہورسیف سٹی پراجیکٹ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے،لاہور کی ڈولفن فورس ایک جدید فورس ہے جو بہتر کام کررہی ہے،آئی جی سندھ نے کہا کہ سخت پولیسنگ سے کراچی کے مسائل حل نہیں ہو سکتے، ملزمان گواہوں اور ایف آئی آر کے اندراج نہ ہونے پر 3 ماہ میں بری ہوکر باہر آجاتے ہیں۔موبائل فون چھیننے کی ایف آئی آر درج نہیں ہوتی، ڈیپ سی پورٹ بن گیا، انفرا اسٹرکچر کے لیے کچھ نہیں کیا گیا، سڑکوں پر ایک وقت میں ایک ہی ٹرک یا کنٹینر گزر سکتا ہے، سیکیورٹی انفرا اسٹرکچر میں بھی سرمایہ کاری نہیں کی گئی، اب ہم سندھ پنجاب کے صوبوں کے ساتھ رابطوں میں ہیں۔