مجرمانہ غفلت، بوسیدہ ٹریک اور کھلے ہوئے ریلوے پھاٹک، پاکستان میں کئی قیمتی جانوں کے ضیاع کا سبب بنتے رہے ہیں لیکن ہر حادثے کےبعد تحقیقاتی کمیٹیوں کا قیام اور وعدے وعید ہی پاکستانیوں کا مقدر ہیں ۔
انیسویں صدی میں قائم ہونےوالے ریل نیٹ ورک کو دوصدیاں گزرگئیں لیکن پاکستان ریلوے کی بنیادی خامیاں دور نہ ہوسکیں ۔آج بھی محض سگنل کے نظام میں غفلت سے کئی قیمتیں جانیں لقمہ اجل بن گئیں ۔
یہی سگنل کا نظام پندرہ ستمبر دوہزارسولہ کو بھی خوفناک تصادم کا سبب بنا جب ملتان کے قریب حادثے کےباعث کھڑی کارگو ٹرین کو پیچھے سے آنےوالی عوام ایکسپریس نے ٹکرماردی۔تصادم میں چھ افردا جاں بحق جبکہ ایک سوپچاس سے زائد زخمی ہوئے ۔
رواں سال ہی پندرہ فروری کوحیدرآباد کے قریب ریلوے اہلکار پھاٹک بندنہ کرسکا جس کے باعث مسافروین پٹری عبور کرنے کےدوران تیزرفتار ٹرین کی زد میں آگئی۔حادثے میں مسافر وین میں سوار آٹھ افرد جان کی بازی ہارگئے ۔
اس سے قبل دوجولائی دوہزار پندرہ میں خستہ حال پل ٹونٹنے سے فوجیوں اورانکے اہلخانہ کو لے جانےوالی ٹرین گوجرانوالہ کے قریب نہر میں گر گئی ۔حادثے میں چودہ قیمتی جانوں کا نقصان ہوا ۔