تحریر : شاہد شکیل
پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات بڑھنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جب تک یہ پتہ نہیں چلے گا کہ دہشت گردی کے اسباب و محرکات کیا ہیں اس دہشت گردی میں کون ملوث ہے ،زرخرید افراد ہیں یا کسی مجبوری کے تحت ان سے یہ گھناؤنا کام کروایا جاتا ہے ،ان کے اصل مقاصد اور عزائم کیا ہیں،کن لوگوں کے کہنے پر معصوم اور بے گناہ لوگوں کی جانیں لی جاتی ہیں اس کا خاتمہ ناممکن ہے۔صرف مفروضوں یا نظریات کے حامل لوگوں سے دہشت گردی کی روک تھا م نہیں ہو سکتی،بیان بازیو ں سے دہشت گردی پرقابو پانا ممکن ہے کیونکہ اس کے خاتمے کیلئے نئے قوانین یا کسی پر تہمت لگانے کی بجائے نیک نیتی ، خلوص ، دیانت داری ،خود اعتمادی، قومی یکجہتی اور قوت ارادی کی اشد ضرورت ہے۔ آئے دن ملک کے کسی حصے میں دہشت گردی کا کوئی نہ کوئی واقعہ ضرو ر پیش آتا ہے جسے سیاسی پارٹیاں انتخابی ایشو بناتی اور حکومت کی تذلیل کرتی ہیں واقعہ کی جڑ تک پہنچنے کی بجائے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے حکومتی کارندے اور مخصوص قانون کے رکھوالے پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق چند بے گناہ لوگوں کو پکڑ کر گناہ گار اور مجرم ثابت کرکے جیلوں میں ٹھونس دیتے ہیںنہ کوئی ثبوت نہ کوئی گواہ جیسے کہ گزشتہ دنوں چرچ میں ہونے والے واقعہ کے بعد دو بے گناہ افراد کو بے رحمی سے جلا دیا گیا اور سب نے چپ سادھ لی،
حیرت اور افسوس تو اس بات پر ہوتا ہے کہ مفروضات پر عمل کرنے پر تو خوب زور دیا جاتا ہے اور سرکاری و غیر سرکاری سطح پر واقعات کا پروپیگنڈا بھی کیا جاتا ہے لیکن اصل مجرموں اور دہشت گردوں کے چہرے بے نقاب ہونے کے باوجود بے گناہوں کو تختہ وار پر لٹکا دیا جاتا ہے۔ دہشت گردوں کو دہشت گردانہ کارروائیوں سے روکنا اس لئے بھی ناممکن ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں ہم کبھی قانون کی گرفت میں نہیں آسکتے اور اگر کوئی محب وطن اور فرض شناس افسر ہمارے گریبان میں ہاتھ ڈالے گا تو ماسٹر مائنڈ اسکی وردی اتروا دے گابات عیاں ہے کہ قانون کا خوف ہی اتنا خوف زدہ ہوتا ہے کہ کوئی عام انسان جرم کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا لیکن جس ریاست میں قانون محض اوراق میں دفن ہو اور اس پر عمل درامدنہ ہو تو دہشت گرد کے علاوہ ایک عام انسان بھی مجرم بن جاتا ہے وہ جانتا ہے کہ چوری ایک روپے کی ہو یا ایک کروڑ کی چوری چوری ہی ہوتی ہے ایک انسان کو قتل کروں یا دھماکے سے دس اڑا دئے جائیں قتل قتل ہوتا ہے، مجرموں کو اس سے کوئی غرض نہیں سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ جب ایک مجرم اتنی فرض شناسی سے اپنا کام سر انجام دے سکتا ہے تو حکومت کیوں نہیں عوام کو تحفظ فراہم کر سکتی قوانین میں رد وبدل کی بجائے سیکیورٹی اداروں کو اختیارات کیوںنہیں دئے جاتے ؟بات جہاں سے شروع ہوتی ہے وہیں ختم ہو جائے تو معاملات کبھی حل نہیں ہو سکتے،
قانون کی اجارہ داری نہ ہونے پر پاکستان جیسے ملک میں تو سر عام ،پولیس سٹیشنز،تھانوں ، کچہریوں اورعدالتوں کے بیچ ” مک مکا ” ہو جاتا اور مجرم پھر نئے جرم کی پلاننگ شروع کردیتا ہے۔دہشت گرد تو مرنے ہی کیلئے تیار ہو کر آتے ہیں انہیں کس قانون کا خوف ،جب تک کسی ایک دہشت گرد کو ایسی سزا نہیں دی جائے گی کہ جس سے دوسرے لوگوں کو بھی عبرت حاصل ہو یہ سلسلہ چلتا رہے گا حکومت کو چاہئے دہشت گردی کی اس وبا کو روکنے کیلئے نئے سرے سے اقدامات کرے اگر کوئی حکومتی کارندہ اس دہشت گردی میں ملوث نہ ہو تو اور سخت سے سخت قانون بنائے ،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ قانون کا غلط استعمال کرتا کون ہے قانون نافذ کرنے والے ،قانون کی رکھوالی کرنے والے یا قانون توڑنے والے ؟قانون کو مٹھی بھر لوگ جب مٹھی میں رکھیں گے تو قانون کی پاسداری اور احترام کون کرے گا ۔ ایسے حالات میں دنیا کا کوئی انسان یہ پتہ نہیں لگا سکتا کہ اصل مجرم کون ہے؟
جب تک پولیس کو سیاست اور سیاسی پارٹیوں کے دباؤ اور اثر سے دور نہیں رکھا جاتا ،انہیں پوری آزادی سے اپنا فرض ادا نہیں کرنے دیا جاتا کہ وہ بھی ایک ادارہ ہے اور اس ادارے میں کام کرنے والے ملک و قوم کو جواب دہ ہیں پولیس ڈیپارٹمنٹ میں چھپی بھیڑوں کو بے نقاب نہیں کیا جاتا کوئی بھی قانون کا حترام نہیں کرے گا ویسے بھی عوام کا پولیس پر اعتماد نہیں رہا تو ملک میں پھیلی دہشت گردی پر کیسے قابوپایا جائے گا۔قانون کا غلط استعمال کرنے والے پولیس افسران پر پوری نظر رکھنے کیلئے ایک اور ادارے کی بنیاد رکھنا ناگزیر ہے بشرطیکہ نیا ادارہ قانون کے دائیرے میں رہ کر اپنا فرض نبھائے۔اسے ملک کا المیہ کہا جائے یا سیاست دانوں کی بازیگری کہ جب بھی ملک میں دہشت گردی کا واقعہ پیش آتا ہے اس پر قابو پانے کی بحث چھڑتی ہے تو بات گھوم پھر کر امریکا ،اسرائیل اور بھارت کی کارستانی قراد دی جاتی ہے یا پولیس کی نااہلی پر سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور اندھیرے میں کالی بلی تلاش کی جاتی ہے
حالانکہ ماضی میں کئی بار اس قسم کے تلخ واقعات رونما ہونے کے باوجود دو دن فضول بیان بازی جاری رہتی ہے اور کوئی ٹھوس لائحہ عمل یا مستحکم سیکیورٹی پلاننگ نہیں کی جاتی،حکومت نئے نام سے نیا قانون بنوا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کرتی ہے کہ جلد دہشت گردی کاخا تمہ ہو جائے گا اور ان کے تئیں جو ذمہ داری تھی پوری ہو گئی ،لیکن کبھی بنیادی مسئلے پر غور نہیں کیا گیا کہ دہشت گردی کی حقیقت کیا ہے؟اور ملک میں دہشت گردی کے واقعات بند کیوں نہیں ہوتے؟میرا مقصد کسی بھی حکومت سے کوئی خار نکالنا نہیں بلکہ توجہ دلا نا ضروری ہے کہ آپ اپنے ملک کے ایک پولیس مین کی وردی، اسکی رہائش، اسکی تعلیم ، اور مورال پہ نظر ڈالیں اور ایک نظر ترقی یافتہ ممالک کے پولیس مین کو دیکھیں،میں غربت کی چکی میں پس رہا ہوں ،میرے پاس تعلیم نہیں ہے ہم ترقی پذیر قوم اور ملک ہیں کی رٹ لگا لگا کر ہر فرد کو ذہنی طور پر مفلوج کر دیا گیا ہے کیوں؟جب تک ایک انسان کی سوچ مثبت نہیں ہوتی وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا ،اور یہ حال ریاست کے حکمرانوں اور قوموں کا بھی ہے حکمران اچھی ،بہتر ،مثبت اور ترقی کے بارے میں سوچیں گے بلکہ پریکٹیکل کر کے دکھائیں گے تو دنیا کی کوئی طاقت ملک و قوم کو ترقی کرنے سے نہیں روک سکتی۔سڑکیں بنانے کا دو چار کروڑ لوگوں کا فائدہ ہے باقی لوگوں کو اپنی جان و مال کی حفاظت کیلئے پولیس اور سیکیورٹی چاہئے،
سڑکیں بھی بنتی رہتی ہیں اور قانون نہ ہونے پر انہیں سڑکوں پر بے گناہ افراد کو روند کر چٹائی بھی بنا دیا جاتا ہے۔ اسلئے پولیس اور سیکیورٹی پر دھیان دینا اشد ضروری ہے،پولیس سپاہی سے لے کر ڈی آئی جی تک کی تنخواہ کو دوگنا کیا جائے پولیس والوں کی رہائش کے لئے کالونیاں بنائی جائیں ،ان کے بیوی بچوں کو مراعات دی جائیں ایک پولیس کے سپاہی کو وہی رتبہ دیا جائے جیسے ایک آرمی کے سپاہی کا ہوتا ہے پولیس ڈیپارٹمنٹ کو محض اپنے مقاصد اور سیکیورٹی کیلئے استعمال کرنے کی بجائے قوم کی خدمت کرنے کا موقع دیا جائے،حکومت جب تک ایک سپاہی کو مراعات نہیں دے گی وہ کبھی کسی کی حفاظت نہیں کرے گا اور اگر کرے گا تو رشوت لے گا۔ریاستوں اور قوموں کی ترقی پر مطالعہ کیا جائے اور فوری طور پر پولیس ڈیپارٹمنٹ میں تبدیلیاں لائی جائیں ،نہیں تو ملک کا ہر فرد دہشت گر د بن جائے گا۔
تحریر : شاہد شکیل