تحریر : بدر سرحدی
اور اب ملک میں پٹرول کی قلت کا نوٹس لیتے ہوئے وزیرآعظم میاں نواز شریف نے وزارت پٹرولیم کے چار سینئر افسران کو معطل کرنے کے احکامات جاری کئے ،مگر کیا معطلی بھی کوئی سزا ہے ؟،ضروری ہے کے اس مصنوعی قلت کی اصل کہانی عوام کے سامنے لائی جائے اور زمہ داروں کو محض معطل نہیں بلکہ کڑی سزا دی جائے …..اور اگر زمہ دار خود وزیر عظم اور اِس کا تھنک ٹنک ہوأ تو پھر .. . اب یہ تو ہے مصنوعی قلت پیدا کی گئی مگر سڑکوں پر کاروں اور موٹر بائک کے سیلاب میں ایک قطرہ کا بھی فرق نہیں دیکھا ،یہ سڑک سوار کے تجربہ کا علم ہے کہ ان دنوں جب میڈیا میں پٹرول کی قلت کی ہاہا کار مچی کہیں ٩٠ فیصد اور کہیں ٨٠ فیصد پمپ بند کا غوغا سنائی دیتا اگر یہ سچ ہوتا تو سڑکیں بھی سنسان ہوتیں مگر ایسا نہیں دیکھا،پٹرول قلت سے قبل چوراہوں پر ٹریفک جام کا جو منظر ہوتاوہی منظر قلت کے دنوں میں بھی دیکھا مال پر بدستور سروس روڈ،حال روڈ یعنی کسی ایسے مقام کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی تھی
جس سے یہ پتہ چلتا کے پٹرول کی قلت کے باعث لوگوں نے بسوں میں سفر کیا ہواور کاریں ……نہ معطل کئے گئے سیکٹریز یا وزیر پٹرولیم خاقان عباسی اور نہ ہی اور کوئی اس مصنوعی قلت کے زمہ دار ہیں بلکہ اس کی تمام تر زمہ داری وزیر آعظم اور اس کی کابینہ اور مشیروں پر عائد ہوتی ہے ، اب جو خبرزیر گشت رہی کہ مشیر پٹرولیم زاہد مظفر کی با اثر تیل ماکیٹنگ کمپنیوں کے نمائندوں سے خفیہ ملاقاتیں جس میں پٹرول بحران کا منصوبہ انتہائی سوچ بچار کے بعد تیار ہوأاور یہ اسلئے کے تیل کی قیمتوں میں کمی کے باعث وہ اپنے منافع میں کمی کرنے کو تیار نہیں ،جو تیل مہنگے داموں خریدا اُسے سستا کیوں اور کیسے ؟بیچ سکتے ہیں اس لئے یہ قلت پیدا کی گئی لیکن جب تیل کی قیمت میں اضافہ ہوتا تو کمپنیاں سستے داموں خریدے گئے تیل کو مہنگا بیچتے ،اور اسکا بھی حساب لگائیں کے جب سے تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہا
گزشتہ دس برسو ں میں تو اِس میں آج تک اربوں حاصل کئے اور اب اگر پہلی مرتبہ کمی ہوئی ہے تو محض بیس دن کے ذخیرہ پر قیمت میں کمی کرنے سے کتنا فرق یا نقصان ہوتاقابل فکر …..! ٢٠٠٧ میں چینی کا بحران اور پھر قیمت ١٩ سے بڑھا کر سو سے اوپر لے گئے اور آج وہی چینی ٥٥،اور ٦٠ روپئے کلو ،٢٠٠٨ ،آٹے کا بحران،اور پھر گندم کی قیمت میں ٦٠٠ ،روپئے فی من کا اضافہ کر دیا ،اور وہی آٹاجوغریب کی بنیادی ضرورت ہے ،٤٠ سے٥ ٤ ،روپئے کلو غریب خریدنے پر مجبور ،اس کے بعد پھر نہ چینی کا بحران نہ آٹے کا کیوں؟ اور تیل کے خود ساختہ بحران کا بھی یہی نتیجہ ہوگا ،ابھی یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ پٹرول خریدنے والی کمپنیوں کے پاس خریداری کے لئے سرمایہ ہی نہیں (کیسی خبر …زمہ دار کون؟ )اور یہ کہ اداروں نے پی ایس او کے واجبات ادانہیں کئے اور تیل لانے والے جہاز کو کراچی پہنچنے میں تاخیر ہوئی ،یہ خبر بھی ،کہ بحران کا زمہ دار شپنگ کار پوریشن ہے جو حکومت کے خلاف بڑی سازش بلکہ قومی خزانے کو بھی ….
اگر یہ پٹرول کا مصنوعی بحران ایک سازش ہے تو اس سازش میں سی این جی پمپس بھی شامل ہیں جو دو ماہ کے لئے بند تھے ،وہ کھل گئے ،اس طرح کاروں کے لئے تو پٹرول کی قلت کوئی مسلہ نہیں ،البتہ موٹر سائیکل رکھنے والے ضرور پریشان ہوئے….. جس سے حکومت کی سبکی ہوئی(یہ سبکی بہت معمولی لفظ ہے ..) اب دس دن کے بعد یہ ساری باتیں منظر پر آ رہی ہیں جو حکومت کے خلاف جا رہی… اگر یہ خبریں درست ہیں ،درست ہی ہونگی کہ وزیر خزانہ نے بھی یہی کہا …. اور اب بھیانک سازش کو بے نقاب کر کے اصل صورت حال عوام کے سامنے لائی جائے ، تھینک ٹنک کو فکر کرنا ہوگی کہ پھر کبھی ایسی صورت حال پیدا نہ ہو پائے ،پہلے یہ خبر آئی کہ یکم فروری سے پٹرول مزید ١١ ،روپئے لیٹر سستا ہو گا ، لیکن اب آٹھ روپئے لیٹر پر آئی، اور تیل پہچانے والی کمپنیوں کے لئے بری خبر ہے کہ ان کے منافع میں مزید کمی ہوگی ،یہ بات بھی زہن نشیں رہے
ملک میں تاجر، سرمایہ دار اور صنعت کار جو مفادات حاصل کر چکا ہے یا کر رہا وہ اس سے کبھی کسی قیمت پر بھی دستبردار نہیں ہوگا ، یہ مثال موجود ہے چینی کی قیمتوں کے اضافہ پر اعلےٰ عدالتوں کے احکامات بھی بے اثر رہے اور…… حکومت کی زمہ داری ہے کہ سازش کو فور ی بے نقاب کرے ، وزیر آعظم نے سیکٹری پٹرولیم کی معطلی کے ساتھ ہی یہ بڑھک لگائی زمہ داروں کو سزا بھی دی جائے گی .. .. …نیز فوری تمام تر توجہ ریلوے سروس کی بحال کودیں، تاکہ آئل ٹینکر اور ٹرانسپورٹ کی اجاراداری ختم ہوں ملک ہر وقت حالت جنگ میں ہے اِس لئے ایسے حالات میں ریلوے کی افادیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا،اس لئے کلی طور پر پرائیویٹ ٹرانسپورٹ پر انحصار کسی بھی وقت بہت بڑے نقصان کا باعث ہو سکتا ہے …..! یہ اعلانات ہر روز سنتے ہیں کہ عوام کو ریلیف ملے گی،مگر …..!، ریلیف اگر ملے گی تو وہ تاجر ، جاگیر دار اور صنعت کار کو …. عوام کے حصہ میں صرف اخباری بیان کے ہم نے تیل کی قیمتیںکم کی اور عوام کو ریلیف دی عوام کوکبھی اس مد میں ریلیف نہیں مل سکتی،اب اگر اسمبلی میں عوام کا کوئی نمائندہ ہو تو وہ تو پوچھے جناب کیسی ریلیف اور کس کو…..؟ مگر پارلیمنٹ تو عوام کے نمائندے سے بانجھ ہے وہاں تو جاگیر دار ،صنعتکا ر،اور تاجروں کے نمائندے ہیں اور انہیں کے مفادات کی نگرانی ہوتی ہے نہ کوئی عوامی نمائندہ ہے اور نہ ہی عوامی مسائل زیر بحث آتے ہیں سوائے اخباری بیانات کے،اب رہا سوال قیمتوں میں کمی کا یا ریلیف کا تو عوام جان لے پاکستا ن میں کبھی قیمتیں کم نہیں ہو سکتیں یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں دنیا کی کوئی طاقت بھی یہاں بڑھی ہوئی قیمتوں میں کمی نہیں لا سکے گی ،کیوں ؟اس کیو ں ْپر آئندہ بات کروںگا،ابھی یہی ہے کے یہی اس عوام کا مقدر ہے کے تاجر وں اور جاگیرداروں کا ٹولہ اِن پر حکومت کرے اور ڈائن کی طرح اِن کا خون چوسے ،
ان سے کسی خیر کی توقع عبث ہے سوائے اس کے کہ ا خباری بیانات سے عوام کو ریلیف کی نوید دیتے رہیں گے اور بس… اب ایک اور بحران ،ماورائی کہانیوں میں ،ایک جن ہوتا جو انسانوںکی بستوں میں آدم آدم بو کرتا ہوأ آتا جس کا شکار انسان ہوتا ،یہ بجلی کے بحران کا جن بھی آدم آدم بو کرتا ہوأ آرہا اس کا شکار بھی خدا کی بستیوں کے لوگ ہی ہونگے، گیس کا بحران بھی بڑھا چلا آرہا ، جی او آر اور خوشحال بستیوں کے مکیں کل بھی مستثنیٰ تھے آج بھی اورکل بھی……لیکن آخری سوال ہے یہ بحران صرف پاکستان ہی میںکیوں ،کیا پاکستان میں معدنی وسائل کی کمی ہے کیا زیر زمیں تمام سوتے خشک ہو گئے ہیں نہیں ایسا نہیں …..سیاسی حکمرانوں کی مجرمانہ غفلت ،کسی حکومت نے گیس اور تیل کی تلاش نہیں کی بلکہ انہیں خرچ کرنے میں …..یہاں صرف موٹر ویز بنانے ….پر وسائل خرچ کئے جا رہے ہیںتاکہ ٹرانسپورٹر کو فائدہ ہو اور ریلوے کو نقصان….
تحریر : بدر سرحدی