تحریر: شفقت اللہ
بھلے وقتوں میں ایک شخص مصوری کیا کرتا تھا اور اس نے اپنی عمر کا ایک حصہ صرف اپنی تصویر بنانے میں لگا دیا۔ وہ تصویراس شخص کیلئے ایسی تھی کہ جیسے اس کی ساری عمر کی کمائی! جب تصویر مکمل ہو گئی تو اس نے ایک چوراہے پر لٹکا دی اور اس کے نیچے لکھ دیا کہ جہاں غلطی نظر آئے اسے پوائنٹ آؤٹ کریں۔
کچھ ہی دنوں کے بعد اسنے دوبارہ چوراہے پر اپنی تصویر پر نظر ماری تو اس پر کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جسمیں کوئی غلطی نہ نکالی گئی ہو۔ مصور شخص بہت پریشان ہوا اور اسی تذ بذب میں تصویر اٹھائے بھاگتا ہوا اپنے استاد کے پاس پہنچااور بولا!! استاد جی یہ دیکھو میں نے ساری زندگی لگا دی اور اتنی خوبصورت تصویر بنائی تھی لیکن لوگوں نے کیا حال کر دیا ہے !استاد نے سارا ماجرا دریافت کیا تواس شخص نے بتایا کہ میں نے تصویر چوراہے پر لگانے سے پہلے لکھا تھا کہ کوئی غلطی نظر آئے تو اسے واضع کریں !! تو استاد نے کہا کہ آپ نے فقرہ غلط لکھا تھا۔
آپ دوبارہ تصویر بنائیں اور اس پر لکھیں کہ جہاں غلطی نظر آئے اسے ٹھیک کر دیں !! گویا اس شخص نے ویسا ہی کیا اور دوبارہ چوراہے پر تصویر لگا دی۔ کچھ دنوں کے بعد اس نے پھر چوراہے پر جا کر تصویر کو دیکھا تو وہ تصویر ویسے ہی تھی جیسے وہ لٹکا کر گیا تھا!! وہ دوبارہ خوشی میں اپنے استاد کے پاس گیا اور اس کے سامنے روداد سنائی تو استاد نے جواب دیا کہ دیکھو اس دنیا میں لوگ تنقید کرنے والے تو بہت ہوتے ہیں لیکن حل کسی کے پاس نہیں ہوتا اور وہ انکی کم علمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔
کلاس میں استاد نے ایک دن ایک سفید چارٹ اپنے شاگردوں کے سامنے رکھ کر اس پر ہلکا سا کالا دھبہ لگا کر شاگردوں سے سوال کیا کہ اس چارٹ میںآپ کو کیا نظر آ رہا ہے تو سب نے بیک وقت ایک ہی آواز میں کہا ! کالا دھبہ۔ تب استاد نے کہا کہ چارٹ کا ننانوے فیصد سفیداور صاف حصہ چھوڑ کر آپ لوگوں نے صرف دھبہ پر غور کیا ہے اسی طرح ہم عملی زندگی میں کسی انسان کی ہزاروں خوبیوں کو نظر انداز کر کے اسکی ایک خامی پر تنقید کرتے ہیں۔
زندگی میں کئی ایسے معاملات آتے ہیں جب انسان اپنے گریبان میں جھانک کر نہیں دیکھتا بلکہ دوسروں کو تنقید کا نشانہ بنا تا ہے۔وہ عمل انسان سے فطرتا سر زد ہو جاتا ہے کیونکہ ہار تسلیم کرنا سب سے مشکل کام ہے ۔ہم روز مرہ کی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ جب بھی کوئی اچھا یا ایسا کام کر لیتا ہے کہ جسکی ہمیں اس سے امید نہیں ہوتی اور وہ ہم سے عمر یا عہدے میں چھوٹا ہوتا ہے تو ہم اسکو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور اس کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے نیچا دکھانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔
ہم اپنی ہی سوچ میں دوسروں کو اتنا کم تر سمجھ لیتے ہیں کہ ہم سے ان کی جیت میں صرف اپنی ہار نظر آتی ہے حالانکہ ہمارا اس کے اس عمل میں کوئی حصہ نہیں ہوتااور یہ ہماری سب سے بڑی کم ظرفی ہوتی ہے اور اسے حسد کہاجاتا ہے جسکا نقصان ہمیں ہی سب سے زیادہ ہوتا ہے۔اور جانے ان جانے میں بے جا مداخلت اور تذکروں کی وجہ سے وہ شخص خود ہی مشہور ہو جاتا ہے ۔لیکن اگر ہم اس بات کو سمجھ لیں کہ زندگی صرف جیت کا نام نہیں بلکہ ہار میں اپنی جیت کا تلاش کرنا ہی سب سے بڑی کامیابی ہے تو مجھے یقین ہے کہ ہمیں اپنی زندگی کو کامیاب بنانے کیلئے کبھی بھی کسی کی ٹانگیں کھینچنے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور ہم بغیر کسی کو دھکا دیئے ترقی کی بڑی سے بڑی منزل طے کر سکتے ہیں۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اس ملک کے شعبہ صحافت میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو ایسے کام کرنے میں بلکل بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ،اپنے ہی شعبہ سے وابستہ لوگوں کی ٹانگیں کھینچتے ہیں اور اسکی ذاتیات پر باتیں کر کے اس کو ہمیشہ غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ہر انسان کی دو قسم کی زندگی ہوتی ہے ایک معاشرتی اور دوسری ذاتی ۔معاشرتی زندگی سے مراد اُس کا کاروبار،تعلقات اور دوست احباب وغیرہ جبکہ ذاتی زندگی سے مراد اُس کی پسند،نا پسند اور رہن سہن وغیرہ ہیں اگر کوئی شخص صحافت جیسے مقدس پیشے سے وابستہ ہو جائے تو اسکے سامنے اپنے آپ کو تسلیم کروانے کیلئے ہر حربہ آزماتے ہیں۔
کبھی اسکی لکھی خبر پر تنقید تو کبھی اس پر اور کبھی اسکی ذاتیات کو زیر بحث لانا۔ میں حیران ہوتا ہوں ان باتوںکو سوچ کر کہ جس ملک کے دانشور ہی ایسی کم ظرفی کا مظاہرہ کرنے لگ جائیں تو اس ملک کی ترقی اور مستقبل کیسے روشن ہوسکتا ہے ؟کیوں کہ شعبہ صحافت ملک میں چوتھے ستون کی حیثیت رکھتا ہے اس پیشے سے وابستہ لوگ ہر طرح کی بات اور معلومات تک عوام کوہر ممکن رسائی پیش کرتے ہیں لیکن یہ کیا ہے کہ جب ان نام کے دانشوروں کو دوسروں کی ٹانگیں کھینچنے کی فرصت نہیں ہے! ستم ظریفی یہ ہے کہ ان لوگوں نے شعبہ صحافت جیسے مقدس پیشے کو پامال کر کے رکھ دیا ہے کہ ایک وقت تھا کہ جب لوگ صحافیوں کی قدر کیا کرتے اور اسکو عزت دیتے تھے صرف اس لئے کہ وہ ان کے حقوق کیلئے جنگ لڑتے ہیں لیکن اب کوئی بھی اس شعبہ کو اچھا نہیں سمجھتا کیوں کہ چندکم ظرف لوگوں نے اس شعبے کو مختلف بے ہودہ کاموں کے کیچڑ سے گندہ کر کے رکھ دیا ہے۔
کوئی بھی پڑھا لکھا شخص اس شعبہ سے منسلک نہیں ہونا چاہتا ،کوئی بھی شخص صحافیوں کواپنے ساتھ ہوئی نا انصافی کی روداد صرف اس لئے نہیں سناتے کہ یہ تو آگے جا کر مفاہمت کر جاتے ہیں اور ہم پہلے سے بھی زیادہ پھنس جاتے ہیں۔جب لوگوں کے دماغ میں کسی کے بارے میں ایک بات کوٹ کر بھر دی جائے کہ وہ شخص ہے ہی چور تو چاہے وہ کتنا بھی اچھا ہو لوگ اسکو چور ہی کہیں گے ۔ دوسروں کی خامیوں پر تنقید کی بجائے اسکی خوبیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے تو مجھے یقین ہے کہ وہ شخص ایک دن اپنے اندر موجود خامیوں کو خود پہچانے گا اور انکی اصلاح کی کوشش کرے گا۔بے جا اور بے وقت تنقید سے اصلاح کی بجائے ضد میں آ کر مزید بگاڑ پیدا ہو گا۔
تحریر: شفقت اللہ