لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) سینئر اینکر پرسن منصور علی خان کا کہنا ہے کہ ٹیم کا سربراہ ٹھیک ہو تو پوری ٹیم کامیاب رہتی ہے یہ فلسفہ اب بری طرح ناکام ہوچکا ہے، ٹیم گیم میں کپتان جتنا بھی مضوبط کیوں نہ ہو اگر ٹیم لالچی، نکمی اور فلاپ ہو تو کپتان کچھ نہیں کر سکتا ،اس وقت میرے کپتان کی ٹیم میں پھوٹ کے چرچر ہیں، کیا ایسے بنے گا نیا پاکستان؟تفصیلات کے مطابق نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر اینکر پرسن منصور علی خان کا کہنا تھا کہ 1992ء کے ورلڈ کپ میں پاکستان اس لیے جیتا تھا کیونکہ اس وقت کپتان کے ساتھ جاوید میانداد، وسیم اکرم ، انضمام الحق ،رمیز راجہ اور سلیم ملک جیسے بہترین کھلاڑی ایک دوسرے کے ساتھ تھے، کپتان کے ساتھ تھے، ورلڈ کپ کے بعد ٹیم مین کپتان بننے کی دوڑ چروع ہوئی، ٹیم میں گروپ بن گئے ، جاوید میانداد کپتان بنے، وسیم اکرم بھی کپتان بنے ، لیکن کسی کو کامیابی نہ ملی، سچن ٹنڈولکر دنیا کے بہترین بلے باز تھے لیکن جیسے ہی کپتانی انکے ہاتھ میں گئی بھارٹی ٹیم نے ان کے ساتھ چلنے سے انکار کر دیا تو انہیں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پر گیا ، کسی بھی ٹیم کو اگر کامیاب کرنا ہے تو اسکا اہم ہونا ضروری ہے، میرے کپتان کی ٹیم بھی کچھ ایسی ہی ہے، اس ٹیم میں گروہ بندی ہے۔منصور علی خان کا کہنا تھا کہ کپتان کی ٹیم میں اس وقت عہدوں اور وزارتوں کی دوڑ لگی ہوئی ہے، میرے کپتان خود بھی کہہ چکے ہیں کہ کئی لوگ انکو عہدوں اور وزارتوں کے لیے فون کرتے ہیں، کپتان کی ٹیم کے دو اہم کھلاڑیوں شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کی لڑائی سب کے سامنے ہے، کیا ایسے بنے گا نیا پاکستان ؟