اللہ تعالیٰ نے روئے زمین پر لاتعداد نعمتیں پیدا کی ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسی بھی ہیں جن کے بغیر زندگی کا گزارا ناممکن ہے اور پانی ان ہی میں سے ایک ہے۔ پانی نہ صرف انسان کے پینے کے کام آتا ہے بلکہ اس سے انسان اپنی فصلیں اگا کر غذائی ضروریات بھی پوری کرتا ہے۔ پاکستان جیسا ملک جس کی ساری معیشت کا دارومدار زراعت پر ہے، اس کےلیے پانی ناگزیر ہے۔
پانی کے اس مسئلے پر لکھنے کا خیال اس لیے آیا کہ حالیہ دنوں میں ملک میں نہری پانی کی شدید قلت کو میرے جیسے زمیندار گھرانے کے لوگ بڑی شدت سے محسوس کررہے ہیں۔ میرا تعلق وسطی پنجاب کے جس علاقے سے ہے وہاں سالانہ بارش کی مقدار بہت کم ہے اور زیر زمین پانی نمکین، اس وجہ سے کاشتکاری کےلیے نہری پانی پر ہی انحصار کیا جاتا ہے۔ تو جیسے جیسے میں ہوش سنبھالتا گیا، کیا دیکھتا ہوں کہ کاشتکاری کےلیے دستیاب نہری پانی انتہائی کم ہوتا جارہا ہے لیکن اس کےلیے نہ تو کسان آواز اٹھا رہے ہیں اور نہ ہی کسانوں کی نمائندگی کرنے والے سیاستدان۔
اس سب کے نتیجے میں آج ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ کسان اپنی خریف کی فصلیں بروقت کاشت نہیں کرسکے جن میں سے ایک فصل کپاس بھی ہے۔ کپاس تو خیر بہت عرصے سے حکومتی عدم توجہی اور شوگر مافیا کا شکار چلی آرہی ہے لیکن ابھی حکومت نے کسانوں پر ایک اور بم اس اعلان کی صورت میں گرایا ہے کہ زمیندار حضرات ایسی فصلیں کاشت کریں جن میں پانی کم سے کم استعمال ہو کیونکہ دریاؤں اور ڈیموں میں پانی نہیں۔ دریاؤں کا پانی تو ہمارے پڑوسی ملک کی آبی جارحیت کی وجہ سے کم ہوا ہے۔ وہ ڈیم جو آج تک ہم بنا ہی نہیں سکے، کیا ان ڈیموں میں پانی کے نہ ہونے کا ذمہ دار بھی ہم پڑوسی ملک کو ہی ٹھہرا دیں؟
کیا کوئی اعلیٰ دماغ مجھے یہ سمجھا سکتا ہے کہ حکومتی احکامات کی روشنی میں کم پانی والی فصلوں کی ایک دم سے کاشت کیسے ممکن ہے؟ ہمارے کسان جو برسوں سے اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق مخصوص چار پانچ فصلیں اگارہے ہیں، انہیں تو اس کے علاوہ کسی دوسری فصل کے بارے میں جانکاری ہی نہیں۔ ہمارا کسان تو عرصہ دراز سے کپاس، گندم، مکئی، گنا وغیرہ اگانے میں ماہر ہوچکا ہے۔ ایسے میں کم پانی والی فصلیں کاشت کروانےکےلیے کیا محکمہ زراعت نے بروقت اقدامات کیے؟ کیا محکمہ زراعت نے ایسی فصلوں کے حوالے سے گاؤں گاؤں جا کر تعارفی/ تربیتی پروگرامز کا انعقاد کیا؟
پانی کی کمی میں ایک اور اہم مسئلہ زیر زمین پانی کا بھی ہے۔ بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں کاشتکاری کا سو فیصد انحصار ٹیوب ویل پر ہے لیکن بدقسمتی سے پانی کے متعلق کوئی واضح پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے جس کا جہاں دل کرتا ہے، وہ وہاں ٹیوب ویل لگا لیتا ہے جس کے باعث زیر زمین پانی کی سطح کم ہوتی جارہی ہے۔
جہاں تک بات ہے نہری پانی کی تقسیم کی تو اس کےلیے بھی کوئی واضح نظام موجود نہیں۔ جس نہر یا اس سے ملحقہ چھوٹی نہر پر بڑے زمیندار/ سیاستدان کا رقبہ موجود ہے وہ تو تقریباً سارا سال چلتی رہتی ہے؛ باقی چھوٹے زمینداروں سے ملحقہ مینڈرز بند رہیں تو رہیں، حکام بالا کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ صورتحال تو یہاں تک آپہنچی ہے کہ نہر پر موجود کھالوں کا سائز اور ان میں آنے والا پانی بس ایک دوسرے کو دیکھ کر شرمندہ ہوتے ہیں، کیوں کہ جس کہ لاٹھی اس کا قانون ہے۔ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک وزیراعظم تو ایسے بھی تھے کہ وزارت عظمیٰ کا چارج سنبھالتے ہی ترجیحی بنیادوں پر انہوں نے اپنے اور اپنے سسرالیوں کے کئی سو ایکڑ رقبے کو سیراب کروانےکےلیے دریا سے ایک نئی نہر نکلوالی تھی۔
فصلوں تک پانی پہنچانے والے کھالوں کی صورتحال یہ ہے کہ آخری زمیندار تک پہنچتے پہنچتے 40 فیصد پانی تو ضائع ہوجاتا ہے۔ اس کی ذمہ داری جس حد تک کسانوں پر لاگو ہوتی ہے اتنی ہی حکومت پر بھی۔ پانی کے آخری قطرے تک کو کیسے استعمال میں لانا ہے، اس کےلیے ہم سب کو مل بیٹھ کر سوچنا ہوگا کیوں کہ اس کے متعلق اگر اب بھی ہم نے نہ سوچا تو پھر شاید وقت ہمیں اس کا موقع نہ دے۔ اگر اس فصل خریف کی طرح ہم ربیع کی کاشت میں بھی پانی کے مسئلے سے دوچار رہے تو شاید ہم زرعی ایمرجنسی کا شکار ہوجائیں۔
ایک ایسا ملک جس کی معیشت کا انحصار زراعت پر ہو، وہ پانی کی اس کمیابی والے مسئلے کی وجہ سے بہت تیزی سے نیچے کی طرف جاسکتا ہے۔ اس سے بے چارہ کسان تو مرے گا ہی لیکن یہ بات ذہن نشین کرلیجیے کہ اس مسئلے کی وجہ سے بڑے بڑے شہروں کے پوش ایریاز میں رہنے والے لوگ بھی بھوکے مریں گے جب انہیں وقت پر اناج نہیں ملے گا۔
اس بات پر حد درجہ حیرانی ہے کہ وسطی پنجاب کے بہت سے اضلاع میں خریف کی فصل ابھی تک کاشت نہیں ہوئی لیکن کسی کے بھی کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ کسان تو شاید اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر صبر کر بیٹھے ہیں لیکن ان علاقوں کے سیاستدان اس پر احتجاج کیوں نہیں کررہے؟ یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔
پانی کی کمی کی وجوہ میں بھارتی آبی جارحیت والا رونا ضرور رویا جائے لیکن اس کے ساتھ پانی ذخیرہ کرنے کے چھوٹے چھوٹے منصوبوں پر بھی عمل کیا جائے تاکہ کم از کم ہم مون سون میں ہونے والی بارشوں کا پانی ممکنہ حد تک ذخیرہ کرسکیں جو ہر سال ہمیں سیلاب کی صورت میں نظر آتا ہے یا پھر یہ پانی سمندر کی نذر ہو جاتا ہے۔ جو حضرات خیبر پختونخواہ کے چھوٹے ڈیم والے منصوبوں کا مذاق اڑاتے ہیں ان کےلیے نوید ہے کہ ان چھوٹے ڈیموں کی اہمیت کا اندازہ ان شاء اللہ اگلے پانچ سال میں انہیں ہوجائے گا۔
ملک بھر کے کسانوں کو اب سنجیدگی سے جدید زرعی آلات کا استعمال سیکھنا ہوگا، ڈرپ اریگیشن سسٹم اس علاقےکےلیے اب ناگزیز ہوچکا ہے۔ محکمہ زراعت اس کےلیے چھوٹے کسانوں کو ہر ممکن سہولت جلد از جلد فراہم کرے۔ اگر ہمارا کسان خوشحال ہوگا تو ملک کی معیشت خوشحال ہوگی۔ اگر ملکی معیشت بہتر ہوگی تو پوش علاقوں میں بسنے والی زندگیاں بھی چہک سکیں گی۔