تحریر : شاہد شکیل
سی ٹی ایک کمپیوٹرائزڈ جدید ایکسرے مشین ہے جس سے ڈاکٹرز انسانی جسم کا تفصیلی معائنہ کرنے اور کئی بیماریوں کی تشخیص کے بعد ڈیجیٹل تصاویر سے باآسانی علاج کرتے ہیں یہ مشین روائتی ایکسرے مشین سے کہیں زیادہ فاسٹ اور بیماری کا فوری پتہ لگانے میں استعمال کی جاتی ہے، سی ٹی بہت قیمتی مشین ہے اور گزشتہ چند برسوں میں بعد از مزید فعال اور ڈیویلپ کرنے سے مزید آسان طریقے سے فنکشن کرنے کے قابل بنایا گیا ہے تاہم ایک عام ایکسرے مشین کے برعکس اس میں زیادہ تابکاری پائی جاتی ہے۔
دورانِ تشخیص اس میں نصب جدید سافٹ ویئر ایکسرے کے نتائج اور ڈیجیٹل اعداد و شمار کے مطابق امیج ظاہر کرتی ہے بدیگر الفاظ ایک ڈیٹکٹو ہے جو جسم میں داخل ہو کر معمولی سے خلیات کی جانچ پڑتال کرتا اور بذریعہ کمپیوٹر ڈاکٹرز تک پہنچاتا ہے،سی ٹی روائتی ایکسرے مشین سے کئی گنا تیزی سے جسمانی اعضاء اور ڈھانچے کی سکیننگ کرنے کے بعد براہ راست ڈاکٹر کو مطلع کرتی ہے کہ جسم کے فلاں فلاں حصے یا اعضاء میں زخم، ورم یا انفیکشن پائی جاتی ہے اور ڈاکٹرز بیماری سے آگاہ ہونے کے بعد علاج کا مشورہ دیتے ہیں۔
مشین کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ بذریعہ ڈیٹکٹو ڈاکٹرز بیماری سے مکمل آگاہی کے بعد بغیر آپریشن ہی علاج کرتے یا سرجری نہ کروانے کا مشورہ دیتے ہیں۔سی ٹی مشین جوہانسبرگ میں پیدا ہونے والے برطانوی سائنسدان ایلن ایم کورمیک اور الیکٹریکل انجینئر گڈ فرے ہونس فیلڈ نے ایجاد کی اور انہیں اس مشین کے باپ کا لقب دیا گیا۔ایلن کورمیک نے انیس سو ساٹھ میں نظریاتی بنیاد پر اس مشین پر تحقیق کا آغاز کیا ،انیس سو اڑسٹھ میں گڈ فرے نے پروٹوٹائپ تعمیر کیا اور انیس سو اکہتر میں پہلی بار زندہ انسان کی مشین سے تحقیق کی ، اس ایجاد پر دونوں مجدد کو میڈیسن کا نوبل انعام دیا گیا۔
ابتداء میں فالج سے لے کر انتہائی کومپلی کیٹڈ فریکچرز اور بعد میں کینسر کے امراض کیلئے استعمال کیااس مشین کے ذریعے تھیراپی بھی کی گئی علاوہ ازیں سرجری کی پلاننگ اور معمولی آپریشن کی منصوبہ بندی کے طور پر بھی استعمال ہوئی،جسمانی اعضاء اور نمونوں کی عکاسی کی گئی لیکن ایک روائتی ایکسرے مشین کے مقابلے میں زیادہ تابکاری کا شمار کیا گیااور محض زیادہ تابکاری کے ڈاکٹر اس مشین کو اہم بیماریوں کی جانکاری کیلئے ہی استعمال کرتے ہیں۔انسانی جسم کی سکیننگ کیلئے مشین کی ٹیوب میں داخل کیا جاتا ہے اور مشین خودکار نظام کے تحت مختلف ڈگریز اور مخصوص توانائی کے تحت ہائی ٹیک طریقے سے انسانی جسم یعنی مخصوص اعضاء کی تصاویر لیتی ہے اور ڈیجیٹل نتائج خود کار سسٹم سے ڈاکٹر زکے مانیٹر پر دکھائی دیتے ہیں،مثلاً شدید سر کی تکالیف میں صرف سر کی سکیننگ کی جاتی ہے یا پیٹ کی مختلف بیماریوں کا پتہ لگانے کیلئے صر ف پیٹ کی ہر زاویئے سے سکیننگ کی جاتی ہے۔
مشین سے منسلک ایکسرے ٹیوب اور دیگر انسٹرومنٹس ڈیٹیکٹو تک پہنچاتے ہیں انکی پیمائش ہوتی ہے اور مخصوص اعضاء یا خلیات کی تلاش اور پوشیدہ بیماری تک پہنچنے کیلئے کمپیوٹر اپنا کردار ادا کرتا ہے،ایک طرف ڈیٹکٹر سسٹم سکیننگ کرتا رہتا ہے اوردوسری طرف ڈاکٹر ز اپنے مانیٹر پر تمام ڈیجیٹل امیجز دیکھتے ہوئے بیماری کا پتہ لگاتے ہیں۔مشین کے استعمال کا طریقہ کار سادہ اور بہت آسان ہے مریض کو پشت کے بل لٹا کر ٹیوب میں داخل کیا جاتا ہے اور خود کار سسٹم کے تحت کمپیوٹر پروگرامنگ کے سہارے سکیننگ کی جاتی ہے دوران سکیننگ مشین کی شعاعیں اور لہریں اعضاء کی حرکات کی ریکارڈنگ کرتی اور آٹو میٹک ڈاکٹر تک پہنچاتی ہیں۔
دورانِ سکیننگ مریض کے علاوہ سی ٹی کنٹرول روم میں کوئی دوسرا فرد موجود نہیں ہو تالیکن اگر ضروری ہو تو طبی عملہ الرٹ رہتا ہے یا مریض ڈاکٹر ز سے براہ راست بات چیت کر سکتا ہے۔حالیہ برسوں میں جدید ٹیکنیکی ریسرچ کے علاوہ مریض کی بیماری پر بھی انحصار کیا جاتا ہے کہ وہ کس قسم یا کتنی شدت سے تکلیف میں مبتلا ہے اور انہیں اعداد و شمار کو مد نظر رکھتے ہوئے مشین کے دورانئے میں کمی بیشی کی جاسکتی ہے یا مخصوص انسٹرومنٹس جنہیں ریڈ الرٹ کہا جا سکتا ہے کے تحت تشخیص کی جاتی ہے،عام طور پر اگر بیماری کومپلی کیٹڈ نہ ہو تو تشخیص آدھے گھنٹے میں مکمل کی جاتی ہے اور نتائج کے بعد ڈاکٹرز علاج کا نسخہ تیار کر لیتے ہیں۔سی ٹی مشین کے ذریعے مندرجہ ذیل بیماریوں کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔
مثلاً ٹیومر کی تشخیص ، کھوپڑی میں سوجن،فریکچرز ،خون کا منجمند ہونا ، لبلبے کی سوزش یا پیٹ کے امراض ، ہڈیوں کی سکیننگ بالخصوص ریڑھ کی ہڈی کی تشخیص ،چھاتی اور پھیپھڑوں کی بیماری ،جسم میں پانی و سیال کے اخراج یا اضافے کی سکیننگ ، سرجری سے قبل اور بعد سکیننگ۔ضمنی اثرات۔الرجی میں مبتلا افراد کی سکیننگ محتاط ہو کر کی جاتی ہے کیونکہ دورانِ سکیننگ ممکنہ طور پر متلی اور گرمی سے مریض متاثر ہو سکتے ہیںلیکن سی ٹی سے قبل بلڈ ٹیسٹ لازمی ہوتا ہے اور ممکنہ خطرات سے آگاہ ہونے کے بعد ہی سی ٹی کی جاتی ہے۔
تحریر : شاہد شکیل