تحریر: علی عمران شاہین
50 سال پہلے کی کہانی، شہر اقبال کے سرحدی گائوں چونڈہ پر بھارت نے دوسری جنگ عظیم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی یلغار کی تو ایک ہی دن میں ٹینکوں کی تاریخ کی سب سے بڑی لڑائی لڑی گئی۔ اس روز لگ بھگ 40 کلومیٹر کا علاقہ میدان جنگ بنا ہوا تھا تو بھارت کی کوشش یہ تھی کہ وہ ہر صورت چونڈہ کو فتح کر تے ہوئے سیالکوٹ پر قبضہ کر کے ڈسکہ اور پھر گوجرانوالہ پہنچ کر جی ٹی روڈ کو بند کر دے۔ یوں پاکستان اپنے عسکری مرکز راولپنڈی سے کٹ جائے گا تو بھارت فاتح بن جائے گا۔ بھارتی فوج نے یہاں 7 محاذوں پر پیش قدمی کی تو سرحد پر پہنچ کر اس کے 12 حصے ہو کر آگے بڑھ رہے تھے۔ بھارتی فضائیہ مسلسل زمینی فوج کو گولہ باری کرتے مدد مہیا کر رہی تھی تو آتش و آہن کی بارش سے دھماکے، دھواں اور گرد اڑ رہی تھی۔
ڈیڑھ لاکھ بھارتی فوج کے اس طوفان کا مقابلہ کرنے کے لئے پاکستانی فوج کے 50ہزار جوان میدان میں اترے تو ان کے پاس ٹینکوں کی تعداد بھارت سے آدھی تھی۔ بھارت نے یہاں اپنی ساری جنگی مہارت اور طاقت جھونک دی تھی۔ 12ستمبر سے شروع ہونے والی یہ خوفناک لڑائی 21 ستمبر تک جاری رہی لیکن پاکستانی فوج کے ٹینکوں کے دستوں کی گولہ باری اور سپاہیوں کی یلغاروں نے بھارت کو ایک قدم آگے نہ بڑھنے دیا۔ بھارت کے اعترا ف کے مطابق اس کے 120 ٹینک تباہ ہوئے تو یہاں کا دورہ کرنے والے انگریز صحافیوں نے لکھا کہ انہوں نے 800 گز کے فاصلے پر 11تباہ شدہ بھارتی ٹینکوں کے ڈھانچے پائے۔ اس محاذ پر شہید ہونے والے میجر شبیر شریف شہید نے بہادری کے جوہر دکھائے تو شکست کا داغ بھارت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ بن چکا تھا لیکن کیا دنیا جانتی ہے کہ ٹینکوں کی اس سب سے بڑی جنگ میں بھارت کو ٹینکوں کے ذریعے ہی شکست دینے والے وہی بہادر جرنیل جنرل حمید گل تھے جو چند روز پہلے ہم سے جدا ہو گئے۔ جنرل حمید گل اس دنیا سے رخصت ہوئے۔
اسی ملک خداداد کی حفاظت میں لڑ کر شہید ہونے والے میجر شبیر شریف شہید کے بھائی جنرل راحیل شریف اس پاک فوج کے سربراہ ہیں جو ایک بار پھر بھارت سے برسرپیکار ہیں۔ 28 اگست 2015 کو بزدل بھارت نے حسب روایت اسی سیالکوٹ کے سرحدی علاقوں کے نہتے شہریوں پر گولہ بارود برسانا شروع کیا تھا۔ جنرل راحیل شریف شمالی وزیرستان سے اڑتے ہوئے سیالکوٹ پہنچے، پاک فوج کا حوصلہ بڑھایا، سخت جواب دینے کا حکم دیا تو حسب روایت بھارتی مورچوں میں قبرستان کی سی خاموشی پائی جانے لگی۔ اس سے قبل جنرل راحیل شریف وزیرستان کے علاقے شوال میں پہنچے تھے جہاں چار دن پہلے پاک فوج کے لیفٹیننٹ کرنل فیصل ملک اپنے ایک فوجی ساتھی کے ہمراہ داد شجاعت دیتے ہوئے قربان ہو گئے تھے۔
کرنل فیصل ملک میرے سکول اور کالج کے زمانے کے کلاس فیلو ہی نہیں بلکہ جگری دوست بھی تھے۔ دوستوں کی محفل کی جان، ہر وقت ہنستے مسکراتے اور ذہین و فطین فیصل ملک اپنے ساتھیوں میں بھی سب سے نمایاں رہتے تھے۔ ایک عام اور معمولی سے گھرانے کا چشم و چراغ فیصل ملک کیا کبھی اس مقام تک پہنچے گا کہ اس کی جدائی کا درد ایک عالم محسوس کرے گا اور اس کی دنیا سے رخصت ہونے کی خبر کتنے روز ملک بھر ہی نہیں، بیرونی دنیا میں بھی اس قدر دیکھی سنی جائے گی، یہ تو شاید کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔ 1998ء میں فوج کا کمیشن حاصل کرنے والے فیصل ملک اپنی قابلیت کی بنیاد پر ہی تو کرنل کے عہدے پر پہنچے تھے لیکن وہ اس قدر سادہ طبیعت تھے کہ جب بھی اپنے آبائی علاقے آتے تو اپنے دوستوں اور اہل علاقہ میں گھل مل جاتے۔
زمانہ طالب علمی ہی میں انہیں نمایاں رہنے اور منفرد کارنامے انجام دینے کا ذوق تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اس زمانے میں طلبہ کو دی جانے والی فوجی تربیت این سی سی کی فائرنگ کی تربیت کے دوران وہ شرارت کے موڈپر تھے تو دوستوں سے مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ اپنی باری پر میں تو ”برسٹ” ہی چلائوں گا۔ ان کی فائرنگ کی باری آئی تو انہوں نے ایسے ہی کیا تو فائرنگ کروانے والے افسر اس پر سخت ناراض ہوئے کہ آپ کو نشانہ لگانے کو کہا تھا… برسٹ چلانے کا تو نہیں۔ اس پر انہوں نے اپنی اگلی باری پر ٹھیک ٹھیک نشانے لگا کر بھی یہاں اپنے جوہر دکھا دیئے۔ پاک فوج کی اپنی یونٹ کی کمانڈ کرتے ہوئے شمالی وزیرستان میں انہوں نے کارہائے نمایاں انجام دیئے اور انہوں نے بغیر کسی بڑے فوجی قافلے اور کسی بڑی سکیورٹی کے اسلام اور پاکستان کے بدترین دشمنوں کے خونخوار جبڑوں میں ہاتھ ڈال دیا۔
انہوں نے وہیں شہادت پائی اور اپنے روایتی مسکراتے چہرے کے ساتھ ہی اللہ کے حضور پیش ہو گئے۔ ان کی اس قربانی اور اس سے قبل ان کی اس علاقے میں کامیاب مہم ہی کا نتیجہ یہ نکلا کہ تین ہی دن بعد پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اس علاقے میں اعلیٰ افسران سمیت کامیابی کا جھنڈا گاڑ کر کھڑے اعلان کر رہے ہیں کہ یہ علاقہ اب مکمل طور پر ہمارے کنٹرول میں ہے، دشمن پسپا ہو کر مزید بھاگنے اور چھپنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ یہ کون دشمن ہے؟ ایسا دشمن جو چھپا ہوا لیکن سب سے خطرناک ہے۔ جس کی نشانی پیارے نبیۖ نے یہ بیان فرمائی تھی کہ ”یہ لوگ اہل اسلام کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے۔” (بخاری)
یہ ایسا دشمن ہے جسے بھارت، امریکہ اور اسرائیل کا ظلم دکھائی نہیں دیتا، البتہ اپنے کلمہ گو بھائی بدترین دکھائی دیتے ہیں۔ شاید اسی لئے ان کے خلاف لڑائی کی ترغیب دیتے ہوئے پیارے نبیۖ نے فرمایا تھا کہ اگر میں ان کو پا لوں تو قوم عاد اور قوم ثمود کی طرح قتل کر دوں… (بخاری)۔ آپۖ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ یہ آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے۔ آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ان کے ہاتھوں جو قتل ہو گا وہ افضل ترین شہداء میں سے ہو گا۔ وہ ہنستا مسکراتا جوان رعنا فیصل ملک انہی کے ہاتھوں شہادت پا کر جنت الفردوس کے سفر پر روانہ ہوا تو اس کی والدہ،بھائی، بیوی اور معصوم بچوں نے بھی نہ کوئی آہ و بکا کی، نہ کوئی آنسو بہائے بلکہ اس کو سعادت سمجھ کراس شہادت کو گلے لگایا۔ سبھی لوگ حیران تھے کہ کیا انہیں کوئی دکھ نہیں پہنچا۔ لیکن نہیں، یہ سعادت ان کی سمجھ میں آ چکی تھی۔ جنازہ میں ہزاروں لوگ امڈے چلے آتے تھے کہ اتنا بڑا جنازہ سعادت والوں ہی کو نصیب ہو سکتا ہے۔
چونڈہ کے محاذ کے ایک فاتح جنرل حمید گل نے وفات سے پہلے اپنی اہلیہ سے یہ عہد کیا تھا کہ ہم میں سے جو بھی پہلے فوت ہو گا اسے شرعی حکم کے مطابق جلد از جلد دفنایا جائے گا اور ہم اپنا جسد خاکی سرد خانے میں نہیں رکھوائیں گے۔ سوا ایسا ہی ہوا، اگرچہ ان کے بیٹے ملک سے باہر تھے۔ حیران کن معاملہ دیکھئے کہ جنرل حمید گل کی تدفین فوجی قبرستان کے اس حصہ میں ہوئی جو شہداء کے لئے مخصوص ہے اور عام فوت شدگان کو الگ دفن کیا جاتا ہے۔
بھارت کے خلاف لڑتے ہوئے میجر شبیر شریف اور میجر عزیز بھٹی بھی شہادت سے سرفراز ہوئے تو ایک کا بھائی تو دوسرے کا سگا کزن اب میدان میں کھڑا ہے؟ بھارت تسلیم کرتا ہے کہ اس کی فوج میں 15ہزار افسران کی کمی ہے، ملک میں کروڑوں بے روزگار ہیں، لیکن فوجی افسر بننے کے لئے نوجوان تیار نہیں۔ بھارت کی فوج امریکہ کے بعد خودکشیوں کے معاملے میں دنیا میں دوسرے نمبر کا اعزاز پاچکی ہے۔ بھارت نے اپنے فوجیوں کے حوصلے بڑھانے کے لئے مسلمانوں کی ”شہادت” کی اصطلاح کو بھی کثرت سے چوری کر کے دن رات اسے استعمال کرنا شروع کر رکھا ہے لیکن بات وہیں کی وہیں ہے… اصل شہادت پانے کی آرزو کے ساتھ بندوق اٹھانے والے چونڈہ سے شوال تک کھبی جنرل حمید گل تو کبھی کرنل فیصل ملک کی شکل میں ایک جگہ ہی نظر آتے ہیں۔انہی پر قوم کل بھی فدا تھی آج بھی فدا ہے
تحریر: علی عمران شاہین