الیکشن 2018کے بعد پاکستان کے غریب عوام سمجھتے تھے کہ شاید اب نئی حکومت آئی ہے اور نئے پاکستان کے بعد ان کی قسمت بدل جائے گی کیونکہ عمران خان نے جس نئے پاکستان کا تصور پیش کیا تھا وہ تو قائداعظم کے پاکستان سے بھی زیادہ خوبصورت تھا۔کیونکہ وہ مدینہ کی ریاست کا تصور تھا۔
عوام کو بتایا گیا تھا کہ کرپشن کا مکمل خاتمہ ہوگا، شیر اور غریب عوام ایک ہی گھاٹ سے پانی پئیں گے۔ دو سو ارب ڈالر جو کہ باہر پڑے ہیں وہ کسی بحری جہاز پر لاد کر واپس لائے جائیں گے اور پاکستان کا قرضہ بھی معاف کرایا جائے گا بلکہ پاکستان میں خوشحالی کے ایک نئے باب کا آغاز ہوگا۔ اس کے علاوہ بیرون ملک پاکستانی سے کہا جائے گا کہ وہ فی کس کے حساب سے ایک ہزار ڈالر ملک میں بھیجیں جس سے ملک میں ڈیمز کیلئے کسی سے قرضہ مانگنے کی ضرورت نہیں ہوگی، کرسٹائن لگارڈ کیلئے پاکستان میں نو انٹری کا بورڈ لگ جائے گا بیورو کریسی کو حکومتی اثررسوخ سے باہر نکال کر آزادی دی جائے گی۔ غریب کو سستا بلکہ مفت انصاف مہیا کیا جائے گا، پیٹرول 45روپے فی لیٹر ہوگا۔ بجلی اور گیس سستی ملے گی اور اشیائے خوردونوش بھی غریب آدمی کی قوت خرید میں ہوں گی۔ شاہانہ طرز حکومت کا خاتمہ ہوگا، وزیراعظم ہائؤس کو یونیورسٹی میں تبدیل کر دیا جائے گا، ارکان اسمبلی کو کوئی صوابدید فنڈ جاری نہیں ہو گا، ایک کروڑ ملازمتیں، 50لاکھ گھر، 10ارب درخت، مجھے تو ان میں سے ایک بھی بات پوری ہوتی نظر نہیں آتی جبکہ حکومت اپنے سات ماہ مکمل کر چکی ہے۔
اچھا چلیں یہ مان لیتے ہیں کہ یہ تمام دعوے سیاسی بیانات کے علاوہ کچھ نہیں تھے تب بھی چونکہ اب حکومت عمران خان کی ہے تو ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اخلاقی طور پر جو کچھ ممکنات میں سے ہے اسے تو پورا کریں جیسے کہ وہ حزب اختلاف کو ساتھ لے کر پارلیمنٹ کو مضبوط کرسکتے ہیں کیونکہ میری دانست میں پارلیمنٹ آج جتنی کمزور ہے شاید پہلے نہ تھی۔ اس کے بر عکس شیخ رشید سمیت چند حکومتی وزیر تو جیسے حزب اختلاف کو گالیاں دینا ثواب سمجھتے ہیں اور پھر یہ بھی چاہتے ہیں کہ اپوزیشن والے خاموش رہیں۔ زرداری سب سے بھاری تھا کیونکہ پارلیمنٹ میں پیپلزپارٹی کی نمایاں نمائندگی کے علاوہ زرداری صاحب کی سیاست پر گہری نظر تھی۔ مگر آج سیاست پر عجیب و غریب وقت ہے بلکہ برا وقت ہے کہ شیخ رشید سب پر بھاری ہے جو کہ صرف ایک سیٹ کا ممبر ہے اپنی پارٹی میں اکیلا پارلیمنٹ ممبر ہے مگر حزب اختلاف تو کیا حکومت پر بھی بھاری ہے۔ میرے لئے حیران کن بات یہ ہے کہ حکومت وقت اور عمران خان جیسا وزیر اعظم اس سے ڈکٹیشن لے رہا ہے کیونکہ شیخ صاحب بڑی آزادی کے ساتھ میڈیا پر خود یہ دوعویٰ کر رہا ہے کہ میں نے عمران خان کو بتا دیا ہے کہ شہباز شریف کو پبلک اکائؤنٹ کمیٹی کا چیئرمین نہیں دیکھنا چاہتا ہوں۔ شیخ رشید نے حکومتی وزیر ہونے کے باوجود کہا کہ میں نے عمران خان کو کہہ دیا ہے کہ میں پی اے سی کا ممبر بننا چاہتا ہوں اور شہباز شریف کی تقاریر کے بعد میں تقریر کروں گا اس کے علاوہ وہ اسپپیکر قومی اسمبلی قیصر صاحب کی قابلیت پر سوالات اٹھا رہے ہیں جن کا تعلق بھی پی ٹی آئی سے ہے مگر عمران خان سمیت ساری پی ٹی آئی خاموش ہے ۔ شیخ صاحب کی بات پر عمران خان کا لبیک کہنا سمجھ سے باہر ہے۔ حکومت میں بہت سے وزیر ہیں اور وہ بھی بچارے اپنی اپنی وزارتوں کے حوالے سے پریس کانفرنس کرتے ہیں مگر میڈیا میں نظر نہیں آتے مگر دوسری طرف شیخ رشید چھینک مارتا ہے تو میڈیا موجود ہوتا ہے کہ جیسے کوئی غیبی ہاتھ میڈیا کو زبردستی لایا ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ شیخ رشید میڈیا کے الطاف حسین بن چکے ہیں۔ ایک ایسا بونگا آدمی جس کی بات میں وزن کے بجائے ہلکا پن ہو اور وہ جب میڈیا پر بات کرے تو چینلز کی ریٹنگ بڑھ جائے؟ کیا کوئی غیبی ہاتھ اس کے پیچھے ہے جو اشارہ کرتا ہے تو چینلز کی ریٹینگ بڑھ جاتی ہے۔
یہ کونسی طاقت ہے جو بڑے بڑے ٹی وی اینکرز کو بھی یہ کنٹرول کر کے رکھتی ہے کہ وہ شیخ صاحب سے کوئی ایسا سوال نہیں پوچھتے کہ جس سے شیخ صاحب کو غصہ آجائے۔ عثمان بُزدار کے حوالے سے پاکستان کا میڈیا سخت موقف رکھتا ہے اور اس کی چھوٹی سے بات پر سارا دن پروگرام ہوتے ہیں مگر شیخ صاحب کے بڑے بڑے بلنڈر بھی ہضم ہو جاتے ہیں۔ شیخ صاحب نے ایک بڑے چینل پر بلاول بھٹو کو ان کے شیخ صاحب کے خلاف بیان پر سرعام دھمکی دی کہ جن کے ہاتھ میں تمہاری چابی ہے ان کو میں نے کہہ دیا ہے کہ بلاول بھٹو کو مجھ سے معذرت کرنی ہو گی ورنہ بلاول کو اس کی قیمت چکانا ہوگی۔ تھوڑی دیر بعد بلاول کی معذرت کا ٹوئٹ آ گیا۔ کسی نے بھی شیخ صاحب کے حوالے سے سوال کرنے کی جرأت نہیں کی کہ آپ نے بلاول کی شکایت کہاں کی۔ شیخ رشید کے بیانات میں تکبر اور گھمنڈ نظر آتا ہے۔ آج کل ان کا یہ جملہ بڑا مشہور ہے کہ میں پی آے سی میں شہباز شریف کو دیکھنا نہیں چاہتا۔ یعنی کیا پدی کیا پدی کا شوربہ مجھے یہ بھی گمان ہے کہ مستقبل میں شیخ رشید بھی پاکستان کا وزیراعظم بن سکتا ہے اور اگر کسی کو میری بات پر شک ہو تو وہ 2007سے 2013تک کی پاکستانی سیاست کے دور کا مطالعہ کرے تو سمجھ آ جائے گی کہ اس وقت عمران خان کو بھی لوگ تانگہ پارٹی والا کہا کرتے تھے۔ اس وقت عمران خان بھی اسی طرح کی گفتگو کیا کرتے تھے۔ اس وقت عمران بھی پاکستانی میڈیا پر سب سے زیادہ ریٹنگ والے تصور کئے جاتے تھے اور اس وقت عمران خان بھی پارلیمنٹ میں اکیلی سیٹ ہونے کے باوجود بھی ایم کیو ایم، پیپلزپارٹی اور ن لیگ کو منہ نہیں لگاتے تھے۔ اسی طرح کا تکبر اور گھمنڈ ہوا کرتا تھا جو آج بھی ہے مگر شاید اس میں وقت کے ساتھ کمی آ رہی ہے۔ اس وقت عمران خان کا لب لہجہ بھی اسی طرح کا تھا جو آج شیخ صاحب کا ہے۔ اس وقت عمران خان بھی ایم کیو ایم کے حوالے سے پیش گوئیاں کیا کرتے تھے کہ آج فلاں کو گرفتار کیا جائے گا اور الطاف حسین کی سیاست ختم ہو جائے گی اور پھر ہم نے دیکھا کہ وہی ہوا۔ آج شیخ صاحب جو کہتے ہیں وہی ہوتا ہے تو کیا آنے والے وقت میں شیخ رشید کی تانگہ پارٹی بھی اسلام آباد یونیورسٹی میں اپنے لئے جگہ بنا سکتی ہے جسے ہم وزیراعظم ہاؤس کہتے ہیں۔