تحریر: ڈاکٹر تصور حسین مرزا
کسی بھی غیور و غیرت مند قوم کو شکست دینا کوئی آسان کام نہیں بلخصوص پاکستانیوں کو کسی بھی میدان میں شکست نہیں دی جا سکتی، کیونکہ اللہ پاک کے خصوصی فضل و کرم سے پاکستانی قوم ایک ایسی قوم کا نام ہے، جن کی زندگی میں ناکامی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی، یہ بات ہم بحثیت پاکستانی قوم کم جانتے ہیں مگر ہمارے ازلی دشمن بخوبی جانتا بھی ہے اور اس بات کو مانتا بھی ہے۔ مجھے اس بات سے بھی اتفاق ہے کہ پاکستانی قوم ایک ان پڑھ کوکسی دفتر میں چپڑاسی نہیں رکھ سکتی مگر جاہل، ان پڑھ، شرابیوں کو صوبائی کیا قومی اسمبلی کا ممبر بھی منتخب کر لیتی ہے۔
یہ بھی سچ ہے کہ لوگ پچاس پچاس روپے کی خاطر موت کے گھاٹ اتار دیئے جاتے ہیں، اور اربوں کھربوں کی لوٹ کھسوٹ کر کے قومی خزانے کو دیمک کی طرح چاٹنے والوں کو عقیدت و احترام سے دیکھا جا تا ہیں، اس بات سے بھی مجھے انکار نہیں بازار میں گوشت حلال و حرام کی تمیز کے بغیر فروخت کر دیا جاتا ہے۔
حالانکہ نماز روزے سمیت خدمت خلق میں بھی پاکستانی کسی قوم سے پیچھے نہیں، اللہ پاک نے پاکستانیوں میں بے پناہ صلاحیتوں کو چھپا رکھا ہے، اگر باصلاحیت لوگ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر آگئے آجائیں تو دنیا کی سُپر پاور صرف پاکستان ہو، یہ بات کوئی مفروضوں پر مشتمل نہیں بلکہ ٹھوس حقائق کی بناہ پر کہہ رہا ہوں جس کو سمجھنے کے لئے صرف ایک مثال پاکستانی فوج کی دیتا ہوں۔
آئی ایس آئی دنیا کی اول درجہ کی ایجنسی کا اعزاز حاصل کرنے میں، اللہ پاک کا کرم نبی کریم ۖ کا عشق، قوم کی دعاؤں اور پاکستانیوں میں خداداصلاحیوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہیں دنیا میں کوئی بھی ایسی قوم نہیں جس نے ترقی علم، تعلیم، اور تربیت کے بغیر حاصل کی ہو۔
تعلیم کے بغیر ترقی کا خواب دیکھنا ایسا ہی ہے جیسے دِن کو رات یا رات کو دن کہا جائے، یہ تعلیم ہی ہے جس نے خطوں، ریاستوں اور ملکوں کوعام سے خاص بنایا، ترقی پزیر سے ترقی یافتہ بنایا،عام سی قوموں کو اثر وسوخ والا بنایا، کم اہمیت سے زیادہ اہمیت سمیت دنیا کی سُپر پاور کے طور پر منوایا،آج تعلیم ہی کے بل بوتے پر قومیں اور ملک اپنی کامیابی کا لوہا منوارہی ہیں۔
پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ شعبہ تعلیم میں ہم بلکل آزاد نہیں ،ہمارے نصاب تعلیم میں جو وقتاً فوقتاً تبدیلیاں ہوتیں رہتیں ہیں، ان میں قانونی، اخلاقی اور نظریاتی احساس کو اہمیت دی جانی چاہئیے مگر عملی طور ایسا نہیں کیا جاتا۔ شروع سے ہی ہمارے تعلیمی ساز پالیسی بنانے والوں کے دماغ میں یہ بات بٹھا دی جاتی ہے، کہ مذہبی اور سیکولر حلقے ایک دوسرے کے تعلیمی میدان میں مخالف ہیں۔
میں اس مخالفت سے انکار نہیں کرتا مگر یہ مخالفت کب اور کس نے ختم کرنی ہے؟ ہر شخص کا پختہ ایمان ہے کہ اسلامی جموریہ پاکستان کا معرضِ وجود میں آنے کی بنیادی اکائی دو قومی نظریہ تھی،اور انشااللہ قیامت تک یہ دو قومی نظریہ زندہ و پائندہ رہے گا اور اگر ہم اس کو وفاق اور صوبوں کی چپلقش کا نام دے کر اپنے آپ کو بری الزمہ قرار نہیں دے سکتے، علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ
افراد کے ہاتھوں میں اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
تعلیم و تدریس سے وابسطہ لوگ مبارک باد کے مستحق ہیں،تعلیم سے جہاں ملک و قوم کی ترقی ہوتیں ہیں وہاں اللہ اور اللہ کے رسول ۖ کی قربتیں بھی نصیب ہوتیں ہیں اور یہ بہت بڑی سعادت کی بات ہوتی ہے ، نصاب تعلیم میں جدت کے نام پرپاکستانی قوم کے ساتھ سنگین مذاق بند ہونا چاہیے۔
ہم سب کو ایک ہونا پڑے گا تا کہ کوئی ازلی ابدی دشمن اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب نہ ہو سکے،آئے روز سیلبس میں تبدیلیاں کوئی نیک شگون نہیں ، ہم جانتے ہیں بین الاقوامی ادارے جو تعلیم کے شعبہ میں ہماری مدد کرتے ہیں وہ کوئی ہمارے ماموں کے بیٹے نہیں بلکہ ان کے اپنے اپنے مقاصد اور مفاداد ہوتے ہیں۔
اس سال جو تین موضوع شامل کئے گئے ہیں ان میں ڈینگی، حفظان ِصحت اور خواتین کے حقوق وغیرہ نصاب کا حصہ بنایا گیا ہے، اس کو میٹھا زہر ہی کہوں گا، کیونکہ اگر انسانی تاریخ کی ورق گردانی کی جائے تو ایک بات ہی روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں کہ جو حقوق نبی آخرالزماں محسن انسانیت جناب رسالت مآب ۖ نے دئیے وہ حقوق انسانیت کو نہ چودہ سال قبل میسر تھے اور نہ ہی دائرہ اسلام سے باہر نظر آتے ہیں۔
اگر خواتین کے حقوق کی بات کی جائے تو تاریخِ انسانی نہیں بلکہ تاریخ ِ اسلام کے در پر آئیے اور دیکھئے کہ عورت کی عزت ، عورت کا وقار، اور عورت کے حقوق کو عملی شکل میں کس نے پیش کیا، اگر حسد بغض اور لالچ سے باہر اور کر دیکھا جائے تو پوری انسانی تاریخ میں ایک ہی ہستی ہے جس کو ہر جاندار اور بے جان چیز جانتی بھی ہے اور مانتی بھی ماسوائے چند انسانوں اور جنوں کے،
کسی شاعر کا ایک شعر ہے ۔۔۔
دو چار نہیں صرف ایک ہی بتا دو
وہ شخص جو اندر سے بھی باہر کی طرح ہو
تاریخ اگر ڈھونڈے گئی ثانی محمد
ثانی تو بڑی چیز ہے سائی نہ ملے گا
دنیا سمیت تمام جہانوں میں ایک ہی ایسی ہستی ہے
جو اند سے بھی باہر کی طرح ہے
جس کا زکر مخلوق اور خالق دونوں کرتے ہیں، اور الحمداللہ ہمارے لئے یہ بات باعث فخر ، باعث افتخار اور خوش قسمتی ہے کہ ہم جنابِ رسالت ۖ کی امت سے ہیں، اگر ہم اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں؟اگر ہم چاہتے ہیں ترقی یافتہ قوم کی صف میں کھڑے ہوں؟اگر ہم چاہتے ہیں۔
پاکستان سے لوٹ کھسوٹ کا خاتمہ ہو؟اگر ہم رشوت سفارش اور کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں؟ اگر ہم ملاوٹ سے پاک چاہتے ہیں ؟اگر ہم چاہتے ہیں کسی کے حقوق کی حق تلفی نہ ہو؟اگر ہم پاکستان سے شراب ، زنا اور سود کا خاتمہ چاہتے ہیں ؟ دنیا کی سپر پاور پاکستان بنے ؟تو صرف ایک کام کرنا ہوگا کہ بنیادی نصاب میں سیرت النبی ۖ کو شامل کیا جائے۔
تحریر: ڈاکٹر تصور حسین مرزا