سپریم کورٹ میں پاناما پیپرز کیس کی سماعت کے دوران تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ ہم اسحاق ڈار، کیپٹن ریٹائرڈ صفدر اور وزیر
اعظم کی نااہلی چاہتے ہیں ، وزیراعظم کے بچوں کو صرف اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لئے فریق بنایا ہے۔ ججز نے ریمارکس دیے کہ زیرکفالت ہونے کو واضح کیے بغیردلائل ہوا میں قلعہ بنانے کے مترادف ہے، آپ وزیراعظم کو نااہل کرانا چاہتے ہیں یا بچوں کو بھی، آپ اپنے دلائل کی سمت کا تعین کریں ۔
سماعت کے دوران عدالت نے تحریک انصاف کے وکیل سے کہا کہ آپ بلند وبانگ بیانات دے رہے، آپ کو ان کے ثبوت بھی دینا ہوں گے، قطر کے شہزادے کے خط کو اٹھا کر پھینکنے کی استدعا پر عدالت نے کہا کہ اگر خط غلط ہے تو اس پر بحث کیوں کر رہے ہیں، عدالت نے کہا کہ شریف خاندان کا کوئی بھی فرد اپنے انٹرویو یا اخباری بیان کی تردید کر تا ہے تو اس کو عدالت میں بلا یا جاسکتا ہے۔
سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی بینچ نے پاناما پیپرز کیس کی سماعت کی۔
تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے عدالت میں پیش کئے گئے قطر کے شہزادے کے خط اور شریف خاندان کے بیرون ملک کاروبار اوراثاثوں سے متعلق خاندان کے مختلف افراد کے بیانات پر دلائل دیے۔نعیم بخاری نے کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف کے کسی بیان میں قطرکے شہزادے کے خط کا کوئی ذکر نہیں اور نہ ہی دبئی سے منتقل کی جانے والی کسی رقم کا کوئی ذکرہے۔جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ خط میں یہ نہیں لکھا کہ آف شور کمپنیاں اثانی خاندان کی ملکیت ہیں۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ یہ بتانا ہو گا کہ قطر میں سرمایہ کاری اور لندن میں جائیداد کیسے بنی۔
نعیم بخاری کی اس دلیل پر کہ ساری جائیداد دادا سے ایک پوتے کو منتقل نہیں ہو سکتی، جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ ہم قطرکے شہزادے کے خط کا جائزہ لے رہے ہیں کسی کے قانونی وارث ہونے کا نہیں۔پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ جدہ فیکٹری کا کوئی ریکارڈ نہیں اور قطری خط مکمل طور پر فراڈ ہے، جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ خط بظاہر ایک شخص کی یاداشتوں پر مشتمل تحریر لگتا ہے، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اگر قطرکے شہزادے کا بیان سنی سنائی باتیں ہیں تو آپ اس کو بطور ثبوت کیوں استعمال کر رہے ۔نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ قطری شہزادے کا خط ہمارا نہیں وزیر اعظم کی پیش کردہ دستاویز ہے، قطری شہزادے کے خط کو نظر انداز کردیا جائے تو پتا لگ جائیگا کہ فلیٹس شریف خاندان نے خریدے۔جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں ؟ آپ کے پاس کوئی ثبوت ہے؟ آپ کو دستاویزی ثبوت دکھانا ہوںگے۔ نعیم بخاری نے بینچ سے استدعا کی کہ قطرکےشہزادے کےخط کو کارروائی سے نکال پھینکا جائے۔جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ خط کو کیسے نکال پھینکیں، وزیر اعظم کے بچوں کے کیس کا انحصار اسی خط پر ہے۔
تحریک انصاف کے وکیل کا کہنا تھا کہ نے کہا کہ وزیر اعظم کے بچوں کا مؤقف ان کے بیانات سے متضاد ہے۔
جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اپنے سوالات سے حقائق جاننے کی کوشش کر رہے ہیں،مزید حقیقت جاننے کے لئے دوسرے فریق سے بھی سوالات کریں گے۔نعیم بخاری نےشریف خاندان کے افراد کے انٹرویوز اور اخباری بیانات بھی پیش کئے کہا کہ کئی بار اخباری خبر پر نوٹس اور کارروائی بھی ہوئی۔سپریم کورٹ کے جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ بخاری صاحب آپ بلند و بانگ بیانات مت دیں ، ان کے ثبوت دینا ہوںگے۔
نعیم بخاری نے بیگم کلثوم نواز کےسال 2000میں دیے گئے انٹرویو کا حوالہ دیا تو جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اخباری خبروں کا بھی قانون کے مطابق جائزہ لیں گے۔سماعت میں جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اگر پیش کیے گئے اخباری انٹرویو کی تردید آئے تو متعلقہ صحافی کو بلایا جاتا ہے،اگرکوئی اپنے انٹرویو کی تردید کرے تو اس کو عدالت میں بلایا جاسکتاہے۔
جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اگر انٹرویویا اخباری خبر پر کسی کو ہم پھانسی لگادیں تو آپ کا مؤکل بھی نہیں بچے گا، ہمیں 500سال قبل والے ٹرائل پر نہ لے جائیں۔
پاناما پیپرز کیس کی سماعت میں وزیراعظم کےنئےوکیل مخدوم علی خان نےنوازشریف کی عوامی عہدوں کی تفصیلات بھی جمع کرائیں۔
مقدمے کی مزید سماعت کل صبح ساڑھے نو بجے ہوگی۔