تحریر : رانا اعجاز حسین
ماں کا عالمی دن ہر سال مئی کی دوسری اتوار کو پاکستان بھر میں بھی بڑے ذوق وشوق سے منایا جاتا ہے ،سال کے 365دنوں میںسے صرف ایک دن ماں کے لیے منایا جانا، ممتا جیسی ہستی اور اس حسین رشتے کے لیے بہت ہی ناکافی ہے۔ ماں وہ ہستی ہے کہ ماں کی محبت میں کوئی ریاکاری، کوئی تصنع، کوئی بناوٹ اور کوئی دکھاوا نہیں ہوتا۔ ماں جو اپنی اولاد کی رازداں ہوتی ہے ان کے دلوں کے بھید جانتی ہے۔ ان کی خوبیوں کو اجاگر کرتی، ان کی خامیوں، ان کی کوتاہیوں، کمیوں، کجیوں کی پردہ پوشی کرتی ہے۔ محض اس لئے کہ اولاد کی دل آزاری نہ ہو۔ جو اولاد کی خوشی میں خوش، ان کے غم میں ان کی دل جوئی کرتی ہے۔ گرنے لگتا ہے تو تھام لیتی ہے۔ اولاد کی کامیابی پر خوشی سے نہال اور ناکامی پر دل گرفتہ ہو جاتی ہے۔
خدا تو خالق کائنات ہے، وہ سب کے ساتھ انصاف کرتا ہے۔ خالق دو جہاں کے بعد ماں ہی وہ واحد ہستی ہے جو لائق، نالائق، صالح، بد اعمال، اپنے سارے جگر گوشوں کے ساتھ یکساں پیار کرتی ہے۔ وہ اپنی اولاد سے پیار اس کی ڈگری، منصب، اہلیت کی بنیاد پر نہیں کرتی۔ اس کا میرٹ صرف اور صرف اس کی کوکھ سے جنم لینے والا بچہ ہے۔ ہاں کبھی کبھار کسی ایک بچے کو اپنی ہتھیلی کا چھالہ بنا لیتی ہے۔ اس کو نہیں جو سب سے ذہین، فطین یا خوبرو ہے بلکہ اس کو جو کمزور ہو، زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ چکا ہو۔ یہ وصف صرف اور صرف ماں کے رشتے میں ہے اور کسی میں نہیں۔ ماں جو سرد ترین راتوں میں سب سے آخر میں سوتی ہے، محض اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ اس کے بچے پرسکون نیند سو چکے یا نہیں۔
ماں جو ٹھٹھرتی صبح میں سب سے پہلے، نیند پوری کئے بغیر جاگ اٹھتی ہے تاکہ اولاد کو منہ ہاتھ دھونے کیلئے، نہانے کیلئے گرم پانی مل سکے۔ ان کو استری یونیفارم اور چمکتے ہوئے پالش شدہ جوتے مل سکیں۔ ہر بچے کو گرم دودھ، اس کا پسند یدہ ناشتہ مل سکے۔ تاکہ وہ سکول جانے سے پہلے مقدور بھر ہر بچے کی جیب میں جیب خرچ کے چند روپے ڈال سکے۔ ایسا نہیں تو ان کو لنچ میں وقفے کے لئے کچھ کھانے کو ساتھ دے سکے۔ وہ اس لئے بھی صبح سب سے پہلے بیدار ہوتی ہے کہ دروازے پر کھڑے ہو کر سکول کیلئے رخصت ہوتے بچوں کی پیشانی چوم کر ان کو الوداع کر سکے سکول جاتی ان کی وین کو موڑ مڑ کر نظروں سے اوجھل ہوتا دیکھ لے۔
عالمی دن کے موقع پر کسی نے لکھا کہ ماں کے احسان کا بدلہ کوئی نہیں چکا سکتا۔ اس بندہ خدا کو کیا معلوم کہ ماں کسی پر احسان نہیں کرتی۔ ماں تو قربانی دیتی ہے، ایثار کرتی ہے، احسان کا کیا ہے، اس کا بدلہ بڑا احسان کر کے اتارا جا سکتا ہے۔ مہربانی کا حساب، اس سے بھی بڑی مہربانی کر کے چکایا جا سکتا ہے۔ ایثار اور قربانی کا کوئی بدلہ نہیں۔ اس کا کوئی صلہ نہیں، ماں کی مشقتوں سے پر زندگی کے ایک لمحہ کا بھی کوئی معاوضہ نہیں دے سکتا، سال میں ایک دفعہ خصوصی دن منا کر، ایس ایم ایس کر کے، وش کارڈ بھجوا کر، ٹی وی چینل پر خصوصی پیکیج چلا کر یا کسی اخبار میں خصوصی ضمیمہ چھپوا کر تو بالکل ہی نہیں۔
ماں جیسا کوئی نہیں، ایسا رشتہ کوئی نہیں۔ یہ ماں ہے جو بچوں کے رخصت ہونے کے بعد ان کی بکھری جوتیاں، ادھر ادھر پڑے کپڑے، زمین پر گری چادریں، سلوٹوں سے بھرے بستروں کو درست کرتی ہے۔ کمرہ صاف کرتی ہے۔ ایسا کرتے ہوئے اس کے چہرے پر ناگواری کی شکن تک نہیں ہوتی۔ بلکہ خوشی، وارفتگی اور محبت ہوتی ہے۔ یہ ماں ہے جو چلچلاتی دھوپ میں کھڑے ہو کر اپنے بچوں کا انتظار کرتی ہے۔ ان کو اپنے ہاتھوں سے نوالہ کھلاتی ہے۔ یہ صرف اور صرف ماں ہے جو سب سے آخر میں کھانا کھاتی ہے تاکہ اس کے بچے پیٹ بھر کر کھا سکیں۔ وہ محض اس لئے بچا کھچا کھاتی ہے کہ کہیں بچوں کو ان کی غربت اور کم مائیگی کا احساس نہ ہو۔ وہ محض اس لئے کم کھا کر، کبھی بھوکے پیٹ سو جاتی ہے کہ کہیں اولاد بھوکی نہ رہ جائے۔
دنیا میں صرف ایک ہستی ماں ہے جو گرمیوں میں بچوں کو پنکھے کے عین نیچے سلاتی ہے اور خود دور سوتی ہے تاکہ اس کے لخت جگر کو گرمی نہ لگ جائے۔ بجلی چلی جائے تو دستی پنکھے سے، گتے کے کسی ٹکڑے سے، ہر ممکن طریقہ سے پنکھا جھلتی ہے تاکہ اس کے جگر گوشہ کی آنکھ نہ کھل جائے۔ اس کو مچھر نہ کاٹیں، ایسے وقت وہ خود مارے گرمی کے پسینہ سے نہائی ہوتی ہے۔ لیکن اپنے لئے وہ ہوا کا ایک جھونکا بھی بچا کر نہیں رکھتی۔ سب اپنے بچے پر نچھاور کر دیتی ہے۔ سردیوں میں نیا اور قیمتی کمبل، موٹی اور گرم رضائی بچوں کے لئے مختص کر دیتی ہے۔ خود چادر لپیٹ کر یا بستر کے آخری کنارے، تنگ جگہ پر سکڑ کر سمٹ کر سو رہتی ہے۔ صرف اس لئے کہ بستر پر لیٹے کم سن بچے کو کشادگی کا احساس ہو، تنگی محسوس نہ ہو۔ یہ صرف ماں ہے جو بچے کی پہلی آواز، پہلی پکار پر لبیک کہتی ہے۔
دنیا میں ایسی کوئی ہستی نہیں۔ ۔ باپ، بہن، بھائی سمیت دنیا کا کوئی رشتہ بچوں کی بہترین پرورش کا کام احساس زمہ داری کے بغیر کر ہی نہیں سکتا۔ لیکن ماں تو محبت ہے، گداز ہے ، نرم ہے، ریشم ہے، لطافت ہے، وارفتگی ہے، مٹھاس ہے۔ اس کو تو سب گوارا ہے اولاد کا ہر ناز پیارا ہے کیونکہ وہ ماں ہے۔
گھر سے جب ماں کے قدم چھو کے نکل جاتا ہوں
زندگی اور بڑھا دیتی ہے میرا اعجاز
یہ ماں ہے جس کے لئے اس کی اولاد ہمیشہ بچہ ہی رہتی ہے۔ چاہے اس کے عمر رفتہ کے ساتھ بال سفید کیوں نہ ہو چکے ہوں۔ یہ ماں ہی جو اپنے بچوں کے بچپن کے کھلونے تک ساری زندگی سنبھال کر رکھتی ہے۔ اس کی ایک ایک، شرارت ہر ایک حرکت کو، گزرے ہر دن کو ضروری آموختہ کی طرح دل کی کتاب میں محفوظ رکھتی ہے۔ یہ ماں ہے جس کو بچے کا بولا گیا پہلا لفظ، رینگنے، اپنے قدموں پر چلنے کا پہلا دن ہمیشہ یاد رہتا ہے۔
بچے کے سکول جانے کا پہلا دن ہمیشہ اس کی آنکھوں کے سامنے رہتا ہے۔ بچے کے ہاتھ سے لکھا پہلا حرف، سکول کی پہلی کتاب، کاپی اور پہلا رزلٹ ہمیشہ سنبھال کر رکھتی ہے۔ بیٹی پیدا ہوتی ہے تو اس کی پیدائش کے دن سے ہی اس کی رخصتی کیلئے پیسہ پس انداز کرنا شروع کر دیتی ہے۔ ایک ایک جوڑا بنا کر جہیز تیار کرتی ہے۔ ایسی کڑی تپسیا اور کوئی نہیں کر سکتا۔ یہ ماں ہے جو گھر کے خرچ سے ( جو اکثر حالتوں میں بہت محدود اور قلیل ہوتا ہے )میں سے خاوند کی نظر بچا کر پیسہ پیسہ الگ رکھتی جاتی ہے۔ پھر عین اس دن جب شوہر کی جیب میں بچے کی فیس، داخلہ بھجوانے کیلئے پیسے نہیں ہوتے، کوئی ضروری کتاب خریدنے کی سکت نہیں ہوتی۔ ماں آگے بڑھتی ہے کسی تکیہ کے غلاف میں، کسی دوپٹہ کے کونے میں محفوظ کئے ہوئے پیسے نکال کر ہاتھ پر رکھ دیتی ہے۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بڑے چاؤ اور شوق سے بنوائی کوئی معمولی بالی، ہاتھ کی چوڑی نکال کر بچے کی خواہش پر قربان کر دیتی ہے۔ ایسے کرتے ہوئے وہ کسی کریڈٹ کی طلب گار ہوتی ہے نہ ستائش کا مطالبہ کرتی ہے۔ بستر مرگ تک اولاد کے لئے تڑپنے، بے چین ، بیقرار و بے کل رہنے والی اس ہستی کے لئے ، ماں کے لئے صرف ایک دن کیوں؟ دن کے 24 گھنٹے، ہفتے کے سات روز، سال کے 365 دن، سب اس کے نام، سارے اس کے لئے، صرف ماں کیلئے۔ ہم ماں کی کسی شفقت اور مشقت کا بدلہ تو ہرگز نہیں چکا سکتے بس یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ماؤں کی قدر کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
دامن میں ماںکے صرف وفاؤں کے پھول ہیں
ہم سارے اپنی ماں کے قدموں کی دھول ہیں
تحریر : رانا اعجاز حسین
ای میل: ra03009230033@gmail.com
رابطہ نمبر:03009230033