تحریر : ممتاز ملک
ہمارے ملک میں جب بھی حکمرانوں کی گردن پھنسی ہے کہیں تو وہ فورا کسی نئے قانون کی آڑ میں انہیں پھنسانے والوں کے خلاف انتقامی کاروائی کا آغاز کر دیتے ہیں . اس کی نئی مثال…. آج تک سوشل میڈیا کی وجہ سے جو لوگ اغوا ہوئے، قتل ہوئے، لڑکیاں گھروں سے بھاگیں یا انہیں ریپ کیا گیا ….یا ڈاکے ڈالے گئے یا دہشت گردوں نے ہزاروں معصوم ذہنوں کو بہکایا گیا، انہیں دہشت گرد اور بمبار بنایا ،یا مذہب کے نام پر دہشت پھیلائی ان سب پر بار بار کے مطالبے کے باوجود نہ تو کوئی قانون سازی ہوئی اور نہ ہی کوئی عملی اقدام کیئے گئے ، کسی حکومت کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔
لیکن اب ایسا اچانک کیا ہو کہ حکومت بھگوڑی ہونکر ملک سے غائب ہے لیکن ان کے چیلے اسمبلی میں بیٹھے سائبر کرائم کے نام پر عام آدمی کی آنکھ، کان ، ہاتھ اور زبان کاٹنے کی منصوبہ سازی ، قانون سازی کے نام پر کر رہا ہے وہ بھی ایسے بھونڈے انداز میں کہ جس کے بھونڈے پن کو ہم صرف حکومتی غنڈہ گردی ہی کہہ سکتے ہیں۔
قارئین آنکھیں اور کان کھولیئے اور پچھلے چند روز میں کیا ایسا ہوا یاد کیجیئے . جی ہاں پاناما لیکس. ..حکومت پر جب براہ راست ایک خاندان کی ملک سے باہر جمع کی گئی دولت کے کمانے کے ذرائع پر سوال اٹھایا گیا اور سوشل میڈیا نے اس پر اپنا بھرپور کردار ادا کیا اور ایک خاندان کو ملک سے فرار ہو کر اس ملک کے لٹیروں کیساتھ مل کر صلاح مشورہ کرنا پڑا کہ کیسے فیس بک اور سوشل میڈیا کی دیگر سائیڈز پر اجارہ داری قائم کی جائے اور انہیں فیس بک پر ان لٹیروں کے خلاف آواز اٹھانے کی سزا دی جائے … تو ان کو سائبر کرائم کا نام بھی یاد آگیا اور اس پر قانون سازی کا ڈرامہ بھی شروع ہو گیا … لیکن ان بے وقوف مشیروں نے انہیں یہ نہیں بتایا کہ میاں
“بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی”
کیونکہ.اس میں جو شقیں شامل کی جارہی ہیں وہ کہیں بھی متوازن اور مکمل نہیں ہیں .اس کی ہر شق کی زد میں آپ کے گھروں کے افراد ہی سب سے زیادہ جیل جائیں گے کیوں کہ ایک عام آدمی تماشا دیکھنے کو خاموش ہو بھی گیا تو اس کے گھر میں آٹھ افراد میں ایک آدمی اگر یہ سائیڈز اپنی آواز کے لیئے استعمال کرتا ہے تو آپ کے گھر کے تو ایک ایک کے ہاتھ میں دس دس فون اور لیپ ٹاپ موجود ہیں جو کبھی آف نہیں ہوتے . آپ کی مخالف کے منہ پر باندھی گئی پٹی آپ کے حق میں بھی زندہ باد نہیں بول سکے گی. کیونکہ اس سے اگلے گروپ کو بھی اعتراض ہو گا۔
گویا اعتراض برائے اعتراض اور زباں بندی کی یہ ناکام کوشش عوام کو خانہ جنگی کی جانب دھکیلنے کی کوئی سوچی سمجھی سازش تو نہیں ہے . فوری طور پر اس قانونی مسودے کو ملکی سلامتی کو خطرے کی گھنٹی سمجھ کر اس کامطالعہ کیجیئے. جس میں کسی کے ہتھیار دکھانے لوگوں کو ورغلانے اور اوپر بیان کی گئی پریشانیوں کے لیئے کوئی تجویز ماسوائے (فحش مواد کی تشہیر کے ) شامل ہی نہیں ہے۔
لہذا اب حکومت کے اس سازشی بل کو منظور نہیں ہونے دینا اس کے لیئے خواہ کسی بھی سطح پر جا کر آواز اٹھانی پڑے اٹھائیے . جس سے ہم تمام لکھنے والوں کو بھی سرکاری قصیدہ گو بنانے کی کاروائی کا آغاز ہونے جا رہا ہے . مل کر اس کے خلاف بھرپور آواز اٹھایئے۔
سائبر کرائم کا قانون دوسروں کی ذاتی زندگی میں دخل اندازی پر ہونا چاہیئے، ملکی سلامتی کے خلاف کاموں پر ضرور ہونا چاہیئے ، نہ کہ حکومت پر تنقید یا” ان کافون کسی نے چھو لیا “یا” ان کا کارٹون کسی نے بنا دیا” یا “ان کی زیادتی پر آواز کسی نے اٹھا دی” …یہ کیا شرمناک باتیں ہیں . میاں صاحبان آپ کی انہیں شہنشاہ اور بادشاہ بننے کی خواہشات نے اور اکیلے بولنے کے اور ہر ایک کا اختیار اپنے ہاتھ میں لینے کے شوق نے پہلے بھی دو بار آپ کو ذلیل کروا کر اس منصب سے فارغ کروایا . اب تیسری بار بھی آپ نے ہر روز ایک نئی کوشش جاری رکھی۔
کچھ ایماندار لوگوں کی وجہ سے نہ آپ کا یہ خواب پہلے شرمندہ تعبیر ہوا اور نہ ہی اب ہو گا انشاءاللہ. سچ بولنے والے کل بھی زندہ تھے ،جب انہیں مصلوب کیا گیا ،انہیں کوڑے لگائے گئے ،ان پر ملازمتوں کے دروازے بند کر دیئے گئے، لیکن انہوں نے اپنی زبان ،قلم اور ضمیر نہ کل بیچا تھا نہ آج بیچیں گے۔
قصیدہ گوئی کا شوق اپنے اچھے کاموں سے پورا کیجیئے نہ کہ ہر بار اپنے اوچھے ہتھکنڈوں سے لاشریک بننے کے کفر میں مبتلا ہو کر خدائی عذاب کو دعوت دیکر…کیونکہ
“زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو”۔
تحریر : ممتاز ملک