تحریر: انجینئر افتخار چودھری
مجھے یہاں عمران خان سے بھی کہنا ہے کہ کہ وہ ان لوگوں سے سے بچیں جو انہیں بار بار اسی جانب موڑنے کی کوشش کر رہے ہیں جو آپ نے ١٢٦ دنوں کے دھرنے میں ثابت کیا تھا کہ یہ غلط ہے۔آپ نے ہمیں زرداری اور نواز شریف کی کرپشن مولانا ڈیزل کی کہہ مکرنیوں اسفند یار ولی اور اچکزئی کی چالاکیوں سے آگاہ کیا تھا۔خدا را اگر جنت بھی انہی لوگوں کے ذریعے ملتی ہے تو نہیں چاہئے مانگے کی جنت اس سے دوزخ کا عذاب کہیں بہتر ہے۔کبھی جیو سے دوستی کبھی جوڈیشنل کمیشن کے مطالبے سے دست برداری پی ٹی آئی کی دلیری بہادری کے منہ پر طمانچہ ہے۔عمران خان مایوس لوگوں کی آخری امیدہے جو جنگ اس نے ڈی چوک میں جیتی ہے اسے بنی گالہ میں ہارنے نہ دیں۔میں آے آر وائی دیکھ رہا ہوں میرے سامنے پیپلز پارٹی کے افضل چن ہیں۔
تو کیا اب خدا سے دعا مانگنی پڑے گی کے وہ گنجوں کو ناخن دے دے۔میری مراد ان سے نہیں ہے جن سے مراد سعید اور آپ سمجھتے ہیں۔مجھے آج پیپلز پارٹی کے ندیم افضل چن کے بارے میں بات کرنی ہے جن کو دیکھ کر چن چن دے سامنے آگیا والاگانا یاد آ جاتا ہے۔موصوف اسمبلی ہال کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر تحریک انصاف پر برس رہے تھے ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے سارے رکن اسمبلی میں آ جاتے تو سینیٹ کی ایک سیٹ جیتی جا سکتی تھی انہوں نے اندھیرے میں یہ کہتے ہوئے بھی تیر چلا دیاکہ پی ٹی آئی اور پی ایم ایل این کا مک مکا ہو گیا ہے۔ندیم افضل چن کو اتنی افضلیت حاصل نہیں کہ ان پر پورا کالم لکھ دیا جائے مگر باتیں اپنے سے اتنی بڑی کر دیں کہ بات کہنے کو جی کر آیا ہے ۔موصوف کو عمران خان اور نواز شریف میں دوستی کی مہک کہاں سے آئی مجھے حیرانگی ہے۔ اسی کو کہتے ہیں انھی پیوے کتی چٹے۔
کہتے ہیں رپٹ لکھوا دی رقیبوں نے جا جا کے تھانے میں کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
بھائی جان ہم نے بڑی مشکل سے جیتی ہوئی سیٹیں صرف اس وجہ سے استعمال میں نہیں لائیں کہ ہم ٢٠١٣ کے انتحابات کو سرے سے شفاف مانتے ہی نہیں ہم پنجاب سندھ اور بلوچستان اور قومی اسمبلی سے باہر بیٹھیں ہیں۔رات اگر عابد شیر علی کی باتیں سنتے تو انہیں علم ہو جاتا کہ کے پی ایم ایل این کے پیٹ میں کس قدر مروڑ اٹھ رہا ہے۔انہیں بہت خوشی ہو رہی تھی کہ عمران خان اپنے ان اراکین پر برس رہے تھے جن کا پارلیمانی منڈی میں بڑا ریٹ لگا اور ان میں کچھ کا من بھی للچایا۔عمران اگر انہیں تنبیہ نہ کرتے تو ہو سکتا تھا بکروں گدھوں اور گھوڑوں کے خریدار اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتے۔عمران خان کا چیخنا چلانا بلکل جائز تھا انہوں نے بڑی مشکل سے تنکا تنکا چن کر یہ گھر بنایا تھا اور وہ اسے اپنی آنکھوں کے سامنے اجڑتا نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ندیم افضل چن کی پارٹی کے اراکین کی تعداد تعدا سات تھی اور انہیں ٢١ امیدواروں کے ووٹ پڑ گئے جن میں چودھری شجاعت کی ق لیگی امیدواروں کی بڑی تعداد شامل تھی۔انہیں اگر سیاست کی الف ب بھی آتی تو وہ کبھی چودھری برادران کا شکریہ ادا نہ کرتے وہ ایک ہی سانس میں جئے بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو کو خراج تحسین پیش کر گئے مجھے پورا یقین ہے کہ منڈی بہاء الدین کے افضل چن کو علم ہو گا یہ وہی چودھری برادران ہیں جن کا نام بے نظیر کی جانب سے اندراج کی گئی میل میں تھا جن میں ان کے ممکنہ قتل کی ذمہ داری چودھریوں پر ڈالی گئی تھی۔جس ذوالفقار علی بھٹو کے نعرے وہ لگا رہے تھے چودھری برادران کے والد صاحب نے جس قلم سے سزائے موت لکھی گئی اسے جسٹس مولوی مشتاق سے لے لیا تھا بعض میں انہیں لاہور کی سڑک پر بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا۔
ان لوگوں کی یہ سیاست بھی کیابے ضمیری کا کھیل ہے خاص طور پر ان لوگوں کے لئے جنہیں صرف اقتتدار ہی عزیز ہے ۔خود آصف علی زرداری دور میں چودھری پرویز الہی ڈپٹی وزیر اعظم بنے۔ان کی کیا بات کریں میاں نواز شریف کے والد مرحوم کو ان کی کرسی سے اٹھا کر گرفتار کرنے والے رحمن ملک کے گھر میاں صاحب چل کر چلے گئے۔کہتے ہیں سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی مگر دنیاوی اخلاقیات بھی کوئی چیز ہے جو نہ تو میاں نواز شریف کے والد مرحوم کی گرفتاری پر نظر آئیں نہ ہی خواجہ سعد رفیق کے قتل میں ملوث پیپلز پارٹی سے میثاق جمہوریت کرتے دیکھنے میں نظر آتی ہیں۔چودھری پرویز الہی جنرل مشرف کو بار بار وردی میں صدر دیکھنا چاہتے تھے اور پھر جب بے نظیر کو سڑک پر مار دیا جاتا ہے اور اس کا الزام بھی انہی پر آتا ہے تو ندیم افضل چن کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے جو ق لیگ کے مشکور نظر آتے ہیں۔انہیں ٢١ ووٹ زیادہ مل گئے مشاہد اللہ خان کی یہ بات تو درست ہو کہ کہ ان کے سارے ممبر سینیٹ میں پہنچ گئے ۔اور کراچی سے مشاہد اللہ سلیم ضیاء کے ساتھ نہال ہاشمی بھی وارد سینیٹ ہوئے ہیں۔اس میں تو کوئی شک نہیں کہ کراچی کے لوگ پنجاب سے اسمبلی میں پہنچے تو بین الصوبائی بھائی چارے کی فضاء نظر آتی ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ کہ کراچی سے جو پروڈکٹ سینیٹ میں پہنچی ہے اس کا معیار کراچی کے مزاج سے مطابقت رکھتا ہے؟اہلیان کراچی اپنی شائستگی کی وجہ سے معروف ہیں اگر نہال ہاشمی مشاہد اللہ خان کو ہی لانا تھا تو اس طرح کے خوش گفتار نون لیگ کومقامی طور پر ہی مل سکتے تھے۔ ندیم افضل چن اس پر ہی بھنگڑے ڈالیں کہ انہیں ان کی بساط سے زیادہ ووٹ مل گئے ہیں رات کو تو چودھری سرور کے ممنون دکھائی دیتے تھے انہیں شاید یہ غلط فہمی تھی کے پی ٹی آئی اپنے لوگوں کو کہے گی کہ جائو اور جا کر اس عظیم شخص کو ووٹ دے کر آ جائو۔پی ٹی آئی بھولی ضرور ہے مگر اتنی بھی بھولی نہیں کہ کہ ندیم افضل جیسے شخص کو ووٹ دینے اسمبلی پہنچ جائے گی۔سینیٹ کے انتحابات میں جو کچھ ہوا وہ دھند صاف ہونے کے بعد واضح ہو جائے گا۔
سینیٹ کے ووٹوں میں جہاں ایک دلہن ووٹ ڈالنے آئی وہیں ایک سدا بہار کنوارے نے بائیکاٹ بھی کیا،شرمیلا تو نہیں البتہ شیخ رشید شرما گئے۔فہمیدہ مرزا جمشید دستی نے بھی ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔البتہ نیٹ پر ایک غریب کے اوپر ظلم و ستم ڈھاتی عورت نون لیگ کے ٹکٹ پر سینیٹ میں پہنچ گئی ہیں۔یہ محترمہ اور جناب ظفر اقبال جھگڑا نہ تو اسلام آباد کے رہائشی اور نہ ہی ان کا ووٹ انتحابات کی انئونسمنٹ سے پہلے کا رجسٹرڈ ہے۔ایک بار نیئر بخاری جو موجودہ سینیٹ کے چیئرمین ہیں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان کے لوگوں نے اسلام آبادہ کو شاملات دیہ بنا رکھا ہے میں موصوف سے ان منتحب اراکین کے بارے میں پوچھنا چاہوں گا۔شب کی سنگین سیاہی کو مبارک کہہ دو۔عمران خان کو ان انتحابات میں نے دھرنے کی طرح سبق سکھا دیا ہو گا انہیں علم ہو گیا ہو گا کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتحابات میں کہیں نہ کہیں غلطی ضرور ہوئی ہے۔یہ ہمیں بھی معلوم ہے کہ پی ٹی آئی کے اصل چہرے بعض جگہوں پر ٹکٹ حاصل کرنے سے محروم ہو گئے۔لیکن کیا ہوا انہی انتحابات نے بہت سے اچھے نوجوان اسمبلی میں بھیج دیے ہیں۔ندیم افضل چن صاحب آپ پیپلز پارٹی کے مردہ گھوڑے میں جان نہیں ڈال سکتے اس لئے کہ بہت سے لوگوں کا کہناہے کہ بے نظیر کے قاتلوں کا ٹولہ پارٹی پر قابض ہو گیا ہے۔کدھر ہے بی بی کی دست راست ناہید خان اور کہاں ہیں پہنچ چکے ہیں بی بی کے قاتل۔یاد رکھئے خون چھپائے نہیں چھپتا میثاق جمہوریت کے کمبل تلے صرف بی بی کا خون ہی نہیں اس کے تلے خواجہ رفیق کا خون بھی شامل ہے۔اس میں خود بھٹو کی پھانسی کا عمل بھی دفن ہے۔آپ ایک دوسرے کو ملاں اور قاضی کہتے رہئے عمران خان کو بخشیں ۔مجھے یہاں عمران خان سے بھی کہنا ہے کہ کہ وہ ان لوگوں سے سے بچیں جو انہیں بار بار اسی جانب موڑنے کی کوشش کر رہے ہیں جو آپ نے ١٢٦ دنوں کے دھرنے میں ثابت کیا تھا کہ یہ غلط ہے۔آپ نے ہمیں زرداری اور نواز شریف کی کرپشن مولانا ڈیزل کی کہہ مکرنیوں اسفند یار ولی اور اچکزئی کی چالاکیوں سے آگاہ کیا تھا۔خدا را اگر جنت بھی انہی لوگوں کے ذریعے ملتی ہے تو نہیں چاہئے۔ مانگے کی جنت سے دوزخ کا عذاب کہیں بہتر ہے۔کبھی جیو سے دوستی کبھی جوڈیشنل کمیشن کے مطالبے سے دست برداری پی ٹی آئی کی دلیری بہادری کے لئے ایک چیلینج ہے۔عمران خان مایوس لوگوں کی آخری امیدہے جو جنگ انہوں نے ڈی چوک میں جیتی ہے اسے بنی گالہ کے کسی بند کمرے میں ہارنے نہ دیں۔ رہی بات پیپلز پارٹی کے یہ لوگ کھمبا نوچنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر رہے۔ کھسیانی بلی ڈی چوک کے جذبوں کو بنی گالہ میں شکست نہیں دے سکتی۔
تحریر: انجینئر افتخار چودھری