تحریر: نعیم الرحمان شائق
کسی پس ماندہ علاقے سے مثبت خبر آئے تو اس کی ضرور تشہیر کرنی چاہیے ۔ غریب کی بستی میں روٹی تقسیم ہورہی ہو تو خوب ڈھنڈورا پیٹنا چاہیے ۔ جہاں سے ہر وقت منفیت کی گونج سنائی دے ، اگر وہاں سے اثبات کی تھوڑی سی مہک بھی محسوس ہو ، اسی وقت سارے عالم کو بتا دینا چاہیے ۔ تاکہ ان لوگوں کی حوصلہ افزائی ہو ، جو یہ کار ہائے خیر سر انجام دے رہے ہوں۔ ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ کسی مثبت خبر کو موضوع سخن بناؤں ، لیکن یہ کوشش ہمیشہ نہیں تو اکثر اکارت جاتی ہے ۔ اب تو ہمارے لوگ بھی ایسے موضوعات پسند کرنے لگے ہیں ، جن میں مہنگائی کا رونا ہو ، غربت کی دہائی ہو ، لاشوں کے سانحے ہوں ، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کا مصالحہ ہو یا ان موضوعات سے ملتا جلتا کوئی موضوع ہو۔
لیاری کو کون نہیں جانتا ؟َ کون اس خطہ ِ بے اماں سے نا واقف ہے؟ آپ لیاری کے لوگوں کو جاہل ، گنوار ، اور ان پڑھ کہہ لیں ، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ علاقہ کھیلوں کے حوالے سے ہمیشہ ذرخیز رہا ہے ۔ اس کے علاوہ اس امر کا بھی اعتراف کرنا پڑے گا کہ یہاں کے پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے لوگوں کے دلوں میں اس غریب بستی کے غریب لوگوں کا درد ہے ۔ یہ لوگ اکثر و بیشتر اپنی مدد آپ کے تحت لیاری کے نوجوانوں اور خصوصاََ طالب علموں کو منفی سرگرمیوں سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی یہ کوششیں نیک نیتی پر مبنی ہوتی ہیں ۔ کیوں کہ یہ لوگ نہیں چاہتے ان کے نوجوان اور آنے والی نسل منفی سرگرمیوں میں ملوث ہو کر خود سے بھی بے گانہ ہوجائے۔ بلا شبہہ یہ لوگ عزت و احترام کے قابل ہیں ۔ کیوں کہ یہ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ہی یہ کارہائے خیر سر انجام دے رہے ہیں۔
جیسا کہ پہلے کہہ چکا ہوں کہ لیاری کا علاقہ کھیلوں کے حوالے سے ہمیشہ ذرخیز رہا ہے۔ لیاری کے پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے لوگ اس حقیقت کا اادراک کر چکے ہیں کہ کھیل ایک ایسی مثبت سرگرمی ہے ، جس کے ذریعے ہر قسم کی منفی سرگرمیوں کو مات دی جا سکتی ہے۔ جب لیاری کے لوگ کھیلوں کی طرف راغب ہوں گے تو خود بہ خود ان منفی سرگر میوں کو چھوڑ دیں گے ، جنھوں نے ان کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے ۔ ویسے تو یہاں ہمہ اقسام کی کھیلیں رائج ہیں ، لیکن فٹ بال کا ذوق اور شوق بہت زیادہ ہے ۔ جب فٹبال کا انٹر نیشنل ایونٹ سجتا ہے تو لیاری میں بڑی بڑی اسکرینیں سجتی ہیں ۔ بچے ، بوڑھے ، جوان ۔۔ سب ہی فٹ بال کے یہ میچ ذوق و شوق سے دیکھتے ہیں۔
لیاری کی نئی پود کو فٹ بال کی طرف راغب کرنے کے لیے ڈسٹرکٹ فٹ بال ایسوسی ایشن (ساؤتھ ) اچھے اقدامات اٹھا رہی ہے ۔ وجہ وہی ہے کہ نئی نسل منفی سر گرمیوں سے بچے ۔ ڈی ایف اے ساؤتھ کے چئیر مین جمیل احمد ہوت صاحب نے بتایا کہ ناصر کریم بلوچ صاحب (ڈی ایف اے ساؤتھ کے سر پرست ِ اعلیٰ ) کی قیادت میں ڈی ایف اے ساؤتھ لیاری کے نوجوانوں کو فٹ با ل کی طرف راغب کرنے کے لیے مثبت اقدامات اٹھا نے کی کوشش کر رہی ہے ۔ ان کی وساطت سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ڈی ایف اے ساؤتھ پچھلے سال پانچ بڑے ایونٹس کرا چکی ہے۔ ان ایونٹس کے انعقاد کی وجہ سے لیاری کے نوجوان بڑ ی تیزی سے فٹ بال کی طرف مائل ہور ہے ہیں ۔ بلا شبہہ ڈی ایف اے ساؤتھ کی یہ مثبت پیش رفت لیاری کے نو جوانوں کا مستقبل روشن کرنے میں اہم کر دار ادا کرے گی۔
ڈی ایف اے ساؤتھ کے چیئرمین نے یہ بھی بتایا کہ لیاری کے تمام کھیلوں کے میدان آباد کر دیے گئے ہیں۔ لیاروں میں کھیلوں کے میدانوں کی شدید قلت ہے ۔ حکام ِ بالا کو چاہیے کہ اس طرف توجہ دیں ، تاکہ بچے گلیوں میں کھیلنے کی بہ جائے میدانوں میں کھیلیں ۔ لیاری کے بچےگلیوں میں کھیلنے پر مجبور ہیں ۔ جب کہ وہاں کھیلنا خطرے سے خالی نہیں ہے ۔ اس سے حادثات بھی ہو سکتے ہیں ۔ جمیل احمد ہوت صاحب نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ ڈی ایف اے ساؤتھ عنقریب انڈر 12 اسٹریٹ فٹ بال ٹورنا منٹ کا انعقاد کرے گی۔
تاکہ چھوٹے بچے بھی اس طرف مائل ہوں ۔ ڈی ایف اے ساؤتھ کا یہ اقدام بھی موثر ثابت ہوگا ۔ اس طرح نو جوانوں کے ساتھ ساتھ بچوں میں بھی کھیل کا شوق پیدا ہوگا۔ چیئر مین صاحب نے یہ بھی بتا یا کہ ڈی ایف اے ساؤتھ نے ایک وعدہ کیا تھا ۔ وہ وعدہ یہ تھا کہ ٹرانسفر فارم کی کوئی فیس نہیں لی جائے گی ۔ یہ وعدہ پورا کیا گیا۔اس عمل کے اچھے اثرات مرتب ہوئے ۔ اب تک سات سو فارم بھرے جا چکے ہیں ۔ جس سے ذوق و شوق کا بہ خوبی انداہ ہوتا ہے۔
لیاری کا علاقہ ہمیشہ سے پس ماندہ رہا ہے ۔ اکثر و بیشتر یہ خطہ حکام بالا کی ترجیحات سے کوسوں دور رہا ہے ۔ جب یہاں کے سلجھے ہوئے لوگوں نے محسوس کیا کہ کوئی نہیں ہے ، جو ان کا پرسان ِ حال ہو تو انھوں نے اپنی مدد آپ کے تحت آگے بڑھنے کی کوشش کی ۔ یہ کوشش اس وقت بھی جاری و ساری ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ ڈی ایف اے ساؤتھ بھی انھی کوششوں کا ایک حصہ ہے۔ یہ بھی اپنی مدد آپ کے تحت چل رہی ہے ۔ ڈی ایف اے ساؤتھ کے چیئر مین صاحب کے بہ قول ان کے ساتھ حکام ِ بالا کی طرف سے کوئی مالی تعاون نہیں کیا جا رہا ۔ بلکہ لیاری کے تما م فٹ بال کلبز اپنی مدد آپ کے تحت چل رہے ہیں ۔ کاش! یہ خطہ ِ بے اماں حکام ِ بالا کی توجہ اپنی طرف کھینچ لے !!۔
تحریر: نعیم الرحمان شائق
ای میل:
shaaiq89@gmail.com
فیس بک :
fb.com/naeemurrehmaan.shaaiq