تحریر: علی ملک
جوڈیشل کمیشن پر بہت سے چاہنے والوں نے اصرار کیا کہ کچھ لکھوں مگر پھر سوچا یہ بمشکل ڈیڑھ درجن چاہنے والوں کے لیے کیا صفحے کالے کرنا۔ بہرحال عوام کی ‘پرزور فرمائیش ‘ پر میری رائے جوڈیشل کمیشن کے بارے میں وہی ہے جو ایان علی ، ماڈل ٹائون قتل عام یا ایسے باقی کیسز میں ہونی چاہیے ، مجھ جیسے لاکھوں کو یقین تھا کہ فیصلہ کبھی حکومت کے خلاف نہیں آئے گا مگر اس بات کا کم از کم مجھے بلکل اندازہ نہیں تھا کہ یہ معاملہ اس حد تک شدت اختیار کر جائے گا کہ پی ٹی آئی کو ہاتھ جوڑ کر اسمبلی لانے والے انہیں ڈی سیٹ کرنے کی بات کریں گے ۔
اصل میں تو پی ٹی آئی اپنا کیس سولہ دسمبر کو ہی ہار گئی تھی ، پشاور سکول حملے میں جو بھی قوتیں شامل تھیں انکے بہت سے مقاصد میں سے ایک مقصد ایک سو چھبیس دن سے جاری دھرنا ختم کرنا بھی تھا ۔ آخر جو طاقتیں میاں صاحب کو اقتدار میں لائی ہیں وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ میاں صاحب گھر جائیں۔ میاں صاحب جیسا فرمانبردار ، کند ذہن اور تابعدار ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا اور آخر اس تابعداری کے بدلے بیچارے میاں صاحب صرف کچھ نقدی ہی تو چاہتے ہیں، تو اس میں حرج ہی کیا ہے؟
جوڈیشل کمیشن کے فیصلے سے ایک بات تو دوبارہ ثابت ہو گئی کہ میاں صاحب کے ہوتے کبھی بھی اس ملک کے ادارے آزاد نہیں ہو سکتے اور نا ہی کبھی غیر جانبدار فیصلے کر سکتے ہیں۔ ‘ہم وکیل نہیں جج کرتے ہیں’ اب یہ جملہ بلکل بے معنی سا ہو گیا ہے ۔ اصل میں میاں صاحب اپنے ہر دور کی طرح اس بار بھی ترقی کر چکے ہیں اور اب یہ وکیل جج کی خرید و فروخت سے آگے جا چکے ہیں، میاں صاحب اب پورا ادارہ کرتے ہیں۔ اس ملک بلخصوص پنجاب کا کوئی بھی ادارہ آپکو کرپشن سے پاک تو بہت دور کی بات ایمانداری کی ٥ فیصد شرح پر بھی نظر نہیں آئے گا۔
جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ اصل میں میاں صاحب کی شکست ہے، میاں صاحب کبھی اس ملک کے اداروں کو ٹھیک کرنے کے اہل تھے ہی نہیں، اور اگر خدانخواستہ کوئی ایماندار افسر انکی سلطنت میں آ جائے تو اسکے ساتھ وہی ہوتا ہے جو حالیہ ایچی سن کے پرنسپل کے ساتھ ہوا۔ بے ایمانی تو میاں صاحب کے ناخنوں کے اندر تک بھر چکی ہے۔ یرغمال عدلیہ کے فیصلے اس بات کی دلیل ہیں کہ اس ملک میں انصاف صرف سڑکوں پر ہی مل سکتا ہے، یہ ادارے ہماری زندگیوں میں تو شائد کبھی انصاف نا دے سکیں۔۔۔۔۔۔
فراز صحن چمن میں بہار کا موسم
نہ فیض دیکھ سکے تھے نہ ہم ہی دیکھیں گے
جہاں تک بات رہی پی ٹی آئی کو ڈی سیٹ کرنے کی تو ایسا اگریسو (aggresive) فیصلہ تو میاں صاحب اگلے سو سال بھی نہیں کر سکتے ، در حقیقت فیصلہ کرنے کی ہمت اور جرات ان میں بچپن سے ہی نہیں ہے، اور یہی انکی مستقل مزاجی کی اعلی مثال ہے۔ میاں صاحب نے جس طرح اپنے درباری لفاظی جھاڑنے پہ لگائے ہوئے ہیں اور خود چار رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے، اصل میں یہی انکی سیاست ہے، منافقت ، فریب اور جھوٹ سے بھرپور۔
ادھر درباری بولتے رہیں گے اور ادھر میاں صاحب مصلحت کا ڈرامہ جا ری رکھیں گے۔ اگر پی ٹی آئی کو ڈی سیٹ کر کہ خیبر پختونخواہ میں نئی حکومت بنائی گئی تو اسکا اصل نقصان پی ایم ایل این کو ہی ہو گا اور پی ٹی آئی دوبارہ پہلے سے موثر حکمت عملی کے ساتھ سڑکوں پر ہو گی اور میاں صاحب کے پاس عمران خان کے خلاف کچھ بھی کہنے کو نا ہو گا۔ میں پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں کہ جو پی ٹی آئی کو لاہور میں ہروا سکتے ہیں انکے لئیے پشاور میں ہروانا کوئی مسئلہ نہیں تھا، یہ تمام اہتمام مکمل تیاری اور سوچ بچار کے ساتھ کیا گیا ہے، میاں صاحب کگو ضرور ہیں مگر اپنے مطلب کے پورے پکے ہیں۔ میری تو میاں صاحب سے التجاء ہے کہ ‘جانو ، ڈی سیٹ کرو نا!’
آخر میں میاں صاحب کے ساتھ تعزیت اور انتہائی افسوس ، آفٹر آل ملک اسحاق جیسے ہونہار انکے مرحوم روحانی والد محترم مولوی ضیاء الحق کی ہی تو پیداوار ہیں، جنہیں میاں صاحب نے بھرپور لگن اور محنت کے ساتھ پھلنے پھولنے دیا۔ اب ماڈل ٹائون جیسے بیسیوں نیک اور پرسنل کام کون کرے گا؟؟؟
علی ملک
Twitter: @alihasnainmalik