ہر جاندار میں کھانے پینے کا ایک موثر نظام ہوتا ہے اس فرق کے ساتھ کے انسان زبان کے ساتھ قوت اظہار بھی رکھتا ہےاور جانور کی زبان تو انسان کی زبان سے بڑی ہوتی ہے لیکن قوت اظہار سے محروم ہوتی ہے۔ میں نے جب بھی کسی جانور کو جگالی کرتے دیکھا ذہن میں دو سوال ضرور آئے ایک یہ کہ جانور بغیر اچھی طرح چبائے غذا گھاس وغیرہ کیوں کھا جاتا ہے اور پھر اس کچی پکی غذا کو جگالی کے ذریعے دوبارہ قابل ہضم کیوں بناتا ہے؟
اس حوالے سے دوسرا سوال جو ذہن میں آتا ہے وہ یہ کہ جانور پوری زندگی ایک ہی قسم کی بے مزہ سی خوراک گھاس کھاتا ہے اور اس بے ذائقہ خوراک کے خلاف احتجاج کیوں نہیں کرتا؟ پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ جانور کو یہ تمیز یا عقل نہیں ہوتی کہ خوراک کو ایک ہی بار اچھی طرح چبا کر کھانا چاہیے تاکہ جگالی کی ضرورت پیش نہ آئے۔
لیکن اگر جانور میں اتنی عقل ہوتی تو وہ جانور ہی کیوں کہلاتا؟ پوری طرح چبائے بغیر پیٹ میں اتاری جانے والی غذا گولیوں کی شکل میں معدے سے منہ میں آٹومیٹک طریقے سے آتی ہے اور جانور غذا کو دوبارہ چبا کر معدے میں پہنچاتا ہے تاکہ یہ غذا ہضم ہوجائے۔ دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ جانور کے سر میں اگرچہ انسان کے سر میں موجود بھیجے سے بہت بڑا بھیجا ہوتا ہے لیکن وہ سوچنے سمجھنے اور کسی ناروا مسئلے پر احتجاج کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ مالک جو خوراک سامنے رکھتا ہے جانور کھا لیتا ہے چونکہ اس میں حس ذائقہ نہیں ہوتی لہٰذا وہ ساری زندگی ایک ہی قسم کی خوراک عموماً گھاس کھا کر گزار دیتا ہے۔
ہمارے معروف وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ ہم کو گھاس کھانا پڑے تو کھائیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ ہوسکتا ہے ملکوں کے درمیان دشمنیوں کے پس منظر میں بھٹو کی یہ بات درست ہو لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ نکلتا ہے کہ اگر ہم کو جانور بننا پڑے تو جانور بن جائیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ دشمنیاں انسان کو جانور بنا دیتی ہیں۔
جب سے کرہ ارض پر جانور موجود ہیں وہ گھاس کھا رہے ہیں اور اس بے مزہ خوراک کے خلاف احتجاج اس لیے نہیں کرتے کہ ان کے ذہنوں میں نہ احتجاج کی صلاحیت ہے نہ زبانوں میں ذائقہ محسوس کرنے کی صلاحیت۔ لیکن جانور کے مقابلے میں انسان کے ذہن میں ناروا بات پر احتجاج کرنے کی صلاحیت بھی موجود ہے اور زبان میں ذائقہ محسوس کرنے کی صلاحیت بھی ہے۔ پھر وہ زندگی بھر دال روٹی، پیاز روٹی، چائے روٹی کھاتا رہتا ہے اور زبان پر حرف شکایت نہیں لاتا۔ بلکہ خدا کا شکر ادا کرتا ہے کہ اس نے دال روٹی ہی سہی پیٹ بھرنے کو غذا تو دی ہے۔
مجھے کبھی کبھی اشرافیائی جانداروں کے ساتھ ناشتہ کرنے کا موقعہ ملا ان کے ڈائننگ ٹیبلوں پر انڈا، مکھن، جام جیلی، فروٹ سمیت بے شمار ذائقے دار نعمتیں سجی رہتی ہیں اور یہ طبقہ پھر بھی ورائٹی چاہتا ہے۔ اس کے ناشتے میں بے شمار ذائقے موجود ہوتے ہیں لنچ میں ان کی ورائٹی بدل جاتی ہے اور ڈنر میں بھی نئی نئی پرلذت اشیا شامل ہوتی ہیں۔
خدائے بزرگ و برتر نے فرمایا ہے ’’ہم نے تمہارے لیے بے شمار نعمتیں اتاری ہیں تم ان نعتوں کو کھاؤ اور خدا کا شکر ادا کرو۔‘‘ خدا نے یہ نعمتیں سارے انسانوں کے لیے اتاری ہیں صرف اشرافیہ کے لیے نہیں اتاریں۔ کیونکہ وہ اپنے آپ کو رب العالمین کہتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمام پرلذت غذاؤں پر بلا امتیاز طبقات سب انسانوں کا حق ہے۔ لیکن صدیوں سے بلکہ ہزاروں سال سے ہو یہ رہا ہے کہ ملک کی نوے فیصد آبادی کی غذا دال روٹی، پیاز روٹی، چائے روٹی ہی بنی ہوئی ہے چونکہ وہ ایک ہی بار اپنی غذا کو اچھی طرح چبا کر کھاتا ہے جس کی وجہ غذا معدے سے گولیوں کی شکل میں منہ سے دوبارہ واپس آتی ہے نہ اسے جگالی کا موقعہ ملتا ہے۔ 90 فیصد آبادی جو مل گیا کھا لیتی ہے اور خدا کا شکر بجا لاتی ہے۔
اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ 90 فیصد آبادی اگرچہ منہ میں زبان رکھتی ہے لیکن بے ذائقہ دال روٹی، پیاز روٹی، چائے روٹی پر زبان پر نہ صرف شکایت لاتی ہے نہ احتجاج کرتی ہے۔ اس کی اگرچہ بہت ساری وجوہات ہیں لیکن سب سے بڑی وجوہات یہ ہیں کہ وہ اس ظلم کو قسمت کا لکھا اور خدا کی مرضی سمجھتی ہے اور بدقسمتی سے غریبوں کو یہ باتیں مسجدوں، مندروں، گرجاؤں، پگوڈوں وغیرہ میں وہ غریب سمجھاتے ہیں جنھیں ہم مولوی، مولانا، پنڈت، پجاری، پوپ، پادری کے ناموں سے جانتے ہیں۔
خدائے بزرگ و برتر نے جن نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ ان تمام نعمتوں کو تیار کرنے والا وہی غریب ہوتا ہے جو دال روٹی پر گزارا کرتا ہے۔ ان نعمتوں کے حصول کے لیے پیسہ چاہیے اور ہمارے معاشی نظام کا یہ ظلم ہے کہ ان نعمتوں کو پیدا کرنے والے ان نعمتوں سے محروم ہیں اور ہاتھ پیر ہلائے بغیر اربوں کی دولت پر قبضہ جمانے والے حرام خور ان نعمتوں کے مالک بن بیٹھے ہیں۔ احتساب کے نام پر آج کل ہمارے ملک میں جو ڈرامے ہو رہے ہیں وہ اسی جابرانہ نظام کا ایک حصہ ہیں۔
اس حوالے سے ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کی زندگی کے اس پہلو کو مسجدوں امام بارگاہوں میں اجاگر نہیں کیا جاتا کہ پیغمبر اسلام کی ساری زندگی فقر و فاقے میں گزری ہے حالانکہ وہ چاہتے تو دنیا کی ساری نعمتیں ان کے قدموں میں رہ سکتی تھیں لیکن انھوں نے حکمرانوں کے لیے اور امرا کے لیے اپنی زندگی کو ایک مثال بناکر پیش کیا۔
ہماری دنیا میں ہزاروں سال سے جو اقتصادی ناانصافی جاری ہے وہ انسانوں کی دو حصوں یعنی غریب اور امیر میں تقسیم کا نتیجہ ہے۔ اور یہ تقسیم انسان نے کی ہے خدا نے نہیں کی۔ جب سے سرمایہ دارانہ نظام دنیا کے سر پر مسلط ہوا ہے اس وقت سے طبقاتی استحصال میں اس قدر اضافہ ہوگیا ہے کہ اس کو جانوروں کی طرح سر جھکا کر تسلیم کرلینا انسانیت کی توہین ہے۔
اس نظام میں ہر نعمت دولت کے عوض حاصل ہوتی ہے اور دولت کی تقسیم کا عالم یہ ہے کہ دن بھر خون پسینہ ایک کرنے والے 90 فیصد انسانوں کو اپنی محنت کا اتنا معاوضہ بھی نہیں ملتا کہ وہ دو وقت کی روٹی حاصل کرسکیں اور ہاتھ پیر ہلائے بغیر دولت کے انباروں پر قابض اشرافیہ کا عالم یہ ہے کہ وہ اربوں کھربوں کی دولت کے مالک بنے ہوئے ہیں۔ اس تضاد بلکہ بے نتیجہ تضاد کو آج ہم میڈیا کی سرخیوں میں دیکھ رہے ہیں۔
عوام کے خون سے سرخ چہرے میڈیا میں آپ بھی دیکھ رہے ہیں ہم بھی دیکھ رہے ہیں اور ان چہروں پر بے شرمانہ مسکراہٹ آپ بھی دیکھ رہے ہیں اور ہم بھی دیکھ رہے ہیں۔ اور یہ سب کچھ اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک 90 فیصد غریب جانوروں کی طرح ظلم اور احتجاج سے نابلد رہیں گے۔ اس ظالمانہ نظام کو بدلنے کے لیے ایک فکری انقلاب کی ضرورت ہے۔
دنیا میں لاکھوں اہل علم ہیں اہل دانش ہیں اہل قلم ہیں اہل فکر ہیں۔ کیا وہ دال روٹی، پیاز روٹی، چائے روٹی اور انڈے، مکھن، جام جیلی، تکہ بوٹی، ملائی بوٹی، پیزا اور پلاؤ بریانی کے فرق سے عوام کو واقف کرا رہے ہیں۔ کیا انھیں بتا رہے ہیں کہ تمہارے ناشتے میں بھی مکھن، انڈے، جام جیلی، ڈبل روٹی، شہد تمہارے لنچ میں بھی چکن تکہ، بھوپالی کباب، تمہارے ڈنر میں بھی قورمہ بریانی، گولہ کباب، آئسکریم ہونا چاہیے۔ کیونکہ خدا نے یہ ساری نعمتیں تمام انسانوں کے لیے اتاری ہیں کسی مخصوص طبقے کے لیے نہیں۔