اسلام آباد (ویب ڈیسک) نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے سینئرصحافی عارف نظامی نے کہا کہ میں شیخ رشید کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف ڈپریشن کا شکار ہیں۔ نواز شریف کافی عرصہ سے خاموش تھے لیکن ایک بات قابل غور ہے کہ گذشتہ روز انہوں نے احتساب عدالت کے باہر ،
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سیاسی بیان دیا۔اس سے قبل انہوں نے رہائی کے بعد سے اب تک کوئی بیان نہیں دیا تھا۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کون سا این آر او، کیسا این آر او، آہ کی جرأت ہے تو آپ بتائیں کہ کس نے این آر او مانگا ہے۔ عارف نظامی نے کہا کہ نواز شریف نے اتنا عرصہ خاموش رہنے کی وجہ بھی بیان کی اور کہا کہ وہ پابند سلاسل تھے جب ان کی اہلیہ کا انتقال ہوا۔اسی وجہ سے وہ ابھی بھی ڈپریشن کا شکار رہتے ہیں۔لیکن کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ نواز شریف کو آگے حالات اچھے نظر نہیں آرہے اسی لیے وہ ڈپریشن کا شکار ہیں۔ لیکن نواز شریف کا کہنا ہے کہ وہ اپنی اہلیہ کے دُکھ سے تاحال باہر نہیں آسکے۔ یاد رہے کہ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نواز شریف نے اڈیالہ جیل سے نکلنے کے بعد کوئی جارحانہ حکمت عملی اپنائی نہ ہی اپنا چُپ کا روزہ توڑا جس پر سیاسی حلقوں میں ڈیل کے حوالے سے چہ مگوئیاں ہونے لگیں، نواز شریف اور مریم نواز کی پاکستان واپسی پر بھی مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے احتجاجی ریلی کی کال دی تھی لیکن تب بھی لیگی کارکنان نے پارٹی قائد کو خاصا مایوس کیا تھا۔
نواز شریف کو اچھی طرح اس بات کا ادراک ہے کہ ابھی احتجاجی سیاست کا وقت نہیں ہے، وہ جیل سے آنے کے بعد بھی جی ٹی روڈ جیسی ایک احتجاجی ریلی نکالنا چاہتے تھے لیکن موجودہ حالات کے پیش نظر انہوں نے یہ ارادہ ترک کر دیا تھا۔ کہا جا رہا تھا کہ اسی وجہ سے نواز شریف فی الوقت جارحانہ بیانات دینے سے بھی گریز کر رہے ہیں لیکن گذشتہ روز احتساب عدالت کےباہر میڈیا سے ان کی گفتگو سُن کر ایسا لگتا ہے کہ نواز شریف نے جارحانہ حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ عارف نطامی نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان موجودہ حکومت کو گرانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ 12،15 سال اقتدار میں رہے ہوں اور ایک دم سے وہ اپوزیشن میں آجائیں تو ان کے لیے اپوزیشن ایک ایسے صحرا کی طرح ہے جہاں پانی بھی نہیں ملتا۔وہ اپنے آپ کو تنہا محسوس کر رہے ہیں اسی لیے وہ جلدی میں ہیں کہ فوری طور ہر کسی طرح حکومت کو گرا دیا جائے۔ حکومت کو آئے ابھی اڑھائی ماہ ہوئے ہیں ، لیکن ایک اور چیز پر غور کریں کہ اگرچہ اس پر بہت بحث ہو سکتی ہے کہ اس حکومت نے اڑھائی ماہ میں کیا کیا۔
لیکن ایک بات ہے کہ موجودہ حکومت کا قلع مضبوط ہے۔ موجودہ حکومت کا عدلیہ اور فوج کے ساتھ مثالی تعلق ہے۔کوئی بھی ان کو فارغ نہیں کرنا چاہتا نیب بھی حکومت کے ساتھ ہے۔ خان صاحب خود بھی حکومت میں رہ کر کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت خان صاحب کی حکومت کو گرانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ حالات اتنے بگڑ جائیں کہ لوگ سڑکوں پر نکل آئیں اورپاکستان میں کوئی سانحہ ہو جائے ۔ اس کے باوجود کہ ملک مین مہنگائی کا ایک طوفان آ گیا ہے، لیکن ابھی چیزیں آؤٹ آف کنٹرول نہیں ہوئیں، اگر ملک کو آئی ایم ایف کا پیکج مل جائے تو ملک کے حالات مزید بہتر ہو جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ میری آئی ایم ایف کی کنٹری ہیڈ خاتون سے ملاقات ہوئی اور ان کی باتوں سے مجھے لگا کہ سب کچھ طے ہے اب جو کرنا ہے پاکستان کو کرنا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے اقتدار میں آتے ہی پارٹی کی سیاسی حریف جماعتوں کو اپنی سیاسی بقا کے لالے پڑ گئے تھے جس کے بعد سے اپوزیشن میں موجود جماعتوں میں حکومت کے خلاف منصوبہ بندی کا آغاز کردیا اور کوشش کی جا رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح حکومت کو گرا دیا جائے۔ لیکن سیاسی پنڈتوں کے مطابق ایسا کرنا مشکل ہے کیونکہ عمران خان کی حکومت کافی مضبوط حکومت ہے جس کے ریاستی اداروں اور فوج کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔