تحریر: محمد آصف اقبال
دہلی میں بڑی شکست کے بعد بی جے پی کے ساتھ آر ایس ایس میں بھی احتساب کا دور جاری ہے۔اس کی تازہ مثال موہن بھاگوت کے ذریعہ تین مرکزی وزرا کو بلا کر ان سے جواب طلبی کا واقعہ ہے۔ اس بات پر دہلی میں یونین دفتر کیشو گنج میں روی شنکر پرساد، اسمرتی ایرانی اور نرملا سیتارمن کو بلانا اور ان سے بی جے پی کی منفی مہم کو لے کر چبھتے ہوئے سوالات کا کیا جانا،واقعہ کی مزید توثیق کرتا ہے۔ سیتا رمن سے پوچھا گیا کہ انہوں نے کیجریوال کے خلاف”چور”لفظ کا استعمال کیوں کیا ؟اسمرتی ایرانی کے خلاف یونین سے وابستہ لوگوں نے شکایت کی تھی کہ انہوں نے یونین سے وابستہ کچھ لوگوں کے مشوروں پر توجہ نہیں دی۔وہیں بی جے پی کے کچھ کارکنوں نے وزراء کے اہنکار بھرے رویے کولے کر شکایت کی تھی اور کچھ نے کہا تھا کہ مہم کے دوران ان کی جگہ باہر سے آئے رہنمائوں اور ان کے کارکنوں کو ترجیح دی گئی ہے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ ان سوالات کی وجہ دراصل الیکشن میں پیچھے رہ جانے اور منظر عام پر آنے والی غلطیوں سے سبق لیتے ہوئے مستقبل میں اس کے اعادہ سے اجتناب ہے۔موہن بھاگوت نے دہلی بی جے پی کے بڑے لیڈر جگدیش مکھی سے بھی ملاقات کی ہے،ساتھ ہی یونین کے سربراہ نے دہلی میں تعینات یونین کے پرچارکوںسے بھی شکست پر رپورٹ طلب کی گئی ہے۔
ان رپورٹوں پر آئندہ ماہ ناگپور میں ہونے والی آر ایس ایس کی کل ہندایوان نمائندگان میں بحث ہوگی۔دہلی میں ہوئی جائزہ مٹنگ میں موہن بھاگوت کے علاوہ بھیاجی جوشی، دتاتریہ ہوسبولے، کرشن گوپال اور سریش سونی بھی شامل تھے۔خبر نے پہلے سے موجود بیانوںمیں مزید پختگی پیدا کی ہے کہ آر ایس ایس کے طے شدہ مقاصد، ایجنڈے،طریقہ کار،اور پالیسی کی روشنی ہی میں فی الوقت ملک عزیز ہند میں بی جے پی اپنی سرگرمیوں کو انجام دے رہی ہے۔لہذا بی جے پی کے لیڈران کی شکل جو لوگ بھی ملک کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے ہیں وہ ایک خاص مقصدو نصب العین کے حصول میں سرکرداں ہیں۔ جو درحقیقت ہندوستان کے تکثیری سماج کے لیے قابل قبول نہیں ہیں۔بات کی توثیق دہلی کے حالیہ اسمبلی الیکشن اور ان کے نتائج ہیں،جو خود اپنے آپ میں بہت کچھ بیان کرتے ہیں۔
ووسری جانب عام آدمی پارٹی ، اس کے والینٹرس اورذمہ داران کی انتھک جدوجہد نے آخر کار کامیابی ان کی جھولی میں ڈال دی ہے۔لیکن کامیابی صرف جدوجہد کا ہی کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ عام آدمی پارٹی کی پالیسی ، عوام سے کیے گئے وعدے اور کانگریس پارٹی میں لیڈر شپ کا زوال بھی اس تاریخی کامیابی کے اہم اجز اہیں۔یہ بات کسی حد تک 2013میں بھی دہلی کے عوام کے سامنے آچکی تھی کہ بی جے پی،جسے درحقیقت مخصوص گروہ کے علاوہ دیگرپسند نہیںکرتے،کا متبادل کانگریس کی شکل میں موجود ہے اس کے باوجود کانگریس میںوہ دم خم نہیںجو مطلوب ہے۔وہیں دوسری طرف2013میں اقلیتیں بھی عام آدمی پارٹی کے سلسلے میں تذبذب کا شکار تھیں۔برخلاف اس کے2013میں جس پارٹی نے 8سیٹیں حاصل کیں تھی وہ اس مرتبہ سیٹوں کے لحاظ سے بالکل ہی ختم ہو گئی ہے۔ووٹ شیئر 2013میں جو کانگریس کو 24.55%فیصد حاصل ہوا تھا 2015میں کم ہو کر صرف9.8%فیصد رہ گیا۔وہیں اگر دہلی کی آبادی پر نظر ڈالی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں81%فیصد ہندو، 11.7%فیصد مسلمان،5%فیصد سکھ ،1.1%فیصد جین اور 1.2%دیگر مذاہب کے لوگ بستے ہیں۔اور یہ 15%فیصد کا شفٹ جو کانگریس سے عام آدمی پارٹی کی جانب آیا ہے ،یہ وہی اقلیتوں کا فیصد ہے،جو گزشتہ مرتبہ عام آدمی پارٹی کو حاصل نہیں ہوپایا تھا۔نتیجتاً جہاں کانگریس کے کل 8امیدوارکامیاب ہوئے تھے ان 8میں سے 6اقلیتی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔وہیں 2014 میں 18.5%فیصد اقلیتی ووٹ ،پوری طرح عام آدمی پارٹی کے حق میں جانے سے ،نتائج ایگزٹ پولس کے اندازوں سے بھی آگے نکل گئے۔جس کی توقع گزشتہ کی طرح اس مرتبہ بھی عام آدمی پارٹی کے لیڈران کو نہیں تھی۔
اس نمایاں تبدیلی میں میں بی جے پی اور اس سے وابستہ تنظیموں کی جانب سے چلائی جانے والی نفرت آمیز مہم،جس میں مختلف قولی و عملی ریوں کے ساتھ 2021تک ملک کو ہندو راشٹر بنانے اور اقلیتی فرقے کے لوگوں کو ہندو مذہب میں ضم کرنے جیسے بیانات نے جلے پر نمک چھڑکنے کاکام کیا ہے۔وہیں ان زہر آلودہ بیانات اور عملی رویوں نے ملک کی راجدھانی دہلی میں رہنے بسنے والے ہر طبقہ کے سنجیدہ اور پڑھے لکھے افراد کو احساس دلایا کہ یہ بیانات اور عملی رویے نہ صرف دہلی بلکہ پورے ملک کے لیے نقصان دہ ہیں۔لہذا متبادل کی تلاش مزید تیز ہو گئی،اور متبادل جو انہیں ملااس کے حق میں اپنا قیمتی ووٹ دے ڈالا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ آنے والے دنوں میں جن اقلیتوں کے یکطرفہ ووٹ نے عام آدمی پارٹی کو تاریخی کامیابی سے ہمکنارکیا ہے،اُن کے مسائل میں وہ کتنی دلچپسی لیتی ہے اور کیاکردار ادا کرتی ہے؟کیونکہ بی جے پی جو گزشتہ 2013میں 34%فیصد ووٹ کے نتیجہ میں 31سیٹوں پر کامیاب ہوئی تھی وہی بی جے پی اس مرتبہ 33%فیصد ووٹ حاصل کرنے کے باوجود صرف3سیٹوں پر محدود ہو گئی ہے۔اس سے یہ بات بھی پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ جہاں امن پسند اور سنجیدہ طبقہ فرقہ پرست جماعتوں کے خلاف کھڑا ہوتا ہے وہیںنتائج کے اعتبار سے اقلیتی ووٹ سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جبکہ وہ یکطرفہ ہوں، نہ کے تقسیم شدہ،جس کی نظیریں بے شمار موجود ہیں۔
نئی حکومت بننے اور پرانی حکومت کے جانے کی وجوہات پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اہل دہلی گزشتہ ایک دہائی سے خصوصاً اور عموما بڑے عرصے سے کرپشن، لوٹ مار،زنا باالجبر، مہنگائی اور بنیادی سہولیات کی فراہمی جیسے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود عام آدمی پارٹی نے عام آدمی کو امید دلائی ہے کہ وہ نہ صرف نظم و نسق کو درست کریں گے بلکہ عوامی مسائل کے حل بھی تلاش کریں گے۔مسائل میں جہاں ایک جانب خستہ حال تعلیمی ادارے ،اسپتال،پانی ،بجلی اور سڑکیں ہیں وہیںخواتین اور بچوں کا ہر سطح پر استحصال بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔مزید یہ کہ روز مرہ کے معاملات میں کرپشن اہم ترین مسئلہ بنتاجارہا ہے۔ساتھ ہی تقریباً2,000غیر قانونی کالونیوں میں رہنے والے 60لاکھ بد حال افراد مختلف قسم کی پریشانیوں سے دوچار ہیں۔ان کالیونیوں میں پینے کے صاف پانی کا کوئی نظم نہیں ہے،سڑکیں ٹوٹی ہوئی یا موجود ہی نہیں ہیں،گندگی اورکوڑا کرکٹ چہار جانب پھیلا ہوا ہے،گھریلو اور بارش کے پانی کی نکاسی کے لیے بہتر انداز میں سیوریج اور نالیوں کا بندوبست نہیں ہے،تعلیم، اور صحت عامہ کے بے شمار مسائل ہیں،ان تمام لاچاریوں کے ساتھ عوام غربت اور بے روزگاری کا شکار ہے۔
صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت تشکیل دی جا چکی ہے لیکن جن امیدوں کے مینارے پر یہ حکومت قائم ہونے جا رہی ہے وہ ایسے ہی ہے جیسے لوہے کے چنے چبانے ۔ اس سب کے باوجود وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال ،ان کی کابینہ اور ٹیم سے جہاں عوام کو بہت ساری توقعات ہیں وہیں وہ پورے پانچ سال کا وقت بھی دینے کو تیار ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ یہ عام آدمی کی کہی جانے والی عام آدمی پارٹی کس حد تک پانچ سال میں اپنے وعدوں پر پوری اترتی ہے۔حالات چیلنج بھرے ہیں،اور حکومت میں آنے والے افراد بھی اپنی ذمہ داریوں کو بہ خوبی جانتے ہیں۔شایدیہی وجہ ہے کہ کیجریوال نے حلف برداری تقریب میں ذمہ داران دہلی کو اپنے دل کی بات پہنچا دی ہے۔وہ کیا باتیں ہیں؟آئیے ان پر بھی ایک نظر ڈالتے چلیں۔
حلف بردار تقریب میں اروند کیجروال نے اپنی پہلی تقریر میں بحیثیت وزیر اعلیٰ عوام و خواص سبھی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری کوشش ہوگی کہ ہم تمام مذاہب کے لوگوں کو چاہے وہ امیر ہوں یا غریب ساتھ لے کر چلیں گے۔لوک پال بل پاس کرائیں گے ساتھ ہی اس پر عمل درآمد کریں گے۔دہلی کو آئندہ پانچ سال میں کرپشن فری ریاست کا درجہ دیں گے۔ایک ایسی دلّی بنائیں گے جہاں ہندو -مسلم-سکھ-عیسائی اور جین،ہر مذہب کے لوگ خود کو محفوظ سمجھیں۔دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ دیں گے اور اس میں مرکزی حکومت جو مکمل اکثریت کے ساتھ پارلیمنٹ میں موجود ہے اس کا بھر پور تعاون حاصل کریں گے۔تاجروں کو تجارت کے مواقع فراہم کریں گے،شر ط یہ ہے کہ وہ حکومت کو دیے جانے والے ٹیکس میں چوری نہ کریں۔
اور آخری بات جو بہت اہم ہے وہ یہ کہ ہماری پارٹی کوچونکہ ہر مذہب کے لوگوں نے ووٹ دیا ہے،جس کے نتیجہ میں یہ تاریخی تبدیلی نظر آئی ہے، اس کے باوجود یہ جو کچھ بھی ہوا ہے وہ ہماری ،آپ کی اور لوگوں کی کوششوں سے نہیں ہوا ہے بلکہ اوپر والے کی منشا سے ہوا ہے، ہم تو صرف ذریعہ بنے ہیں۔لہذا ہم خدائی منشا کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے ،ریاست میں امن و امان اور بھائی چارے کی فضا عام کریں گے۔اور کوئی ایسا کام نہیں کریں گے جو خدائی منشا یا اس کے بندوں کے خلاف ہو۔اور یہ خلاف ورزیوں کا سلسلہ بھی اسی وقت شروع ہوتا ہے جبکہ انسان تکبر میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ہم ہر سطح پر تکبر کا خاتمہ کریں گے۔وزیر اعلیٰ کی باتیں ختم ہونے کے بعد مسلمان جو ہمارا قاری ہے جہاں اسے یہ غور و فکر کرنا ہے کہ اس خدائی تبدیلی میں اس کا کیا حصہ ہے ؟وہیں اسے یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ نئی حکومت کو صحیح رخ پر قائم رکھنے اور اس کے ساتھ مل کر امن و امان وعدل و انصاف کے قیام میں وہ کیا کردار اداکر سکتا ہے۔
محمد آصف اقبال
maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.com