لاہور: صوبائی دارالحکومت کے لاہور ہائی کورٹ میں ایک عملداری درخواست دائر کی گئی جس میں عدالتی استدعا کی گئی کہ وفاقی حکومت کو ہدایات جاری کی جائیں کہ وہ 1926 میں موئن جو دڑو کے آثار قدیمہ سے نکلنے والے ’ڈانسنگ گرل‘ کے نایاب مجسمے کو بھارت سے پاکستان واپس لائے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ مذکورہ مجسمہ لاہور میوزیم کی ملکیت ہے جسے 60 برس قبل نیشنل آرٹس کونسل کی درخواست پر دہلی لے جایا گیا تھا لیکن آج تک اسے واپس نہیں لایا گیا۔
اقبال جعفری کہتے ہیں کہ اس نایاب مجسمے کو وہی اہمیت حاصل ہے جو معروف مصور لیونارڈو ڈا ونچی کی شہرہ آفاق تخلیق مونا لیزا کو یورپ میں حاصل ہے۔
انہوں نے مذکورہ مجسمے کو پاکستان کے ثقافتی ورثے کی علامت قرار دیا اور کہا کہ اس کا تحفظ ہر صورت میں یقینی بنایا چاہیے۔
’ڈانسنگ گرل‘ کا مجسمہ 10.5 سینٹی میٹرل لمبا اور تقریباً 5 ہزار سال قدیم ہے اور دنیا کے بعض معروف ماہرین آثار قدیمہ اسے وادی مہران سے اب تک دریافت ہونے والا سب سے دلفریب فن کا نمونہ قرار دیتے ہیں۔
پاکستان نیشنل میوزیم آف آرٹس کے ڈائریکٹر جنرل جمال شاہ نے حالیہ دنوں اپنے بیان میں اس بات کا اشارہ دیا تھا کہ حکومت اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کو اس سلسلے میں خط لکھنے پر غور کررہی ہے تاکہ اس مجسمے کو واپس لایا جاسکے اور اگر ہم اپنے ثقافتی ورثے کا تحفظ چاہتے ہیں تو ایسا کرنا بہت ضروری ہے۔