تہران(ویب ڈیسک)ایرانی صدر حسن روحانی نےکہاہےکہ وہ جنگ سے گریز کرنا چاہتے ہیں،ان کا یہ بیان ایک سال سے بھی کم عرصے میں دوسری مرتبہ تہران اور واشنگٹن کے براہ راست فوجی محاذ آرائی کے دہانے پرپہنچنے کے بعدجمعے کو سامنے آیا۔غیرملکی خبررساں ادارے کےمطابق21فروری کو ہونےوالے پارلیمانی انتخابات سے قبل اور ایران کے
جوہری پروگرام پر تہران اور مغرب کے مابین شدید تناؤ کے دوران ایرانی صدر نے کہا کہ دنیا کے ساتھ بات چیت ابھی بھی ’’ممکن‘‘ ہے۔انہوں نے ٹیلی ویژن خطاب میں کہاکہ حکومت فوجی تصادم یا جنگ کو روکنے کے لئے روزانہ کی بنیاد پر کام کر رہی ہے۔ دوسری جانب ایک اور خبر کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کو الفاظ کے چناؤمیں محتاط رہنے کی تنبیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ امریکا اور یورپ کے بارے میں غلط باتوں سے پرہیز کریں۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ ایران کی معیشت تباہ ہو رہی ہے،وہاں لوگ مشکلات کا شکار ہیں۔
خامنہ ای نےتہران کی مسجد میں 8 سال بعد نمازِ جمعہ کی امامت کرائی ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای الفاظ کےچناؤ میں احتیاط کریں۔واضح رہے کہ گزشتہ روز 8 سال بعد پہلی مرتبہ نماز جمعہ کی امامت کرتے ہوئےایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے کہا تھا کہ ہم مذاکرات کیلئے تیار ہیں لیکن امریکا سے نہیں، ٹرمپ بہروپیا ہے ،سلیمانی کا قتل امریکی دہشت گردی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ عراق میں امریکی فوجیوں پر میزائل حملہ دنیا کی سپر پاور کے ’منہ پر طمانچہ تھا، یہ نہ صرف ایک کامیاب عسکری حملہ تھا بلکہ اس نے عالمی طاقت کا گھمنڈ توڑ دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے تیل کے ذخائر کو نشانہ بنانے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں ،مغربی ممالک کمزور ہیں ، ہمیں کبھی نہیں جھکاسکتے۔
سپریم لیڈر خامنہ ای کا کہنا تھا کہ ٹرمپ قوم کی پیٹھ پر زہریلا خنجر گھونپے گا، ہم پاسدارارن انقلاب کیساتھ کھڑے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ امریکا کی جانب سےقاسم سلیمانی کو مارنا اس کی ’دہشت گردانہ فطرت‘ کو ظاہر کرتا ہے، جنرل سلیمانی کے قتل نے امریکا کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کردیا ہے۔