اب اس بات کے یقینی ثبوت مل گئے ہیں کہ بھنگ طویل عرصے تک پینے سے دماغ میں تیار ہونے والے کیمیائی اجزاکا توازن بگڑ جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک تحقیقی مطالعے کے دوران ماہرین نے بڑی توجہ سے بھنگ سے متاثرہ دماغ کے ان آخذوں کا گہرا جائزہ لیا، جو دراصل نشے کے اثرات دماغ اور جسم پر مرتب کرتے ہیں ۔ ان آخذوں پر ماہرین نے سب سے زیادہ توجہ دی۔
ماہرین نے بھنگ زیادہ مقدار میں پینے والوں کے دماغ میں ہونے والی سالماتی (مالیکیولر) تبدیلیوں کا مقابلہ بھنگ نہ پینے والوں کے دماغ کی سالماتی تبدیلیوں سے کیا، جس سے یہ بات سامنے آئی کہ بھنگ کی وجہ سے متاثر دماغ آخذوں میں مسرت وانبساط ، بھوک میں کمی اور اضافے اور درد برداشت کرنے کی صلاحیت ہی نہیں بڑھتی، بلکہ اس سے جسم کے کئی نفسیاتی اور جسمانی عوامل بھی متاثرہوتے ہیں۔
اس مطالعے کے نگراں ڈاکٹر ہرونین کے مطابق انسانی معاشرے میں منشیات بہت اہم طبی، اقتصادی اور معاشرتی مسئلہ ہیں۔ بدقسمتی سے ہم ابھی تک اس اہم مسئلے کی پیچیدگیوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ یہ وہ اہم مطالعہ ہے، جس سے ہم بھنگ پینے والوں کے دماغ میں واقع ہونے والی غیر معمولی عصبی تبدیلیوں کو سمجھنے کے قابل ہوسکے ہیں۔
ڈاکٹر ہرونین کے مطابق اس مطالعے نے یقینا بھنگ کے نقصانات اور اس سے لاحق عوارض کے علاج کی راہیں ہموار کردی ہیں۔ اس مطالعے میں یہ بھی کھوج لگاکہ آخذوں کی کمی اور ان میں انحطاط کا سلسلہ بھنگ پینا ترک کردینے سے رک جاتا ہے۔
امریکا کے نشہ آور ادویہ کے قومی ادارے نے بھنگ کو درجہ اول کانشہ قراردیا ہے۔ اس میں پایاجانے والا نفسیاتی محرک جزو ڈیلٹا۔ 9 ٹیٹراہائڈ روکنیا بینول“ کہلاتا ہے۔ اسے مختصراََ ٹی ایچ سی “ بھی کہتے ہیں۔ یہ دماغ یا جسم میں اس سے متاثرہ آخذوں سے پیوست ہوکر زبردست نشے کی کیفیت پیداکردیتا ہے، جس سے کئی دماغی صلاحتیں اور عمل متاثر ہوتے ہیں، جن میں مسرت و انبساط کے علاوہ دماغ کی متوجہ ہونے کی صلاحیت میں اضافے کے علاوہ حسی کیفیات کی شرح بڑھ جاتی ہے۔ وقت کے ادراک اور نقل وحرکت میں توازن اور ہم آہنگی متاثر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بھنگ سے متاثرہ جسم کے آخذے ہحم کے نظام، قلب شریانوں اور تنفس سمیت جسم کے دیگر نظام کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ اب تک بھنگ سے متاثر ہونے والے دو آخذوں کا علم ہوسکا ہے۔ یہ دو آخذے ” سی بی ون “ اور سی بی ٹو “ کہلاتے ہیں۔ ان میں سے پہلے کا تعلق زیادہ ترمرکزی عصبی نظام سے اور دوسرے کاجسم کی قوت مدافعت اور دوران خون کے نظام کے ساقی خلیات سے ہے۔
اس مطالعے کے لیے بھنگ کے تیس پرانے نشہ بازوں کاانتخاب کرکے چار ہفتوں تک ان کاجائزہ لیاگیا ان کے جسم میں بھنگ کی وجہ سے واقع ہونے والی عضویاتی تبدیلیوں اور افعال کا کھوج لگایا گیا۔ اس سلسلے میں انھیں تاب کارفلورین آئسوٹوپ کے ٹیکے بھی لگائے گئے۔
ان مطالعوں سے ظاہر ہوا کہ بھنگ پینے والوں کے دماغ 20 فیصد سکڑ جاتے ہیں۔ دماغ کے سکڑنے کی رفتار کاتعلق بھنگ زیادہ اور کم پینے سے ہوتا ہے، کم پینے والوں کے دماغ کم سکڑتے ہیں، جب کہ زیادہ پینے والوں کے دماغ زیادہ سکڑتے ہیں۔ غرض کہ نشہ کسی بھی قسم کاہو، صحت کے لیے بہت نقصان دہ ہوتا ہے۔