جہاں کالے کو کالا کہنے میں کاروکاری کا امکان ہو، وہاں دم سادھ کر بیٹھنے کو ہی غنیمت جانا جاتا ہے۔ لیکن جمعرات کے بابرکت روز سینیٹ میں چھوٹے صوبوں والے سینیٹرز پھٹ پڑے اور ہر طرف ہا ہا کار مچ گئی۔ موضوع ہی کچھ اتنا دلخراش تھا کہ ضبط کے دامن نے چھوٹنا ہی تھا۔ معزز سینیٹرز کے سامنے معاملہ کوئٹہ اور مردان میں ہونے والے حالیہ سانحات کا تھا جن کی غمناکی ابھی بھی فضا کو اُداس کئے ہوئےہے۔اخبارات کی رپورٹ کے مطابق جو کچھ سینیٹرز نے کہا اُس کا انٹرو میں لبِ لباب یہ تھا: ’’ارکانِ سینیٹ نے نہایت جذباتی انداز میں شہدا کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم کب تک مذمتی بیانات دیتے رہیں گے۔ ذمہ داروں کے بارے میں کون بتائے گا۔ کالعدم تنظیموں اور ریاستی اداروں کا گٹھ جوڑ کب ختم ہوگا۔ دہشت گردی، کرپشن گٹھ جوڑہوگا، مگر ثبوت نہیں ملا۔ مگر جنگجو تنظیموں کے ریاستی اداروں سے تعلقات کے ثبوت آ چکے ہیں۔ بتایا جائے مدرسوں اور ریاستی دفاتر سے کتنے دہشت گرد پکڑے گئے۔ ’را‘ (RAW) پر ذمہ داری ڈال کر بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ’را‘ ملوث ہے تو عالمی سطح پر ثبوت پیش کیے جائیں۔ ہمیں پالیسیوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔‘‘ یہ نہایت ہی سنجیدہ الزامات ہیں اور اگر سچ ہیں تو اِنہیں بردباری سے دُور کرنے کی ضرورت ہے اور اگر غلط ہیں تو ثابت کرنے کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ خیبرپختون خوا سے تعلق رکھنے والے سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا: ’’حقیقی ایشو سے نظریں چرا کر نام نہاد کرپشن اور عسکریت پسندی پر توجہ دینے کی پالیسی پر سوالات اُٹھتے ہیں۔ جب دہشت گرد حملہ ہوتا ہے تو پالیسی بیان آتا ہے اور اب بھی آیا ہے کہ دہشت گردی اور کرپشن کا گٹھ جوڑ ہے۔ بلاشبہ ملک میں دہشت گردی اور کرپشن کا گٹھ جوڑ ہوگا، تاہم اس گٹھ جوڑ کا کوئی ثبوت سامنے نہیں لایا گیا۔ مگر اِس سے بڑھ کے ایک گٹھ جوڑ ہے، جو دہشت گرد تنظیموں اور ریاست کے اداروں کا ہے۔ ریاستی اداروں کے بعض لوگوں کا دہشت گرد تنظیموں سے گٹھ جوڑ ثابت ہو چکا ہے۔ یہ بات اب راز نہیں رہی کہ ریاست اور عسکریت پسندوں کے درمیان تعلقات ہیں۔ ابھی حال ہی میں یہ بات بھی ظاہر ہو چکی ہے کہ ملا منصور اختر نہ صرف یہ کہ اپنا نام بدل کر پاکستان میں رہتا تھا بلکہ اس کے پاس پاکستان کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھی تھا۔ جب کالعدم تنظیمیں وفاقی دارالحکومت میں ریلیاں نکالتی ہیں اور چندہ جمع کرتی ہیں، تو اس کے بعد یہ تعلق کیسے جھٹلایا جا سکتا ہے؟ وقت آ گیا ہے کہ ہم کالے کو کالا کہیں اور اس قسم کے تعلقات ختم کریں؟ فرحت اللہ بابر نے یہ بھی کہا کہ افغانستان کے حوالے سے ہمارے تذویراتی گیرائی کے نظریہ میں ابھی تبدیلی نہیں آئی۔ جمعیت علمائے اسلام کے سینیٹر حافظ حمد اللہ کا کہنا تھا کہ ’’یہ مسلح تنظیمیں کس نے بنائیں، ان کے مراکز کہاں ہیں اور اُن کو کہاں پر بھیجا جاتا تھا۔ ان مسلح تنظیموں کو بنانے اور اُن کی سرپرستی کرنے والوں کا احتساب ہونا چاہئے۔‘‘ بلوچستان سے سینیٹر ڈاکٹر جمال دینی جن کے فرزند سنگت شہید کر دیئے گئے نے بھی اِسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا۔ ان اقتباسات کو پیش کرنے کا مطلب فقط یہ تھا کہ اِن سنجیدہ آوازوں پہ کان دھرا جائے، پالیسیوں میں جو ابہام ہیں اُنہیں دُور کیا جائے اور اگر سینیٹر حضرات غلط فہمیوں کا شکار ہیں تو اُنہیں دُور کیا جائے۔ اصل معاملہ ایوانِ بالا جو وفاق کی علامت ہے اور ایوانِ زیریں میں ان سوالات پر سیر حاصل بحث کی جائے اور اس کے تناظر میں جہاں ضروری سمجھا جائے ہماری پالیسیوں پر نظرثانی کی جائے۔ اِن آوازوں کو دبانے یا ان کا تمسخر اُڑانے سے کام نہیں چلے گا۔ سنجیدہ خود احتسابی کی ضرورت ہے کہ یہ مادرِ وطن کے چین اور علاقائی سکون کے لئے ضروری ہے۔ سینیٹ ہی کا ذکر ہوا ہے تو اس بات پر اصرار کی ضرورت ہے کہ وفاقِ پاکستان کی علامت کے ادارے کو امریکہ کی سینیٹ کی طرح کیوں نہ طاقتور بنایا جائے کہ یہ ایک موثر منتخب ادارہ بن سکے۔ باوجودیکہ سینیٹ کا انتخاب بالواسطہ ہے اور سیٹوں کی تقسیم پارٹیوں کو ملنے والے ووٹوں کے تناسب سے ہے، سینیٹ نے ہمیشہ قانون سازی میں زیادہ مؤثر کردار ادا کیا ہے، حالانکہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سینیٹ کے طوطی کی آواز کبھی کبھار گم بھی ہو جاتی ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے ایک وفاقی نظام میں! سینیٹ کی نشستیں بڑھانی چاہئیں اور اس کا انتخاب براہِ راست لسٹ سسٹم کے تحت اس طرح کیا جائے کہ رائے دہندگان کو معلوم ہو کہ وہ اپنے صوبے کی نمائندگی کے لئے وفاق میں کسے بھیج رہے ہیں؟ اور اس کے لئے باقاعدہ بیلٹ پیپرز ہوں اور اُن پر ووٹ کاسٹ کئے جائیں۔ اس کے ساتھ ہی سینیٹ کو قومی اسمبلی کے ہم پلہ بنا دیا جائے اور اسے مالیاتی اُمور میں رائے دینے کا استحقاق بھی مل جائے۔ اگر ایسا ہو تو وفاق اور مضبوط ہو جائے گا اور علیحدگی کے رجحانات کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ پچھلے ہی دنوں سینیٹ کے چیئرمین جناب رضا ربانی نے شاہراہِ آئین کے حوالے سے بڑی پتے کی باتیں کی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ملک میں آئین، جمہوریت، وفاق اور انسانی حقوق کے لئے جو جدوجہد کی گئی ہے اور یہ بیش بہا قربانیوں سے حاصل کی گئی ہیں، اسے نذرانۂ عقیدت پیش کرنے اور جمہوری جدوجہد کے رہنمائوں اور رضاکاروں کی خدمات کو سراہنے کا بندوبست ہونا چاہئے۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ نئی پود کو معلوم ہی نہیں کہ یہ ملک کس طرح جمہوری جدوجہد سے قائم ہوا، قائداعظم نے آئین ساز اسمبلی سے اپنے پہلے خطاب میں کیا سیاسی و نظریاتی بنیاد فراہم کی اور جمہوریت اور انسانی حقوق کیلئے آمریت کے خون آشام سالوں میں سیاسی و سماجی کارکنوں نے کونسی قربانیاں ہیں کہ پیش نہیں کیں۔ جمہوریت اور آئینی نظام کو کیوں بار بار ایک ہی طرح کے بہانوں سے پٹری سے اُتارا جاتا رہا اور فوجی آمریتوں نے کیا تباہیاں تھیں کہ سرزد نہ کیں۔ آج بھی پھر جمہوریت کو پٹری سے اُتارنے کی مہم چل رہی ہے۔ معاملہ کرپشن کی روک تھام کا ہوتا تو پارلیمانی جماعتوں کو مؤثر قانون سازی کے فریضے پہ توجہ دینی چاہئے تھی۔ حکومت کے انکار پر پُرامن احتجاج کیا جاتا۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور ہے۔ جمہوریت کا تختہ کر کے کیا لانے کا ارادہ ہے؟ احتجاجیوں سے پوچھنے کی ضرورت ہے۔ کیا وہ مارشل لا چاہتے ہیں جس سے جنرل راحیل شریف کا واسطہ نہیں؟ کیا وہ وسط مدتی انتخابات چاہتے ہیں؟ کیا وہ ایک خونیں انقلاب چاہتے ہیں جس میں نچلے طبقے بالائی طبقوں کا تختہ اُلٹ دیتے ہیں؟ ان سوالوں پہ احتجاجی خاموش ہیں اور اُن کی خاموشی کوئی ایسی معنی خیز نہیں۔ کیونکہ صاف ظاہر ہے کہ وہ جمہوری و آئینی نظام کا انہدام چاہتے ہیں۔ اور اس نظام کو گرا کر اُن کے پاس کوئی متبادل نہیں۔ تو ایسی لایعنی تحریک میں کود کر عوام کیوں اپنا وقت ضائع کریں گے۔ رہی بات کرپشن کی تو اس کے لئے کوئی جامعہ اور مستند نظام لایا جائے جس سے کوئی کرپٹ بچ نہ پائے۔ لیکن احتساب کی آڑ میں جمہوری نظام کو چلتا کرنے والوں کی اس بار چلنے والی نہیں۔ کالے کو کالا کہنے میں حرج ہی کیا ہے، چاہے کسی کو بُرا لگے۔