تحریر : انجینئر افتخار چودھری
روشنیوں کے شہر اسلام آباد کے سر پر بھی روشنیاں راج کرتی ہیں۔چراغ تلے اندھیرا تو آپ نے سن ہی رکھا ہو گا اگر نہیں تو میں آپ کو دکھائے دیتا ہوں ۔پیر سوہاوہ ٹاپ کے پیچھے ایک نگر آباد ہے جہاں کے لوگوں کو رات گئے اسلام آباد کی روشنیاں تو نظر آتی ہیں مگر وہ خود اس سے مستفید نہیں ہیں ۔یہ علاقہ ہری پور میں واقعہ ہے جہاں سے ہری پور پہنچنے کے لئے دو گھنٹے لگتے ہیں اور اسلام آباد کے پچھواڑے کے لوگکیپیٹل میں ایک گھنٹے میں پہنچ جاتے ہیں۔ایک سڑک جو ایوب دور میں شروع ہوئی تھی وہ چند سال پہلے ہی پایہ تکمیل تک پہنچی ہے۔بجلی کا میں نے ذکر کیا ہے وہ اب ہے تو سہی مگر سرگی کے تارے کی مانند ہے جس طرح یہاں کے لوگ اس سے لئو مانگتے رہتے ہیں ایسے ہی بجلی کو بھی ساکنان علاقہ ترس جاتے ہیں۔دم آیا آیا نہ آیا۔آپ میری یہ بات جان کر حیران ہوں گے کہ اس علاقے میں کوئی کالج نہیں ہے ،کوئی ٹیکنیکل ادارہ نہیں ہے یہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش اسلام آباد میں آ کر چھوٹی موٹی مزدوری کرنا فوج کی ملازمت اور اب کچھ عرصہ سے خلیج کی ریاستوں اور سعودی عرب میں محنت مزدوری کر کے گھر کا چولہا جلانا۔
ان کی اس بد قسمتی کی ذمہ داری اس علاقے کی قیادت پر ڈالتے ہوئے مجھے کوئی باک محسوس نہیں ةوتا یہاں راجہ سکندر زمان ایک عرصہ تک بے تاج بادشاہ رہے ان کے پاس گورنری وزارت اعلی پانی بجلی کی وزارت رہی۔سینئر منسٹر بھی رہے ۔لیکن افسوس کہ وہ اس پورے علاقے کی تقدیر بدلنا تو کیاان کی شب تاریک تو سیاہ تر کرتے رہے۔یہی بد قسمتی ان لاکھوں لوگوں کے مقدر میں لکھی رہی۔ہری پور کہ اس پسماندہ ترین علاقے کی قسمت آج بھی راہنما کی منتظر ہے جو پی کے ٤٩ کے مقدر جگا سکے۔آپ حیران ہوں گے اس خوبصورت وادی جسے ہرو ندی نے چار چاند لگا رکھے ہیں جبری پل سے لے کر خانپور ڈیم تک جو ١٥ کلو میٹر کا فاصلہ ہے اس پر کوئی اور پل نہیں۔بارش میں ندی کے اس پار کے لوگ ادھر نہیں آ سکتے اور ادھر کے ادھر نہیں جا سکتے۔
یہ ندی ہر سال چند حرماں نصیبوں کی جان لیتی ہے۔خانپور ڈیم جو اپنے پانیوں سے میدان پنج کٹھہ سے لال سرخ مالٹے پیدا کرتا ہے مجھے لگتا ہے بھاٹی ببھوتری بوکنہ اور دیگر دیہات کے ان لوگوں کے خون کی سرخی ریڈ بلڈ مالٹوں میں منتقل ہو جاتی ہے۔اس علاقے کے لوگ مریضوں کو چارپائیوں پر لاد کر خانپور یا لورہ ہسپتالوں میں لے کر جاتے ہیں۔بہت سوں نے راجائوں کے اس دیس میں جہاں کبھی کبھی ترین بھی اقتتدار کا مزہلوٹتے ہیں یہاں مختیار گجر اور بیدار شاہ نے انقلاب لانے کی کوشش کی مگر پہاڑ جیسے مسائل جو قیام پاکستان کے وقت کے تھے انہیں حل کرنا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔مائوں کے بچے صرف دو وقت کی روٹی کے لئے پنڈی اسلام آباد سے کراچی تک تلاش رزق کے لئے ہی نہیں گئے
دنیا کے کونے کونے میں پہنچے مجھے ٢٠٠٤ میں ملائیشیا جانے کا اتفاق ہوا وہاں جنگ عظیم دوم کے شہداء کی ایک یاد گار پر جانے کا موقع ملا میں نے دیکھا کالا خان میرداد اور اس قسم کے ناموں سے مزین تختی مجھے پکار پکار کہہ رہی تھی روٹی کے متلاشی تمہارے ہی گرائیں تھے۔اب بھی فوج میں اس علاقے کے جوانوں کی بڑی تعداد ہے آئے ان دیہات کے بچوں کی لاشیں آتی ہیں جو کبھی کراچی میں کسی لسانیت پرست کی بوری میں بند ہوتا ہے یا سیاہ چین وانا وزیرستان میں کام آتا ہے۔میں تو اس حکومت کے ساتھ ساتھ جنرل راحیل سے بھی مطالبہ کرتا ہوں شہداء کی اس دھرتی پر سڑکیں ہسپتال تعلیم ادارے بنائے جائیں۔پی ٹی آئی کی حکومت ہوا کا ایک تازہ جھونکا ہے۔لیکن لوگ چاہتے ہیں اس علاقے میں صوابی نوشہرہ اور پشاور جتنے فنڈ خرچ کئے جائیں۔اس علاقے کو سیاحتی علاقہ بنایا جائے۔
میں اپنے دوست یوسف ایوب سے بھی گزارش کروں گا کہ ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے۔کوہالہ درکوٹ جبری نلہ جنڈی ببھوتری اور اپر خانپور انصاف مانگتا ہے۔جبری بنگلہ سے نجف پور روڈ کو اگر نہ بنایا گیا تو اس علاقے کے ساتھ بڑا ظلم ہو گا۔ترناوہ کوہالہ روڈ کی حالت کسی بیوہ کی اجڑی ہوئی مانگ سے کم نہیں۔پتہ نہیں لوگوں کو اسلام آباد سے موئن جو دڑو کیوں لے جایا جاتا ہے انہیں اس سڑک کی زیارت کرا دی جائے تو مقصد پورا ہو جائے گا۔
اس علاقے کہ لوگوں کو ماجد مختار گجر سے بڑی امیدیں ہیں لیکن پچھلے ہفتے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر پورے پہاڑ سے واحد منتحب ممبر ضلع کونسل بھی چیخ اٹھا کہ سارے فنڈ ایک مخصوص حلقے میں کیوں لگائے جا رہے ہیں؟اس اندھیر نگری پر کیا لکھوں بس اتنا لکھے دیتا ہوں کہ حق دار را حق رسید ہونا چاہئے اگر تحریک انصاف لوگوں کو انصاف نہ دے سکی تو اس دنیا میں جواب تو دینا ہی ہو گا آخرت میں پوچھے جائیں گے۔اندھیر نگری جواب مانگتی ہے۔
تحریر : انجینئر افتخار چودھری