تحریر : صاحبزادہ نعمان قادر مصطفائی
13فروری 2014ء بروز جمعرات 12ربیع الثانی صبحِ صادق کے وقت صِدق پر پہرہ دینے والے ایک مردِ صادق کی آواز ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی اور وہ لاکھوں پیاروں کو روتا ہوا چھوڑ کر اللہ کو ”پیارے ” ہو گئے ”اِن َ لِلَہِ وَ اِنَ اِلیہِ راجِعون”جب اُن کی رحلت کی خبر سُنی تو دل کی دھڑکنیں تیز ہونے لگیں بے ریا اور بے لوث مردِ درویش واقعی ”اللہ کو پیارے ہو گئے ‘یقیناََ وہ اللہ تعالیٰ کے کامل ولی تھے اور ہر کامل ولی اللہ کو پیارا ہی ہوتا ہے ،کہنے والے کہتے اور لکھنے والے لکھتے ہیں کہ” ولایت ایک دینی اور اسلامی اصطلاح ہے اور دین کا سرچشمہ یا تو کلامِ الہٰی ہے یا پھر سنت و سیرت پیغمبر بعد ازاں فقہ ہو یا علم کلام، تصوف ہو یا منطق و فلسفہ ان میں سے جو چیز قرآن و حدیث اور کتاب و سنت سے ماخوذ یا ہم آہنگ ہو وہ درست اور باقی ”محل نظر” اسلام میں سند یا حجت کوئی فقیہہ ، متکلم، امام، صوفی ، فلسفی، مفسر اور محدث نہیں بلکہ آخری اتھارٹی اللہ اور رسول ۖ ہیں جس بات کی سند اور تصدیق ان دو بارگاہوں سے مل جائے وہ سر آنکھوں پر اور اُن سے ہٹ کر کوئی قول یا فعل ہوگا وہ ترچھی نگاہ کے قابل بھی نہیں اولیاء اللہ وہ ہوتے ہیں جو اپنی خواہش کو خدا کی مرضی سے ہم آہنگ کر چکے ہوں جو بندگی کے مطلوب درجے پر فائز ہوں جن کا وجود لوگوں کے لیے آیت الہٰی ہو جنہیں دیکھ کر خدا یاد آئے جن سے مل کر زندگی کا ڈھب بدل جائے جن کی صحبت میں بیٹھ کر دنیا کم تر اور دین برتر نظر آئے جن کی باتیں علم کی خوشبو دیتی ہوں جن کا کردار گردو پیش کے لیے خدا کی نعمت لگے جن سے مخلوق آزار نہیں آرام پائے اور جو خوف خدا کا پیکر اور اطاعت پیغمبر کا مظہر ہوں یہی نشانیاں ہمیں ”کشف المحجوب””قوت القلوب ” ”رسالہ قشیریہ ””کیمیا ئے سعادت ””فتوح الغیب” اور”التعرف” میں لکھی ملتی ہیں یہ ساری کتابیں تصوف کی ”امہات کتب” کہلاتی ہیں سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ کے بندوں اور اس کے پیاروں کا تفصیلی ذکر اللہ کی کتاب قرآن مجیدمیں ملتا ہے ْنہ جانے کیوں میری فطرت میں اولیاء اللہ سے محبت کرنا شامل ہے یہ تو بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ اولیاء سے تو اللہ تعالیٰ اور اس کا محبوب بھی محبت کرتا ہے تو پھر میں کیوں ناں ”اُن”سے محبت کروں،وطن عزیز کی مقتدر خانقاہوں پر حاضری کی سعادت نصیب ہوئی ہے اس لیے کہ قیام پاکستان کے حصول کیلئے ان جید مشائخ عظام نے اپنی فہم و فراست، حکمت و دانش اور بہتر حکمت عملی سے اپنے مریدین کے ہمراہ ان تھک جدوجہد کی جس کے نتیجے میں وطنِ عزیز کا قیام عمل میں آیا ۔آستانہ عالیہ غوثیہ کے سجادہ نشین اور سُنی اتحاد کونسل کے مرکزی فنانس سیکرٹری ابو المعاذپیر اطہر القادری خلیفہ مجاز دربار عالیہ غوثیہ باب الشیخ نہایت ہی خلیق، ملنسار، ہنس مکھ، خدمت انسانیت کے جذبہ سے سرشار ، سادگی کا پیکر، لباس میں نفاست، سوچ میں نظافت، فکر میں لطافت، جو ایک نظر دیکھ لے بس دیکھتا ہی رہ جائے۔ یوں توں اس کائنات میں کروڑوں انسان آئے اور چلے گئے مگر بعض نفوس قدسیہ ایسے ہوتے ہیں جن کے چلے جانے کے بعد ایسا خلا پیدا ہوتا ہے جس کا صدیوں تک پر ہونا ممکن نظر نہیں آتا
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
انہی یگانہ روزگار ہستیوں میں ایک ہستی پیر اطہر القادری رحمتہ اللہ علیہ تھے بلاشبہ آپ ان بزرگوں، ہادیوں اور راہبروں میں سے ہیں جن کی عقیدت کے پرچم آج بھی لوگوں کے سروں پر ہی نہیں بلکہ دلوں میں بھی لہرارہے ہیں الٰہی یہ ہستیاں کس دیس بستی ہیں جنہیں دیکھنے کو آنکھیں ترستی ہیں آپ روحانیت کے آفتاب، تقوی و پرہیز گاری کا جیتا جاگتا ثبوت، عجز و انکساری کا پیکر، لطف و کرم کا مجسمہ، علم و عمل کا روشن مینار تھے جو ہمیشہ کے لئے ہمیں داغ ِمفارقت دے کر عالم فنا کو چھوڑ کر عالم بقا کی طرف نقل مکانی فرما گئے وہ کتنے پیارے محبوب تھے جو چلے گئے وہ دکھا کے رخ جو چل دیئے دل ان کیساتھ رواں ہوا نہ وہ دل رہا نہ دل ربا رہی زندگی سو وبال ہے سلوک و معرفت کے میدان میں شاہسوار اور مملکت طریقت کے شہریار تھے آپ طریقت کے بلند مقام پر فائز تھے شاداب ہے جن کی برکت سے طریقت کا چمن آپ کی چھوٹوں پر شفقت، ہر کسی پر رافت اور غیروں پر محبت لٹانے کا عمل، دل کو موہ لینے کا اندازِ گفتگو، لہجے میں نرمی و مٹھاس، چہرے پر شفقت آمیز روشنی، رُخِ انور پر تلاوتِ قرآن کی بہار، وعظ و نصیحت پر شگفتہ بیانی اور معتدل ظرافت آپ کے اخلاقِ کریمانہ کے زندہ ثبوت ہیں۔ جب کلام فرماتے تو رنگا رنگ پھول جھڑتے
یوں مسکرائے جان سی کلیوں میں پڑگئی
یوں لب کشا ہوئے کہ گلستان بنادیا
یہ بوریا نشین مرد کامل کتنے کریم تھے ،فیوض و برکات کے خزانے لٹاتے ،عیب پوشی فرماتے ہم سیاہ کاروں کو گلے لگاتے کرم پہ کرم فرماتے، دُکھیوں کے دکھ دور فرماتے، مریدوں کی بگڑی بناتے، عقیدت مندوں کے کام سنوارتے، سلسلہ طریقت کا حُسن نِکھارتے اچانک ہماری نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ وہ چاند بدلیوں میں چھپ گیا جس کی پربہار چاندنی اور وہ سورج غروب ہوگیا جس کی پروقار روشنی آفاق عالم طریقت کو تابندہ اور درخشندہ کررہی تھی وہ محبوب جو زندگی کا قرار تھا روحوں کی غذا جس کا دیدار تھا اور ہم شکستہ دلوں کی بہار تھا اس محبوب نے ہم سے کیوں پردہ فرما لیا ہماری بے تاب نگاہوں سے کیوں منہ چھپالیا بقول پیر نصیر الدین نصیر گولڑوی رحمتہ اللہ علیہ مطلب یہ ہے کہ اور ہو حیران چشم شوق پردے میں چھپ گیا ہے کوئی مسکراکے یوں یادوں کے چراغ محبت کے حوالے سے ہی پہچانے جاتے ہیں جب کسی سے پیار ہوتا ہے اس کے اطوار و اخلاق کو محبت ہی سے جانچا جاتا ہے دل میں بٹھایا جاتا ہے پھر انس بڑھتا ہے پیار کی لگن ابھرتی ہے دل میں ایک مقام پیدا ہوتا ہے آہستہ آہستہ اُسی کا ہوجاتا ہے۔ ”من احب شیأً اکثر ذکرہ” جس سے آدمی کو محبت ہوتی ہے اکثر اسی کا ذکر کرتا ہے
ہم کو پسند یار کی بانکی ادا لگی
وہ ہمارے کریم، شفیق اور مہربان تھے مونس و غم خوار تھے دیدار کراتے دل موہ لیتے جب بھی آپ کی خدمت عالیہ میں حاضری کا شرف نصیب ہوتا دلی سکون نصیب ہوتا ،اہلسنت کا ہر عقیدت مند یہی سمجھتا کہ سب سے زیادہ مجھ سے ہی پیار ہے، سب سے زیادہ مجھ ہی پر کرم ہے،اہلسنت کی تبلیغی و تعلیمی سر گرمیوں میں جانی ، مالی ، فکری ، ذہنی خدمات کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے خوشامد سے سخت نفرت تھی اور خوشامدی لوگوں خصوصاََعلماء و مشائخ سے ہمیشہ کنارا کشی کیے رکھی خوشامدی قسم کے لوگوں کے بارے میں شیخ سرہند امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی نے بجا طور پر لکھا ہے کہ ”علماء سو اور مشائخ نے شیطان کو کھلی چھٹی دے کر خود اس کا کام سنبھال لیا ہے ”ایک اور جگہ اپنے مکتوب میں لکھتے ہیں کہ ”انہی علماء میں سے بعض نے حرص کی بد بختی میں مبتلا ہو کر باد شاہوں اور امیروں کا تقرب حاصل کیا اور اس مقصد کے حصول کے لیے خوشامد و چاپلوسی کے طریقے اختیار کیے ”سچ پو چھیے تو ابو الفضل اور فیضی جیسے علماء سو کا پیدا کردہ فتنہ تھا جس نے بالآخر ”دینِ الہی ” کو جنم دیا حدیث شریف میں ہے کہ ولی کی نشانی یہ ہے کہ جس کو دیکھنے سے اللہ یاد آجائے آپ کی زیارت باسعادت اس حدیث کی تفسیر بن جاتی۔ آپ کے حسن و جمال کی تجلیاں اب بھی نگاہوں میں تیر رہی ہیں انوار ربانی چہرہ انور میں چمکتے تھے بقول پیر نصیر الدین نصیر گولڑوی رحمتہ اللہ علیہ
جلوئوں نے تیرے دی ہے دل و جاں کو وہ رونق
دیدار کی حسرت کا مزا یاد کریں گے
شاہ پور کانجراں کی د ھرتی کا سپوت جس نے آندھی و طوفان ،گرمی و سردی ،دھوپ و چھا ئوں ،شام و سحر اور شب روز کی پر واہ کیے بغیر اپنے سر پر ایک ہی دھن سوار کیے رکھی کہ دکھی انسانیت کی خدمت کیسے کی جا سکتی ہے اور بے سہارا انسانیت کا سہا را کیسے بنا جا سکتا ہے ؟پانچ دریا ئو ںکی سر زمیں پنجاب ہو یا رحمن با با کی دھرتی خیبر پختونخواہ ،شاہ عبد الطیف بھٹائی کا مسکن سندھ ہو یا محبتوں کی آما جگاہ بلوچستان ،مقبوضہ وادی ہو یا آزادخطہ، جنابِ پیر صاحب نے ہر جگہ خدمت انسانیت کے جھنڈے گا ڑھے اوراپنا آپ منوایا ،یقینایہ بہت بڑا کام ہے اپنے دل میں عشق رسول کی لگن اور اہلبیت کرام کی محبت کی جوت جگائے اور اولیاء اللہ کی عقیدت کی چمک اپنی پیشانیوں پر سجائے خدمت انسانیت کا یہ عظیم کاررواں اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا ، پیرصاحب کے شب وروز خدمت انسانیت اور فروغ دین میں صرف ہوتے ہوئے دیکھتے تھے تو دل سے دعا نکلتی کہ ,,اے رب قدیر ،تو اس شخصیت کو اپنی حفظ و اماں میں رکھ ،،عاجزی و انکساری کا مرقع اور خلوص کا پیکر یہ سپوت اگر شام کو”مشاہدہ حق ” میں مصروف نظر آتا تو دن کو تسبیح و تہلیل میں مگن دکھا ئی دیتا تھا جب بھی دیکھا ہے وہ تواضع اور انکساری کی حالت میں ہی ملے ہیں اور ہمیشہ ان کو مسکراتے ہی دیکھا گیا ہے ،ایسے ہی لوگ سسکتے اور دم توڑتے معاشرے کے لیے غنیمت ہو تے ہیں ،
انہوں نے ہمیشہ جذبہ عشق رسول کی آبیاری کی ہے اور آج ہر طرف اِنہی اکابرین کے لگائے ہوئے بوٹے گل و گلزار کا کام دے رہے ہیں جن کی خوشبو سے سارا جہان معطر ہے اللہ تعالیٰ قبلہ ابو المعاذ پیر اطہر القادری کوکروٹ کروٹ جنت عطا فر مائے اور آپ کے پسماندگان اور مریدین و عقیدتمندوں کو صبر جمیل عطا فرمائے (آمین )آپ نے پسماندگان میں دو بیٹے ،پانچ بیٹیاں اور ایک بیوہ چھوڑی ہے آپ کے بڑے صاحبزادے صاحبزادہ پیر معاذ المصطفیٰ قادری اپنے والد مرحوم کی علمی و فکری میراث بڑے ہی احسن انداز سے تقسیم فر ما رہے ہیں ،آج بروز جمعة المبارک 13فروری 2015ء کو آپ کے آستانہ عالیہالمعروف با با پیر مدرسہ، شاہ پور کانجراں ، ملتان روڈ لاہور سالانہ عرس مبارک نہایت ہی احترام و احتشام کے ساتھ منایا جا رہا ہے عرس مبارک میں ملک کے معروف مشائخ عظام ، علماء کرام ، دانشور ، کالم نگار تشریف لارہے ہیں جو آپ کی شخصیت پر روشنی ڈالیں گے
تحریر : صاحبزادہ نعمان قادر مصطفائی