تحریر: امتیاز علی شاکر
مرشِد پاک حضور” سید عرفان احمد شاہ المعروف نانگامست ”نے عمرہ اور رمضان المبارک کے آخرے عشرہ کے اعتکاف کی ادائیگی پرروانگی سے پہلے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ہر سال رمضان المبارک میں عمرہ کی ادئیگی اورآخری عشرہ کا اعتکاف مسجد نبوی میں بیٹھتے ہیں۔ اُمت مسلہ کے نام اپنے پیغام میں انہوں نے کہاکہ دنیا سے سودی نظام کو جڑ سے ختم کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ سود کو اسلام میں حرام قراردیا گیا ہے موجودہ حالات میں تمام مسائل سودی نظام کی پیدوار ہیں۔
عمرہ کی ادائیگی مسلم ممالک خاص طور پر پاکستان سے سودی نظام کے خاتمے کی دُعا ،اُمت مسلمہ کی کامیابی و کامرانی کیلئے کرتے ہیں ۔راقم کی خوش قسمتی رہی کہ آپ نے سودی نظام کیخلاف کالم لکھنے کا حکم صرف مجھے فرمایا ۔راقم خود کو کسی قسم کی تبلیغ کے قابل سمجھتا ہے اور نہ ہی اس بات کا اہل ہے کہ کسی کو نصیحت کرئے۔پریہ حقیقت اٹل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تبلیغ کی اہمیت سمجھانے کی خاطر قرآن کریم میں کھلے اور واضح احکامات فرمائے ہیں۔ اللہ کے محبوب نبی حضرت محمدۖ نے اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق زندگی گزارکر ہمارے لیے عملی مثال قائم کی ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں گزرے ہوئے زمانے کی قسم کھا کر ارشاد فرمایا کہ انسان خسارے اورگھاٹے میں ہے۔
سوائے ان لوگوں کے جوایمان لائیں اور نیک عمل کرتے اور دوسروں کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہیں۔ اسلام مسلمانوں کواس بات کا حکم دیتا ہے کہ وہ لوگوں کو بْرائی کے راستے سے روکیں اوراچھائی کی دعوت دیتے رہیں۔ اس سے بڑھ کے بنی نوع کی کیا خدمت ہوسکتی ہے کہ ان کو تباہی و بربادی ، ہلاکت اور کفر و شر سے بچاکر فلاح و کامرانی کے راستے پرلگایا جائے۔ہم اپنے لیے فحاشی و بے حیائی ،بے راہروی ،ظلم وزیادتی،ناانصافی۔لاقانونیت،دہشتگردی ، اقرباپروری، رشوت ستانی، جاگیردرانہ نظام، سودی نظام ، اور منشیات وغیرہ سے پاک معاشرہ کی تشکیل کرنا چاہتے ہیں تو پھراپنی ذات کو برائیوں سے پاک ،صاف کرکے خود بھلائیوں کو اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھلائی کی دعوت دینابھی ہمارافرض بنتا ہے۔
بھلائی کی دعوت دیناہرمسلمان پر فرض ہے پر یہ فرض پورہ کرنا سب کے بس کی بات نہیں ۔بھلائی اور نیکی کی دعوت دینے سے قبل خودکو اُن چیزوں سے دورکرناضروری ہوتاورنہ کوئی اثر قبول نہیں کرتا۔اللہ تعالیٰ اوررسول اللہۖ کا خاص احسان اور کرم ہے کہ راقم سود کی لعنت سے آج تک محفوظ ہے۔میں سمجھتاہوں تبلغ ہرکسی کے بس کی بات نہیںیہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں کے ذمہ ہے جن کواللہ تعالیٰ کے دوست یا ولی کہا جاتاہے ۔آج ہم جس نفسانفسی اور بدامنی کے دور سے گزر رہے ہیں وہ صاف بتاتا ہے کہ دورجدید کی تمام ایجادات اور پالیساں دم توڑ چکی ہیں ۔ہرکوئی اپنازور لگارہاہے پر دنیا کے کسی بھی کونے میں امن قائم نہیں ہورہا۔کہیں سرد جنگ جاری ہے تو کہیں فوج چھُپے ہوئے دشمنوں کا مقابلہ کررہی ہے۔
چھُپے ہوئے سے میری مراد ایسادشمن جس کاکوئی نام نہیں،جس کاکوئی ملک نہیں،جس کا کوئی مقصد نہیں اور خاص بات کہ جن کا کوئی موقف بھی نہیں۔بس جس کے خلاف لڑنے کیلئے رقم فراہم ہوگئی محاز کھول لیا اور پیسے ختم ہونے پر بھاگ نکلے یا ہتھیار ڈال دیئے ۔کوئی یہ نہیں سوچ رہا کہ آخر وجہ کیا ہے کہ دنیا بھر کے وسائل جنگوں کی نظر ہورہے ہیں ۔لوگ بھوک ،سردی ،گرمی ،سیلاب سے مررہے ہیں ۔بھرے ملکوں میں جہاں حکومت بھی موجود ہے اور حکمران بھی ،حکمرانوں کا بنایا نظام بھی پوری آب و تاب کے ساتھ سرگرم عمل ہے ۔ایک طرف لوگوں کو پینے کا صاف پانی تک دستیاب نہیں جبکہ دوسری جانب لوگ دودھ و شہد میں نہا رہے ہیں۔دورحاضرکے حکمران یا انتظامیہ رات کے اندھیرے میں جگمگانی والی مصنوعی روشنیوں کی مانندہیں جو سورج نکلتے ہیں ہی بے اثر ہوجاتی ہیں۔سورج کی غیر حاضری میں خوب روشیناں بانٹنے والے الات سورج کی کی موجودگی میں بالکل مانند پڑھ جاتے ہیں پر کچھ مقامات ایسے ہے جہاں سورج نکلنے کے باوجود یہ مصنوعی الات کام دیتے ہیں۔
جیسا کہ بیسمنٹ (تہ خانے )وغیرہ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ روشنی کی ضرورت کہاں زیادہ ہے؟جہاں سورج کی روشنی پہنچتی ہے یا پھر جہاں سورج کی روشنی نہیں پہنچ پاتی؟راقم کے خیال میںآج کا انسان بد اخلاقی اور جہالت کی بیسمنٹ (تہ خانے)میں رہائش پذیرہوچکاہے۔جہالت کی اندھیر نگری میں سورج کا کام اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے (اُلیاء اللہ)کرتے ہیں ۔دنیا جن مسائل کے حل تلاش کرنے میں ناکام ہوچکی ہے درویش جسے ہم اللہ تعالیٰ کا دوست بھی کہتے اور ولی بھی اُن کا بہت آسان اور سستا نسخہ بتاتاہے ۔یہی نسخہ بھلائی کی دعوت ،یہی تبلغ، یہی جہالت اور بداخلاقی کے تہ خانوں سے نکلنے کا واحد ذریعہ اوراسی ایک نسخے میں دنیا وآخرت کی کامیابی و کامرانی ہے ۔یہی نسخہ دنیا بھر کے تمام مسائل ،جنگوں اور بدامنیوں کا حل ہے۔یقیناآپ بے چین ہوں کہ آخر وہ کون سا نسخہ ہے جو دنیا وآخرت کی تمام بیماریوں کا علاج ہے؟درویش زمانہ، میرے مرشِد سیدعرفان احمد شاہ المعروف نانگامست نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں وہ نسخہ لوگوں تک پہنچائوں۔ نسخہ یہ ہے کہ سودی نظام کو جڑ سے ختم کردوکیونکہ سود کو اسلام میں بہت زیادہ نا پسندکرکے حرام قراردیا گیا ہے ۔قرآن کریم میں سودخوروں کے بارے میں ارشاد ہے۔
جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قبروں )سے اس طرح (حواس باختہ )اٹھیں گے جیسے کسی کو جن نے لیپٹ کر دیوانہ بنا دیا ہو۔یہ اس لیے کہ وہ کہتے ہیں کہ سودا بیچنا بھی تو (نفع کے لحاظ سے)ویسا ہی ہے جیسے سود (لینا)حالانکہ تجارت کو اللہ تعالیٰ نے حلال کیا ہے اورسود کو حرام( قراردیا ہے)تو جس شخص کے پاس اللہ کی نصیحت پہنچی اوروہ (سود لینے سے)باز آگیا تو جو پہلے ہوچکا وہ اس کا اور (قیامت میں )اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ۔اور جو پھر لینے لگا تو ایسے لوگ دوزخی ہیں اور ہمیشہ دوزخ میں (جلتے)رہیں گے ۔سورة البقرہ:٢٧٥ ” ۔قارئین غور کریں آج ہم جن عذابوں میں مبتلا ہیں وہ سارے کہ سارے وہی ہیں جن کی نشان دہی اللہ تعالیٰ اور رسول اکرمۖنے سودس خوروں کے بارے میں فرمائی ہے۔سب جانتے ہیں کہ موجودہ نظام امیر کو امیرتر اور غریب کو غریب تر کرتا ہی چلاجارہا ہے۔معاشرے کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر لوگ پریشان بھی ہیں اور حل بھی تلاش کرتے ہیں ۔درویش کا نسخہ ان مسائل کا آسان اور پختہ حل ہے۔اللہ پاک سے دُعا ہے کہ درویشوں کا سائیہ ہمارے سرپہ ہمیشہ قائم رہے ،وہ ہماری مشکلات کا حل نکالتے رہیں اور ہمیں توفیق عطا ہوکہ ہم اللہ تعالیٰ کے احکامات،رسول اللہۖ کی تعلیمات اور اُولیا اللہ سے راہنمائی حاصل کر کے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہۖ کی خوشنودی حاصل کر سکیں۔
تحریر: امتیاز علی شاکر:1فرید کوٹ روڈ لاہور
imtiazali470@gmail.com