تحریر: محمد یاسین صدیق
عبدالقادر (ڈپٹی کلیکٹر ) کے گھر دریا آباد میں عبدالماجد نے 1892 کوجنم لیا ۔ والدہ نصیر النساء اپنے بیٹے کو عالم بنانا چاہتی تھیں ۔ تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا ۔ننھے ماجد نے ایسا ذہن پایا کہ جو پڑھتا حفظ ہو جاتا۔والد کا تبادلہ سیتا پور ہوا ۔بچپن ختم ہوا ۔ لڑکپن آیا ۔پڑھنے کے شوق کا یہ عالم تھا کہ کھانے کا ہوش رہتا تھا نہ پینے کا بس کتابیں ہی اوڑھنا بچھونا تھیں۔نویں جماعت میںتھا اخباروں کے ذریعے علم ہوا کہ بعض اہل قلم ملحدانہ انداز کے مضامین لکھ رہے ہیں۔مذہبی جذبے نے جوش مارا کچھ ”الاسلام ” نامی کتاب سے کچھ اپنے پاس سے ”اودھ اخبار”میں پہلا آرٹیکل لکھا۔پڑھنے کا عبدالماجد کو جنون تھا سمجھ آئے نا آئے ہر مضمون پڑھنا لازم تھا۔ایک روز”رفاہ عام لائبریری ”جا پہنچا کتابو ں کا انبار تھا ۔مطالعہ کی کثرت نے ادیب کو بیدار کیا۔”محمود غزنوی ” ” غذائے انسانی” پر کتابیں لکھیں جو شائع ہوئیں۔
لکھنؤ کی ”ورما لائبریری ” سے (Element of Social Science)نامی کتاب جس کامصنف ڈاکٹر ڈریسیڈیل تھا ۔اس کتاب نے اس کے اندر کی دنیا بدل دی ۔دوسری کتاب جس نے تشکیک میں اضافہ کیا ( International Library of Famous Literature )ان کتابوں کے مطالعے سے وہ مسلمان سے ملحد بن گے ۔اسی دوران علامہ شبلی کی کتاب ”الکلام”منظر پر آئی، عبدالماجد نے مطالعہ کیا ۔قلم اٹھا یا اور عقائد اسلامی،وجود باری تعالٰی ،نبوت پر تنقید ی مقالہ 6اقساط میںرسالہ”الناظر”میں بھیجا جو شائع ہوا۔ان مضامین اور اپنے دیگر مضامین میں عبدالماجد نے جو لکھے اس کا مرکزی خیال یہ ہے کہ مذہب اب چند روزہ مہمان ہے ۔ جوں جوں سائنس کی تعلیم عام ہوتی جائے گی اسی نسبت سے مذہب کا اثر بھی زائل ہوتا جائے گا۔
ان کی تہجد گزار ماں کو جب علم ہوا تو دل پر قیامت گذر گئی۔ ان کا اپنا بیٹا منکر نماز و روزہ تھا۔عبدالماجد کو سمجھایا جانے لگا ۔عبدالماجدکا مطالعہ اتنا وسیع تھا۔کوئی قائل نہ کر سکا۔عبدالماجد مذہب سے متنفر ہو چکے تھے انہوں نے کالج کے سالانہ امتحان کے فارم میں مذہب کے خانے میں اسلام کے بجائے اپنا مذہب ”ملحد”لکھا ۔اسی سال بی اے کیا ۔والد صاحب حج پرگئے وہیں انتقال ہو گیا ۔ اب تعلیم چھوڑ معاش کی فکر ہوئی۔ قلم کا سہارا لیا ماہنامہ ”ادیب” اور ”الناظر” میں مضامین لکھنا شروع کئے ۔اس دوران ملحد وں و نیم ملحدوں کی کتابوں کے ساتھ وہ کتابیں بھی مطالعہ میںآئیں جو فلسفے اور نفسیات کے موضوع پر تھیں۔ان میں غیر محسوس طریقے سے مذہب کی نفی کی گئی تھی ۔
شیخ محمد یوسف الزماں مجسٹریٹ کی صاحبزادی عفت النساء کی ٹانگوں میں شدید درد رہنے لگا ۔ہر ڈاکٹر و حکیم کو آزمایا گیا۔ آرام نہیں آ رہا تھا ۔شیخ مسعود الزماں عفت النساء کے بھائی جو کہ عبدالماجد کے کلاس فیلو تھے انہوں نے اپنے والد سے کہا کہ عبدالماجد سے علاج کروا لیتے ہیں ۔والد نے پوچھا کیا وہ ڈاکٹر ہیں ؟ محمد یوسف نے بتایا وہ ماہر علم تنویم ہیں ۔اجازت مل گئی عفت النساء کا علاج ہونے لگا ۔چند روز میں عفت تو ٹھیک ہو گی ماجد مریض ہوگیا ۔بلا تکلف آنا جانا ہوتا تھا باتوں میںمحبت بڑھی تو عبدالماجد عاشق ہوئے ،پھر شاعر بنے اب وہ نہ مسلمان تھے نہ ملحد تھے بس عاشق تھے اور شاعر تھے ۔ عفت کو غزلیں سنائی جاتیں وہ شرما کرداد دیتیں۔ اپنی شاعری میں اکبرالہ آبادی سے اصلاح لینے لگے ۔ان کا ایک شعر ہے۔
جانبازیوں کو خبط سے تعبیر کر چلے
تم یہ تو خوب عشق کی توقیر کر چلے
اسی عشق کے نشے میں ایک دن اپناہاتھ گدوایا اور عفت کا نام لکھوایا ۔جب عفت کو دکھایا تو اس نے کہا ”یہ اسلام میں جائز نہیں” تو بولے ”میں اسلام کو نہیں مانتا ”۔ان دونوں انہوں نے دو کتابیں ”سائکالوجی آف لیڈر شپ ”اور ”فلسفہ اجتماع ”لکھیں ان کتابوں میں تمام انبیاء پر خود غرضی کے الزامات لگائے تھے ۔اس پر اخبارات و رسائل خاموش نہ رہ سکے ۔ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔مخالفانہ تبصرے شائع ہوئے۔بعض علماء کا کہنا تھا کہ عبدالماجد نے بعض آیات کو سمجھنے میں ٹھوکر کھائی ہے مصنف کا قلم اندھے کی لکڑی کی طرح ہے جو چاروں طرف گھوم رہی ہے کسی کے بھی لگ جائے ۔سب سے اہم فتویٰ ‘احمد رضا خان بریلوی” کا تھا عبدالماجدکو کافر قرار دے دیا۔ اس پر مولانا عبدالباری ، سید سلمان ندوی نے عدم تکفیر کے فتوے دئیے۔ن کا خیال تھا عبد الماجد مزید علم حاصل کرنے سے راہ راست پر آ جائے گا ۔بے روزگار تھے 1919 نظام حیدر آباد کو درخواست دی جو 125 روپے ماہانہ تا حیات وظیفہ منظور ہو گیا ۔
آخر 2جون1916 کو اس کا نکاح لکھنؤ میں عفت النساء سے انجام پا گیا۔ممتاز شعرانے تاریخیں نکالیں اور سہرے لکھے ۔
منکر ہو نہ کوئی اپنی ہمتائی کا
یہ کام کبھی نہیں ہے دانائی کا
اللہ نے اب غرور ان کا توڑا
دعویٰ تھا مرے دوست کو یکتائی کا
(سید سیلمان ندوی)
دس سال تشکیک الحاد سے وہ مغلوب رہا ۔ان کے ملحد ہونے کا سبب کتابیں تھیں اور اب کتابیں ہی روشنی دینے لگیں کتابوں ہی نے اسے بھٹکایا تھا اب کتابیں ہی اسے راہ راست پر لا رہی تھیں۔خاص طور پر شبلی کی سیرت النبیۖ کے مطالعے نے اس کی کایا ہی پلٹ دی ۔مدتوں بعد وضو کر کے وہ مصلّے پر بیٹھے اور خدا کے حضور کھڑے ہو گئے کہ جسے وہ بھول چکے تھے گناہوں کا خیال آیا تو چیخیں نکل گئیں۔عفت کی آنکھ کھل گئی ۔دیکھا بھٹکے ہوئے عبدالماجد راہ راست پر آچکے تھے ۔خدا کا شکر ادا کیا اور شوہر کے آنسوؤں میں ان کے آنسو بھی شامل ہو گئے ۔والد نے جو حج پر دعاکی تھی قبول ہو چکی تھی ۔ماں کی دعائیں رنگ لا چکی تھیں ۔اب بازو سے عفت کانام کھرچ دیا گیا ایک مولوی بلوایا گیا اور دوبارہ نکاح پڑھوایا ۔
۔اب پھر لکھنے کا کام سنبھالا۔وقت کی بچت کے لئے دوپہر کا کھانا چھوڑ دیا ۔ایک دن اپنا اخبار نکالنے کا خیال آیا ۔مولانا عبدالرحمٰن نگرامی نے حمایت کی اخبار کا نام ”سچ” تجویز ہواہفتہ وار اخبار پابندی سے نکلا شروع ہوا۔اصلاح معاشرہ ،ردبدعات ، تجدد دین اور ترقی پسندی کی مخالفت اس اخبار کے خاص موضوعات تھے ۔ مولانا عبدالرحمٰن نگرامی انتقال کر گئے ۔بیوہ کی عمر 26یا 27سال کی تھی۔ عبدالماجد بیگم عفت النساء سے رضامندی حاصل کرنے کے بعد بیوہ سے عقد ثانی کر لیا۔نکاح کے ردّعمل کے طور پر خاندان میں ہلچل مچ گئی ۔عفت النساء کو ہسٹریا کے دورے پڑنا شروع ہو گئے طلاق کا مطالبہ ہواآخر کار 8ماہ بعد ہی عبدالماجد کو طلاق دیتے ہی بنی۔انہوں نے ”سچ”کوبند کر دیا۔اپنے آپ کو قرآن اور متعلقات قرآن تک محدود کر لیا ۔ترجمہ قرآن (انگریزی) کے بعد تفسیر ماجدی(انگریزی،اردو)کا کام شروع کر دیا ۔ جنوری 1974 فالج کا حملہ ہوا۔ایک دن لڑکیوں کو پاس بلا کر اپنی کتابوں کی تقسیم کر وادی۔ انگریزی کی کتابیں ندوہ کے دارالمطالعے کو اور اردو،عربی اور فارسی کی کتب مسلم یورنیورسٹی کو دے دی ہیں۔
اان کی 4 بیٹیاں تھیں (رافت النسائ، حمیرا خاتون، زہیرا خاتون اور زاہدہ خاتون)آخر کار وہ دن بھی آگیا جب علی گڑھ سے ٹرک کتابیں لینے ان کے دروازے پر کھڑا تھا اور وہ بے بسی سے اسے لادتے دیکھ رہے تھے ۔بیٹی سے ا ظہار کیا کہ” ایسا لگ رہا ہے ایک اور بیٹی کو رخصت کر رہا ہوں”مرد حق محرم رموز حیات ،اسلام کا سچا سپاہی ،نابغہ روزگار شخصیت ،عالم دین، بے مثل ادیب، مرثیہ نگار، آب بیتی نگار، عظیم کالم نویس، صحافی، مفسر قرآن مولانا عبدالماجد دریابادی 6جنوری1977صبح ساڑھے 4بجے خاتون منزل (لکھنؤ)میں عبدالماجد دریابادی خالق حقیقی سے جا ملے ۔نماز جنازہ ، وصیت کے مطابق نماز ظہر کے بعد ندوہ العماء کے میدان میں مولانا ابو الحسن ندوی نے پڑھائی۔
ان کی چند کتابوں کے نام درج ذیل ہیں ۔، قرآن حکیم(انگریزی ،اردو ترجمہ و تفسیر) ارض القران، اعلام القران، مشکلات القرآن، بشریت انبیاء ، تصوف اسلام، تمدن اسلام کی کہانی، خطبات ماجد، سچی باتیں،یتیم کا راج۔آپ بیتی(ماجد)، فلسفہ جذبات، فلسفیانہ مضامین، مبادی فلسفہ، تاریخ اخلاق یورپ، تاریخ تمدن ، مکالمات برکلے ، مناجات مقبول، ڈھائی ہفتہ پاکستان میں ، سفر حجاز، سیاحت ماجدی۔
تحریر: محمد یاسین صدیق