تقدیر یہ نہیں دیکھتی کہ کس حادثے میں کون مرا ہے، غریب الوطنی میں بیماری یا مجبوری کے ہاتھوں کون سا بچہ کس ماں کو ہمیشہ کے لیے آنسو اور ہچکیاں دے گیا یا وقت کس باپ سے اس کا بازو چھین کر لے گیا۔
اسی طرح کی صورت حال کاسامنا ڈسکہ کے ایک 25سالہ نوجوان کوکرنا پڑا، اسے صرف قسمت کا لکھا اور تقدیر کی سنگ دلی ہی کا نام دیا جا سکتا ہے۔
خزیمہ نصیر جرمن شہر کولون میںسرطان کا شکار ہو کر انتقال کر گیا ۔ آخری دنوں میں خزیمہ کی شدید خواہش تھی کہ اسے کسی طرح پاکستان بھیجا جائے۔ اب اسے تابوت میں پاکستان بھیجا جائے گا۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈاؤئچے ویلے نے اپنی خصوصی رپورٹ میں خزیمہ کے متعلق یوں لکھا ہے کہ وہ اپنے لیے خوشحال زندگی کے خواب لیے ڈسکہ میں اپنی ریڈی میڈ گارمنٹس کی دکان چھوڑ کر گزشتہ برس کئی لاکھ دیگر مہاجرین کی طرح جرمنی آیا تھا۔
خزیمہ کو اپنے ہڈیوں کے سرطان کے مرض کا علم جرمنی آنے کے قریباً آٹھ نو ماہ بعد ہوا تھا، جب اسے اچانک بہت تیز بخار رہنے لگا تھا۔ پھر اس نے قریب پانچ ماہ کا عرصہ جرمنی کے دو مختلف اسپتالوں میں گزارا ۔
اس دوران کولون میں بھی یونیورسٹی اسپتال کی مرکزی عمارت کی 15 ویں منزل کے مختلف کمروں میں مجموعی طور پر اس کا قریب پونے چار ماہ تک علاج ہوتا رہا۔
نو مارچ 1992ء کو ڈسکہ میں پیدا ہونے والا خزیمہ ابھی 25 برس کا بھی نہیں ہوا تھا کہ جمعہ چار نومبر کو صبح 10 بج کر 48 منٹ پر اس کا انتقال ہو گیا۔ زندگی کی وہ کہانی جو ڈسکہ شہر کے ایک محلے سے شروع ہوئی تھی، کولون کی ’کَیرپنر شڑاسے‘ نامی سڑک پر یونیورسٹی کلینک کے ایک کمرے میں اس طرح اپنی تکمیل کو پہنچی کہ چند روز پہلے تک اسے اپنے ساتھ پاکستان لے کر جانے کے خواہش مند اس کے جرمن معالج اور مہینوں تک اس کی بڑے خلوص سے طبی نگہداشت کرنے والی نرسوں تک ہر کوئی آبدیدہ تھا۔
انتقال کے وقت اس پاکستانی نوجوان کے پاس اس کا کوئی رشتے دار موجود نہیں تھا۔ اسپتال میں خزیمہ سے مہینوں تک ہر روز ملاقاتیں کر کے کئی کئی گھنٹوں تک اس کی مدد اور دل جوئی کرنے والے اس کے بہت سے ہم وطن دوستوں اور شناساؤں کو تو رونا ہی تھا لیکن اس بات میں بھی کوئی مبالغہ نہیں کہ جتنا بہت سے جرمن طبی کارکن خزیمہ کے لیے روئے، اتنا آج تک کبھی کوئی جرمن کسی اجنبی پاکستانی کے لیے نہیں رویا۔
اکتیس اکتوبر کو ڈاکٹروں نے جو قریب ایک ماہ قبل خزیمہ کا ہر قسم کا علاج بند کر کے اسے صرف درد کے مداوے کے لیے مختلف دوائیاں دیتے تھے، یہ کہہ دیا تھا کہ وہ کسی بھی قسم کے سفر کے قابل نہیں رہا۔ اس پر اس کی، ایک جرمن ڈاکٹر اور اس کو اپنے ساتھ پاکستان لے کر جانے والے ایک پاکستانی کی وہ ہوائی ٹکٹیں بھی منسوخ کرانا پڑ گئی تھیں، جو یکم نومبر کے لیے کنفرم تھیں۔
خزیمہ کی شدید خواہش تھی کہ وہ اپنا آخری وقت، چاہے وہ چند روز ہوں یا محض چند گھنٹے ہی، اپنے والدین کے ساتھ گزارے۔ اس کی والدہ کو جرمنی بلانے کے لیے ویزے کے حصول کی کارروائی بھی شروع کی گئی تھی، جو کئی مختلف وجوہات کی بناء پر نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئی۔ خزیمہ کو یہ خوف بھی تھا کہ آیا پاکستان جا کر اس کی اسی طرح بھرپور اور تسلی بخش طبی دیکھ بھال ہو سکے گی، جس طرح جرمنی میں کی جا رہی تھی۔
اس کے باوجود وہ عین آخری دنوں میں پاکستان جانے پر نہ صرف آمادہ ہو گیا تھا بلکہ اصرار بھی کر تا رہا تھا۔ لیکن تب تک وقت اپنا فیصلہ سنا چکا تھا اور اس کی زندگی بس اتنی ہی بچی تھی کہ ایک روز رات کو اس نے تیمم کر کے اپنے بستر پر ہی اشاروں سے عشاء کی نماز پڑھی، اگلے روز وہ کوما میں چلا گیا اور اس کے بعد ایک دن سے بھی کم عرصے میں وہ ڈسکہ جانے کے بجائے وہاں چلا گیا، جہاں اس دنیا میں آنے والے ہر ذی روح کو واپس جانا ہوتا ہے۔
ڈسکہ تو خزیمہ اب بھی چلا ہی جائے گا، لیکن سانس لیتا ہوا نہیں۔ بولنے کی صلاحیت بہت کم ہو جانے کے بعد اشاروں سے بات کرتا ہوا بھی نہیں۔ ایسی حالت میں بھی نہیں کہ ماں باپ اسے دیکھ کر کچھ تسلی دیں اور پیار کریں۔ اب وہ غسل کے بعد کفن میں لپٹا ایک ایسے تابوت میں بند واپس اپنے گھر پہنچے گا، جہاں ماں باپ اسے مل کر بھی مل نہ سکیں گے، کوئی مکالمہ نہیں ہو سکے گا، بہت قریب ہونے کے باوجود گھر میں موجود ماں باپ اور بہن بھائیوں اور پردیس سے لوٹنے والے مسافر کے مابین اتنا فاصلہ پھر بھی رہے گا، جتنا دو مختلف دنیاؤں کے باسیوں میں ہمیشہ موجود رہتا ہے۔
خزیمہ کی میت کو واپس پاکستان پہنچانے کے انتظامات شروع کیے جا چکے ہیں اور اگلے چند روز میں اس کا جسد خاکی تدفین کے لیے واپس ڈسکہ میں اس کے گھر پہنچا دیا جائے گا۔
خزیمہ ہسپتال میں جس بھی کمرے میں ہوتا تھا، وہ اکتوبر نومبر تک میں بھی اس کی کھڑکی ہمیشہ کھلی رکھواتا تھا۔ وجہ شاید سرطان کی رسولیوں کی وجہ سے اسے محسوس ہونے والی گرمی ہوتی تھی یا پھر وہ گرمی اس جوان خون اور مضبوط ارادے کی تھی، جس کے ساتھ وہ مہینوں تک موت سے لڑتا رہا تھا۔
خزیمہ اپنی موت سے چند گھنٹے قبل جس وقت کوما میں تھا، اس کے کمرے کی کھڑکی اس کی خواہش کے مطابق کھلی ہوئی تھی، کئی ملاقاتی بھی کمرے میں موجود تھے اور چند نرسیں بھی۔ ملاقاتی روتے ہوئے تلاوت کر رہے تھے، ایک نے اس کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اور نرسوں کی گیلی آنکھیں سرخ ہو چکی تھیں۔
پھر سرد ہوا کے ایک جھونکے نے اپنے ہاتھوں سے خود بخود تھوڑی سی بند ہو چکی کھڑکی کو ایک آخری بار پورا کھول دیا، جیسے یہ پیغام لایا ہو،
پلٹ کے آئے غریب الوطن، پلٹنا تھا
یہ دیکھنا ہے کہ اب گھر کہاں بناتے ہیں