دفتر کے چپراسی کی اہمیت سے کون واقف نہیں۔ صاحب تک رسائی حاصل کرنی ہے تو چپراسی سے بنا کے رکھنی پڑتی ہے۔ اخلاق کے بڑھیا ہونے کا اندازہ نوٹوں کی رنگت سے لگایا جا سکتا ہے۔
آپ نے کبھی ڈائری لکھی ہے؟ نہیں، دیکھی تو ہوگی۔ اس میں کیا ہو تا ہے۔ تاریخیں اور اچھی ڈائری ہو تو عبرت کے لیے چند اہم واقعات درج ہوتے ہیں۔
ڈائریوں کے اولین صفحات پر ملکوں کے مختلف اوقات، کرنسی، ان کے دارلخلافوں کے نام اور اس سب کے علاوہ ایک خاص بات ہوتی ہے وہ ہیں ایمر جنسی نمبر، لیکن اتنا کسی کے پاس کہاں وقت کہ یہ سب دیکھتا پھرے۔ جب ضرورت ہو گی تب دیکھ لیں گے۔
ڈائری لکھنا اور رکھنا کچھ لوگوں کی عادت اور روایت کا حصہ ہوتی ہے اور کچھ لوگوں کی پیشہ ورانہ مجبوری بھی۔ اگر کسی بھی کام کو پیشے کے ساتھ جوڑ دیا جائے تو وہ مجبوری ہی بن جاتا ہے۔ لیکن میں جس پیشے کی بات کر رہی ہوں اس میں ڈائری لکھنے کے پیسے ملتے ہیں۔ یہ ڈائری ریڈر لکھتا ہے۔ کمال ہے ڈائری لکھنے والے کو رائٹر کہیں گے یا ریڈر؟
جناب جس ریڈر کی ہم بات کر رہے ہیں اس کا تعلق لکھنے پڑھنے سے بالکل نہیں. وہ کسی گاؤں کے اس امام مسجد کی طرح ہوتا ہے جسے اللہ اور رسول کا نام لینا آتا ہو اور نماز پڑھنی آتی ہو۔ باقی جنت، دوزخ اور عورتوں کی شرم و حیا مردوں کو کیسے قائم رکھنی ہے اور عورتوں کو جنت میں جانے کے لیے مردوں کی کیسے خدمت کرنی ہے۔ یہ بتانا کون سا مشکل ہے۔ اور عبرت کے لیے کئی واقعات وہ دل سے جوڑ کر خطبے میں بیان کر بھی دے تو گاؤں کی مسجد کون سا دینی علوم کے ماہر نماز پڑھنے آتے ہیں جو کوئی اعتراض اٹھائیں گے۔ ہم تو یوں بھی ملاوٹ والی اشیاء کھانے اور جھوٹ سننے کے عادی ہیں۔
بات کہاں سے کہا ں نکل گئی۔ ہاں تو یہ ڈائری جس شخص کے پاس ہوتی ہے اسے ریڈر کہتے ہیں۔ یہ عدالت میں جج صاحب کی کرسی کے دائیں یا بائیں اور کٹہرے کے نزدیک بیٹھتا ہے۔ عدالت میں آنے والے سائلین، وکیلوں اور ججوں سے اس کے تعلقات مثالی ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں دولت دل سخت کر دیتی ہے لیکن اس کا دل بڑا نرم ہوتا ہے۔ یہ جج صاحب کا بڑا خیال رکھتا ہے اور ان کا خیال رکھنے کی وجہ سے ہی کبھی کبھی اسے سائل کی من پسند تاریخ دینے کے لیے معاوضہ زیادہ رکھنا پڑتا ہے۔ اور سائل، کیس لٹکائے رکھنے کے لیے ریڈر کو خوش کرنا اپنا فرضِ اولیں سمجھتا ہے۔ یوں جج، وکیل اور سائل خوش۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
البتہ اگر بے وقوف مظلوم مدعی یا مدعیہ الیہ اس سے نا خوش ہے تو اس میں ریڈر کچھ نہیں کر سکتا ویسے بھی ایک شخص کتنوں کو خوش رکھ سکتا ہے۔ تاریخ پر تاریخ، تاریخ پر تاریخ اور ہر تاریخ پر ریڈر، روزانہ جتنے روپے گھر لے کر جاتا ہے، اس سے اس کے گھر کا چولہا ٹھنڈا اور ہوٹل کا گرم رہتا ہے۔
پچھلے دنوں لاڑکانہ میں ایک ریڈر کے بچوں کی شادی تھی۔ اب تاریخی ریڈر کے بچوں کی شادی ہو تو کیا جب بھی وہ اپنے ارمان پورے نہ کرے۔ لہذٰا، تاریخوں کے عوض ملنے والے نوٹ سارے راستے بارات پر نچھاور ہوتے رہے اور باقی جو بچے وہ مقامی گلوکارہ ثمینہ سندھو پر وارے جانے لگے۔ اب یہ تو ثمینہ سندھو کا فرض تھا کہ وہ اس عزت افزائی پران کی حکم کی بجا آوری میں کھڑے ہو کر گائے اور ان کے لہو گرمائے۔ تاریخ پر تاریخ سے حاصل ہونے والے پیسے سے ہوائی فائرنگ نہ کی جائے تو پاس پڑوس کو کیسے معلوم ہو کہ عزت مآب ریڈر کے گھر خوشیوں کی گھن گرج ہے۔
اب اگر اتفاق سے گولی اس چوبیس سالہ حاملہ کے دل کو لگی تو بھلا اس میں جان دینے والی کیا بات تھی لیکن موت کے فرشتے کی ڈائری میں یہ ہی تاریخ لکھی تھی۔ اور اس ظالم کے ہاں تاریخ پر تاریخ نہیں دی جاتی جو تاریخ لکھ دی گئی، اٹل ہے۔ تو اس میں اس کے شوہر کو اتنا برا منانے کی ضرورت نہیں۔
ہم ایک اسلامی ملک میں رہتے ہیں۔ قصاص و دیعت کا شرعی قانون ہمارے ملک میں الحمدو للّلہ موجود ہے۔ ریڈر کے بینک میں تاریخ پر تاریخ، تاریخ پر تاریخ کے حساب سے پیسے بڑھتے رہیں گے۔ ایک جان تو ثمینہ کے ساتھ چلی گئی اب اس کے شوہر کی اکیلی جان۔ ۔ ۔ سال چھ ماہ بعد اسے شادی بھی کرنی ہو تو اسے ابھی سے فیصلہ کر لینا چاہیے کہ وہ ریڈر سے تاریخ پر تاریخ سے ملنے والے انصاف کا خون بہا لے کر اپنی نئی زندگی شروع کرے اور ریڈر کو سکون سے تاریخ پر تاریخ دینے دے، یا قاتل کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے لیے تاریخ پر تاریخ لیتا رہے۔