تحریر: عمران احمد راجپوت
تاریخ میں پہلی مرتبہ منعقد کئے جانے والے بلدیاتی انتخابات اسلام آباد کی عوام کے لئے نہ صرف ایک نئی راہ متعین کئے جانے کا موقع فراہم کرینگے بلکہ روایتی و شخصی سیاست کو ٹھوکر مارکر وفاقی مجسموں کی چولیں ہلاڈالیں گے یہ شاید کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔ن لیگ کا تحریکِ انصاف کے ساتھ ٹکر کا مقابلہ اور انتخابی رزلٹ تین حصوں میں بٹ کر کسی ایک کو واضح برتری حاصل نہ ہونا ن لیگ کے لئے اِسی بات کی غمازی کرتا دکھائی دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ تحریکِ انصاف سے چیئرمین کی صرف دونشستیںآگے ہونے پر میاں صاحب کو لندن سے ہی آزاد امیدواران کو فلفورپیغامِ الفت دینا پڑا کہ کہی آزاد نامی اِس دلربا کو کوئی اور ہی نہ لے اُڑے ۔
اب دیکھنا یہ ہے آزاد نامی یہ پنچھی کس کی آغوش میں آکر مقید ہونا پسند کرتے ہیں۔ وفاقی کی مین اسٹریم سمجھے جانے والی ملکی سطح کی دونوں جماعتیں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی جنھوں نے اِسی وفاق کے کاندھے پر اپنی سلطنتیں قائم کیں اور آج بھی اپنے دفاعی آستانوں میں اطمنان وسکون کے ساتھ بیٹھیںایک مدت پوری ہونے کی خواہش لئے گدی نشین ہے تودوسری مدت پوری ہونے کے انتظار میںگوشہ نشینی اختیار کئے ہوئے ہے۔
دوسری جانب میڈیا کی طرف سے عوامی سطح پریہ باور کرانے کی بھرپور کوشش کی جارہی کہ یہ دو جماعتیںجوپچھلی چار دہائیوں سے باری باری اقتدار کے مزے لوٹتی آئی ہیں عوام میں اپنی مقبولیت کھوچکی ہیںلہذا عوام کو اب کسی نئی سیاسی قوت کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے لیکن ہماری عوام پی آئی اے کے سلوگن باکمال لوگ لاجواب سروس کی طرح پڑھے لکھے لوگ بے شعور عوام کا سلوگن اپنائے صُماً بُکماًکی پالیسی پر عمل پیراں ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں جماعتیں اطمینان سکون سے کچوے کی چلن اختیار کئے خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ رہی ہیں۔ دونوں جماعتوں کی جانب سے اِس اطمینان بخش خاموشی کی وجہ یہ بھی ہے کہ انھیں پتا ہے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں جب وقت آئیگااپنی پیٹاری سے نسخِہ خاص نکال کر کن فیکن کا ایسا منتر پھونکیںگے کہ عوام عرصوں پر محیط ماضی منٹوں میں بھلاکر مزید اگلے پانچ سالوں کے لئے اقتدار پلیٹ میں رکھ کر ہمیںسونپ دینگے۔ بس ایک کو بھٹو زندہ کرنے کی ضرورت ہوگی دوسرے کوآمریت کا رونا اور جمہوریت کا گانا گانا ہوگا باقیوںکو نئے صوبے بنانے کا نعرہ لگانا ہوگا۔
جس کے بعد عوام مزیدپانچ سال کیلئے قید ِبا مشقت کی سزا پاتے ہوئے انگریزوں کے زمانے کے لیڈروں کے ہاتھوں یرغمال بنے اپنی قسمت کو کوستے رہیں گے۔ اِس لئے میڈیا چاہے کچھ بھی کہتا رہے صحافی حضرات کہیں کا بھی زور لگالیں عوام کو کتنا ہی جگالیں وقت آنے پر یہ ڈگ ڈگی کی تھاپ اورجمہوریت کی دھن پر ایسا فوک گیت گائیں گے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے باشعور عوام مدہوش ہوکر رقص کرتے نظر آئینگے۔
ہربار کی طرح اِس باربھی سیاست کے پرانے پاپیوں نے عوام کے ساتھ ایسا ہاتھ کیا کہ عوام کو خبر تک نہ ہوئی جن علاقوں میں دیکھا پارٹی کی کارکردگی درست نہیں عوامی سطح پر مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے وہاں جماعتی بنیادوں پر نمائندے کھڑے کرنے کے بجائے آزاد پینل بنا کر امیدوار کھڑے کئے گئے تاکہ عوام مخالفت میں بھی ووٹ ڈالیں تو مخالف جماعت کے بجائے آزاد امیدوار کو ووٹ جائیں جنھیں بعد میں خزانے کا منہ دکھاکر اپنی طرف کھینچنا آسان ہوگا دیکھا جائے توکافی حدتک دونوں جماعتیںاِس میں کامیاب رہیں
کیونکہ عوام نے تقریباً سب ہی سیاسی جماعتوں سے نالاں ہونے کے باعث اکثریت کے ساتھ آزاد امیدواران کو ووٹ دیا جو پورے پاکستان میںتیسری قوت بن کر ابھرے لیکن عوام یہ بھول گئے کہ یہ سب برسات کے وہ مینڈک ہیں جو بادل چھٹ جانے پر کسی نہ کسی میںضم ہوجائینگے۔ حالانکہ یہی آزاد امیدوار ملکی سطح پر اپنی ایک الگ پہچان بنانے کا عظم کرلیں تو پرانے کھلاڑیوں کے مقابلے میں ایک نئی قوت بن کر سامنے آسکتے ہیں اور ملک میں حقیقی جمہوریت کی بساط بچھا سکتے ہیں یہ تمام امیدوار نچلی سطح سے ابھرکر سامنے لائے گئے ہیں یہ چاہیںتو 2018 ء میں ہونے والے عام انتخابات تک خود کو ایک ایسی جماعت میں تبدیل کرسکتے ہیں جوملکی سطح پر مکمل میڈل کلاس طبقے کی جماعت کے طور پر پہچانی جائے۔
عوام نے اِس باربلدیاتی انتخابات میںسیاسی جماعتوں سے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے آزاد امیدواران کو کامیاب بنا کر اپنے تئیںشعورِ آگاہی کا کچھ ثبوت تو دیا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ چُنے گئے یہ آزاد امیدواران اپنے شعور کو کس حد تک استعمال کرتے ہوئے عوامی امیدوں کو بر لاتے ہیں۔ لیکن فلحال ایسا بہت مشکل نظر آتا ہے کیونکہ قوی امکان ہے اِنھیں ایسے ارادوں سے روکنے کے لئے اِن کے منہ خزانوں سے بھر دئیے جائیں گے اور عوام ہربار کی طرح اِس بار بھی پانچ سال تک اپنے شعور کو کوستے رہیں گے۔
تحریر: عمران احمد راجپوت