تحریر: نعیم الاسلام
‘غزوہ بدر”اسلام کا سب سے پہلااورکفر و شرک میںفرق کرنے والا عظیم الشان معرکہ ہے،17 رمضان جمعة المبارک کے دن جنگ بدرکی ابتداء ہوئی۔ اس غزوہ میں مسلمانوں کو دنیاوی اسباب کے بغیر محض اللہ کی مدد سے فتح و کامیابی حاصل ہوئی۔بد ر ایک کنویں کا نام ہے ۔”بدر” کا مقام مدینہ طیبہ سے مکہ کے راستے میں اسی میل کے فاصلے پر ہے۔ رجب 2 ہجری میں حضرت محمدۖ نے عبداللہ بن حجش کی قیادت میں بارہ آدمیوں پر مشتمل ایک دستہ اس غرض سے بھیجا کہ قریش کے تجارتی قافلوں کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھے۔راستہ میں ایک قریشی قافلہ مل گیا اور دونوں گروہوں کے درمیان جھڑپ ہو گئی حرمت والے مہینے میں لڑائی کا بہانہ بنا کر قریش مکہ نے جنگ کی تیاریاں شروع کر دیں یہ فیصلہ کیا گیا ۔
اس مرتبہ جو تجارتی قافلہ شام بھیجا جائے اس کا تمام منافع اسی غرض کے لیے وقف ہوجب ابوسفیان کا مذکورہ قافلہ واپس آرہا تھا تو رسول اللہ ۖنے کفار کی تجارتی کمر توڑنے کے لئے قافلے کا راستہ روکنے کا فیصلہ کیااور صحابہ کے ساتھ نکل کھڑے ہوئے ابوسفیان کو جب اس بات کا علم ہوا تو ضمیم بن عمر غفاری کو اجرت دے کر مکہ دوڑایا کہ جاکر قریش کو اطلاع دے، کفار مکہ پورے جوش اور ساز وسامان کے ساتھ ایک ہزار جنگ جو جن میں سو گھوڑے سوار ،پیادہ فوج میں چھ سو زرہ پوش بے شمار اونٹ اور بے شمار اسلحہ کے ساتھ ابو جہل کی سرداری میں نکلے۔ ابو سفیان نے قافلہ کا رخ بدل دیا اور ساحل کے راستہ سے اسکا قافلہ بچ کر نکل گیا اور قریش کو یہ پیغام بھیجا کہ تم لوگ صرف قافلہ کے آدمیوں کو اور اپنے اموال کو بچانے کے لئے آئے تھے، ہم بچ نکلے ہیں ،لہٰذا تم سب مکہ واپس ہوجاوئوابوجہل نے کہا جب تک ہم بدر پہنچ کر تین دن تک کھا پی کر اور گا بجا کر خوب مزے نہ اڑالیں اس وقت تک ہرگز واپس نہ ہوں گے۔
جب اسلامی لشکر رَوحا پہنچا تو مخبر نے اطلاع دی کہ مکہ سے زبردست لشکر مسلمانوں سے جنگ کی غرض سے آرہا ہے ، رسول اللہۖنے مسلمانوں سے مشورہ فرمایا،صحابہ کرامنے پورے جوش وخروش کے ساتھ جنگ میں حصہ لینے پر آمادگی ظاہر فرمائی۔حضرت مقدادرضی اللہ عنہ نے کہا ۔ ہم موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ آپ اور آپ کا رب خود جاکر لڑیں، ہم تو یہاں بیٹھے رہیں گے ۔
نبی کریم ۖنے جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جوش ِایمانی کو دیکھا تو آپ کا چہرئہ چمک اٹھانبی ۖ 12رمضان المبارک 2 ہجری کو اپنے تین سو تیرہ ساتھیوں کو ساتھ لے کر میدانِ بدر کی طرف روانہ ہوئے۔ اس لشکر میں 60 مہاجرین او ر 253 انصار تھے۔یہ تین سو تیرہ تھے صرف دو گھوڑے اور ستر اونٹ تھے ،چند آدمیوں کے علاوہ کسی کے پاس زرہ بھی نہ تھی۔جب آپ ۖاپنے لشکر کو لے کر مدینہ طیبہ سے تھوڑی دور پہنچے تو آپ ۖنے نوعمر افراد کوواپس کر دیا۔ حضرت عمیر بن ابی وقاص کوجب واپسی کیلئے کہا گیا تو وہ روپڑے، نبی ۖ نے ان کا یہ جذبہ جہاد دیکھ کر انہیں اجازت عطا فرمادی لشکر 16رمضان المبارک ، 2 ہجری کو میدان بدر پہنچ گیا۔
17رمضان المبارک کی رات نبی کریم ۖنے دعائوں اور گریہ زاری میں گزاری اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلا کر فرمایا،اے اللہ ! تو نے مجھ سے جو وعدہ فرمایا ہے وہ پورا فرما اگر آج یہ مسلمان ختم ہوگئے تو پھر قیامت تک روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا۔نبی سرور دو عالمۖ دعاء کررہے تھے کہ آپ ۖکی چادر کندھو ں سے گرگئی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے چادر مبارک اٹھا کر آپ ۖکے کاندھوں پر ڈال دی اور عرض کی کہ یا رسول االلہ ! اب بس کیجئے۔ نبیۖ کی دعا سے رات کو باران رحمت کا نزول ہوا اور اللہ نے بارش برسا دی تو کفار کی طرف زمین دلدلی ہو گئی۔دستور عرب کے مطابق جب جنگ کی ابتداء ہوئی تو مشرکین میں سے عتبہ بن ربیعہ اپنے بھائی شیبہ بن ربیعہ اور اپنے بیٹے ولید بن عتبہ کے ساتھ میدانِ کارِ زار میں نکلا۔ لشکر اسلام میں سے حضرت امیر حمزہ، حضرت علی المرتضی اور حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہم، عتبہ ،ولید اور شیبہ کے مقابل ہو ئے اوریوں دست بہ دست جنگ شروع ہوئی توحضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ نے عتبہ بن ربیعہ کو واصل جہنم کردیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ولید بن عتبہ کو جہنم رسید کیا، حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ شیبہ کے ہاتھوں زخمی ہو گئے، یہ دیکھ کر شیر خدا حضرت علی المرتضی آگے بڑھے اور اپنی ضرب کے ایک ہی وار سے شیبہ بن ربیعہ بھی کو جہنم رسید کردیا تینوں مشرکین سرداروں کی لاشیں زمین پر ڈھیر پرہو گئیں۔
مشرکین کے تین بڑے سرداروںکے قتل سے ہلچل مچ گئی۔ابوجہل نے بلند آواز سے یہ نعرہ لگایا… لنالعزیٰ و لاعزیٰ لکم ،ہمارا مددگار عزیٰ ہے… ، نبی کریم ۖ نے حکم دیا کہ اس کے جواب میں یہ نعرہ بلند کریں۔اللہ مولاناولا مولا لکم…”یعنی اللہ ہمارا مددگار ہے اور اور تمہارا کوئی مددگارنہیں ہے ۔اس کے بعد گھمسان کی لڑائی شروع ہوگئی نبی اکرمۖ نے باہر نکل کر ایک مٹھی کنکروں کی اٹھائی اور لشکر کفار کی طرف پھینکی تو ساتھ ہی لشکر کفار میں بھگدڑ مچ گئی۔اللہ تعالی نے بھی فرشتوں کے لشکر مدد کے لئے اتار دئیے ،مسلمانوں کے دل مضبوط کر ئیے ان کے قدم جمادئیے ۔ ننھے مجاہدوں معوذ اور معاذ حضرت عبدالرحمن بن عوف کی نشاندہی پر ابو جہل پر ٹوٹ پڑے اور اسے زخمی کر کے گھوڑے سے نیچے گرادیااور عبد اللہ ابن مسعود نے اس کا سر کاٹ دیا۔ ابوجہل اور دیگر بڑے سرداروں کے قتل سے مکی لشکر کی ہمت ٹوٹ گئی اور وہ بھاگ نکلے اللہ نے اسلامی لشکر کو اپنی نصرت کے ساتھ فتح سے ہمکنار کر دیا ، کافروں کے ستر قتل ہوئے اور ستر قیدی بنے ۔
کفار کے مقتولین کی لاشیں رسول اللہ ۖکے حکم سے بدر کے کنویں میں ڈال دی گئیں ، مسلمانوں میں چودہ شہید ہوئے،جن میں چھ مہاجراورآٹھ انصارتھے۔ جو کفار قید ہوئے انہیں فدیہ دے کر چھوڑ دیا گیا، فدیہ کی مقدار حیثیت کے مطابق ایک ہزار درہم سے چارہزار درہم تک تھی،جو نادار تھے اور فدیہ نہیں دے سکتے تھے، وہ بلا کسی معاوضہ اور فدیہ آزاد کردئے گئے، جو لکھنا جانتے تھے انہیں دس دس بچوں کو لکھنا سکھا دینے پر آزاد کردیا گیا ۔اس غزوہ میں صحابہ نے اپنے خونی رشتوں تک کی پرواہ نہ کی اسلئے ان صحابہ کرام کی قرآن و حدیث میں بہت فضیلت آئی ہے میدان بدر میں جب جنگ زوروں پرتھی تورسول اللہ ۖ نے فرمایاآج کافروں سے لڑتے لڑتے جو بھی شہید ہوگا اللہ کی جنت اس کا استقبال کریگی،حضرت عمیراٹھے کھجوریں زمین پر پھینک دیں اورمردانہ وار لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔حضرت عوف زرہ اتار کر بہادری سے لڑے اور شہادت پائی بدری صحابہ کی جانثاری کی اور بہادری کی وجہ سے ان کو افضل ترین صحابہ اور اس میں شامل فرشتوں کو افضل ترین فرشتے کہا جاتا ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اس معرکہ کو ”یوم الفرقان” یعنی حق و باطل میں درمیان فرق کرنے والے دن کے نام سے تعبیر فر مایا ہے، یعنی یہ وہ دن ہے حق کو فتح نصیب ہوئی اور اسلام کا علم بلند ہوا۔ اللہ تعالی ہمارے پیارے پیغمبر محمد رسول اللہ ۖ اور دیگر صحابہ کرام پر کروڑوں رحمتیں و برکتیں نازل فرمائے جن کی محنتوں اور قربانیوں کی وجہ سے اللہ کا دین ہم تک پہنچا ۔
تحریر: نعیم الاسلام