تحریر : زکیر احمد بھٹی
رات بھر جاگنے کی وجہ سے اج میں دوپہر تک سویا رہا جب میرے موبائل فون پر میرے دوست ایک ڈاکٹر ساجد کی کال آئی میں نے کال ریسو کرتے ہوئے السلام و علیکم کہا اور ڈاکٹر ساجد نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اپ کے لئے ایک بری خبر ہے جیسے ہی ڈاکٹر ساجد نے مجھے یہ کہا تو میرے دل کی دھڑکن اتنی تیز ہو گئی جو میرے الفاظ سے باہر ہے مجھ سے بولنا بھی نہیں ہو رہا تھا کہ میں آگے کیا اور کیسے ڈاکٹر ساجد سے بات کروں اتنی دیر میں ڈاکٹر ساجد نے مجھے کہا کہ اپ فکر مت کرے اپ کے انکل بلکل خیر خیریت سے ہے اور ماشااللہ پہلے سے کافی بہتر ہے اب وہ جیسے ہی میں نے ڈاکٹر ساجد سے یہ الفاظ سنے تو میں حیران ہوا اور کہا کہ یار جب میرے انکل خیر خیریت سے ہے تو پھر کیا بڑی خبر ہے ڈاکٹر ساجد نے کہا کہ یار بھٹی آپ پہلے فرش ہو جاؤ پھر بتاتا ہوں میں نے کہا کہ نہیں یار ابھی بتائیے کہ آخر کیا بری خبر ہے میرے لئے مجھے حد سے زیادہ پریشانی ہو رہی ہیاور میرے دل کی دھڑکنے ہوتی جا رہی ہے پیلز یار مجھے ابھی بتائیے میرے بار بار اصرار پر ڈاکٹر ساجد نے کہا کہ یار بھٹی جب دو دن پہلے آپ میرے پاس ہسپتال آئے تھے اپنے انکل کی ایادت کرنے تو میں نے آپ کو ایک لڑکی سے ملوایا تھا جس سے آپ نے گفتگو بھی کی تھی جو آگ لگانے کی وجہ سے کافی حد تک جل گئی تھی آج دوپہر کو اس کا انتقال ہو گیا ہے جیسے ہی میں نے ڈاکٹر ساجد کی زبان سے یہ الفاظ سنے تو مجھے ایسا لگا جیسے ابھی میرے دل کی ڈھڑکن بند ہو جائے گی میری آنکھوں سے لگاتار آنسو بہنے شروع ہو گئے اور میرے دماغ میں طرح طرح کے سوالات آنا شروع ہو گئے دوسری طرف ڈاکٹر ساجد کی مسلسل آوازیں آ رہی تھی جو میں سن تو رہا تھا۔
مگر مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ میں ڈاکٹر ساجد کی کسی بھی بات کا جواب دے سکوں میرے نہ جواب دینے کی وجہ سے ڈاکٹر نے فون بند کر دیا فون بند ہونے کے بعد میں مسلسل پتہ نہیں کتنی دیر روتا رہا جب رو رو کر میری آنکھوں سے آنسو بہنا بند ہو گئے تو مجھے کچھ ہوش آیا میں نے اپنے اردگرد دیکھا تو سورج غروب ہونے کو تھا تب مجھے کچھ وقت کا اندازہ ہوا کہ شام ہو رہی ہے ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ مجھے امی جان کی آواز سنائی دی بیٹا اج تو بہت دیر تک سوتے رہے ہو طعبیت تو ٹھیک ہے میرے بیٹے کی بیٹا شام ہو گئی ہے جلدی سے اٹھ کر منہ ہاتھ دھو لو میں اپنے بیٹے کے لئے کچھ بناتی ہوں کھانے کو میں اٹھ کر باتھ روم گیا اور نہا کر جب واپس آیا تو میرے لئے کھانا تیار تھا سو میں نے تھوڑا سا کھایا ہو گا مگر دل و دماغ میں تو بس اسی بچاری لڑکی کے خیالات آ رہی تھے بار بارآخر اس کی زندگی کیوں تباہ و برباد کی گئی ہے اور مجھے اس کے ساتھ کی ہوئی ہر بار یاد آنے لگی جو اس نے میرے ساتھ کی تھی کچھ دن پہلے ہی جب میں اپنے ایک عزیز کا پتہ لینے گیا تھا ہسپتال میں جب میں نے اس سے بات کرنا چاہی پہلے تو اس نے انکار کر دیا کہ میں آپ سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی پیلز مجھے بار بار تنگ مت کرے میرے بار بار اصرار کرنے پر اور میرے دوست ڈاکٹر ساجد کے کہنے پر ہی وہ میرے ساتھ بات کرنے پر راضی ہوئی اور میں نے اسے بہت یقین دلوایا کہ میرا تعلق میڈیا سے ہے میں آپ کا نام اور شناخت کبھی بھی اوپن نہیں کروں گا۔
میں آپ پر بیتے ہوئے ظالم کو شائع کروں گا تاکہ اس معاشرے میں آگاہی پیدا ہو جس سے ہماری بہت سی بہنیوں اور بیٹوں کے گھر اور زندگیاں بچ سکتی ہے تب جا کر وہ میرے ساتھ بات کرنے کے لئے راضی ہوئی یہاں پر میں اس کا نام فرضی لکھ رہا ہوں جب شمائلہ نے اپنی بات شروع کی تو میں نے اس کی آواز کو ریکارڈ کرنا شروع کر دیا جو اسے نہیں معلوم تھا میرے خیال میں شمائلہ اپنی بات شروع کرتے ہوئے اپنے آپ کو کافی حد تک مظبوط کر چکی تھی شمائلہ نے مجھے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سر آپ جو پوچھنا چاہتے ہے پوچھ سکتے ہے میں نے شمائلہ کی بات کو کٹ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے بارے میں بتاتی رہیں اگر مجھے کچھ پوچھنا ہو گا تو آپ سے بعد میں پوچھ لوں گا شمائلہ نے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں ایک غریب فیملی سے تعلق رکھتی ہوں میں سکول سے کالج اور پھر یونورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت اختیار کر لی میری ملازمت کو تقریبا دو سال ہی ہوئے تھے کہ ہر ماں باپ کی طرح میرے ماں باپ کو بھی میری شادی کی فکر ہونے لگی اور یوں 6 ماہ کے اندر اندر میرا رشتہ ایک فیملی میں ہوگیا جب کہ ہر ماں باپ کی طرح میرے ماں باپ کی بھی یہی خواہش تھی کہ ہماری بیٹی کسی اچھے گھر میں جائے اس طرح میری شادی ایک اچھے گھر میں ہو گئی شادی کے بعد ایک سال بہت اچھا گزار پھر اللہ پاک کی رحمت سے ہمارے گھر میں اللہ پاک نے ایک بیٹا ہمیں دیا جس سے گھر والے سب ہی بہت خوش تھے وقت گذارتا گیا اور میری شادی کے تین سال بعد اللہ پاک نے ہمیں بیٹی عطائ کی جس سے مجھے تو خوشی ہوئی مگر میرے شوہر اور میری ساس کو پتہ نہیں کیا ہو گیا آئے دن جھگڑے ہونا شروع ہوگئے میرے سسرال والے سبھی مجھ سے اور میری بیٹی سے نفرت کرنے لگے جس کی مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ آخر ان لوگوں کو ہوا کیا ہے کیوں یہ لوگ ایسا کر رہے ہے۔
ایسے ہی وقت گزارتا گیا پھر ایک دن میری کزن آمنہ ہمارے گھر آئی مجھ سے ملنے تو میری ساس کہنے لگی کہ پتہ نہیں میرا بچارا بیٹا کیسے بیٹی کا بوجھ اٹھے گا ہمیں تو امید تھی کہ ہمارے گھر بیٹا ہی ہو گا اگر ہمیں پہلے پتہ ہوتا تو ہم بچی کو پیدا ہی نہ ہونے دیتے اس کے لئے ہمیں جو بھی کرنا پڑتا ہم کرتے مگر بیٹی کو کبھی پیدا نہ ہونے دیتے یہ سب سن کر مجھے اندازہ ہوا کہ یہ لوگ میرے ساتھ اتنا نفرت والا رویہ کیوں کرتے ہےمیں نے پھر بھی اللہ پاک سے دعا کی کہ یا اللہ اگر آپ نے ہمیں بیٹی کی رحمت سے نوازہ ہے تو اس بیٹی کی حفاظت بھی کرنا دن گزرتے گئیاور پھر بھی لڑائی جھگڑے روز کا معمول بن گئے کسی نہ کسی بات پر مجھے زلیل و خور کیا جاتا اب میں اپنی زندگی سے اس قدر تنگ ہونا شروع ہو گئی کہ ہر وقت ہی موت کا انتظار کرتی مگر پتہ نہیں یہ زندگی کب تک مجھے اس طرح روز زلیل کروائے گی جب بھی میرا سامنا میری ساس سے ہوتا تو میری ساس کو مجھے زلیل کرنے کا کوئی نہ کوئی موقعہ لازمی مل جاتا ایک دن کام کرتے ہوئے میرا ہاتھ سے ایک گلاس کیا ٹوٹ گیا مجھے ایسا لگا جیسے آج یہ لوگ مجھے جان سے ہی مار دہینگے اتنی باتیں کی مجھے جو میں اپنی زبان سے نہیں نکل سکتی اتنا شور سن کر ہمارے محلے والے بھی جمع ہو گئے اور میری ساس کو چپ کروانے کی بہت کوشش کی مجھے دیکھ کر بہت پریشانی ہو رہی تھی کہ آخر میری ساس کو آج ہوا کیا ہے لوگ جتنی کوشش کر رہے تھے میری ساس کی آواز اتنی ہی بلند ہو رہی تھی مجھے ڈر اس وقت زیادہ لگا جب میرے شوہر امتیاز بھی گھر آ گئے میں دل ہی دل میں دعائیں کر رہی تھی۔
اے میرے خدا سب خیر ہی کرنا آج پتہ نہیں میرے خدا کو آج کیا منظور تھا میرے شوہر نے ساری صورتحال دیکھی اور مجھے مارنا پیٹانا شروع کر دیا میں ان کے آگے ہاتھ جوڑتی رہی اور معافیاں مانگتی رہی مگر میرے شوہر کو مجھ پر ترس نہیں آ رہا تھا مجھے ایسے مارا پیٹا جا رہا تھا جیسے میں کوئی انسان نہیں جانور ہوں جب میرا سانس بند ہونا شروع ہوا تو خدا خدا کرکے میرے شوہر کو کچھ افراد نے آ کر پکڑا تو تب میری جان بچی اس پر بھی میرا شوہر خاموش نہیں رہا اسی وقت مجھے گالیاں دیتے ہوئے گھر سے باہر نکال دیا میں نے روتے ہوئے بہت بار معافیاں مانگیں کہ مجھے گھر سے نہ نکلے میرے ماں باپ کو گالیاں دیتا رہا اور کہتا رہا کہ جاوں دفعہ ہو جاوں اپنے ماں باپ کے گھر میرے گھر کو تباہ برباد کر دیا ہے تم نے میرے گھر کا کچھ نہیں چھوڑ تم نے مجھے سب کے سامنے ذلیل کرکے گھر سے باہر نکلے دیا گیا میں روتی ہوئی کسی نہ کسی طرح اپنے ماں باپ کے گھر آ گئی مجھے ایسے دیکھ کر میرے ماں باپ کو بھی دکھ درد تکلیف ہوئی وہ میں بیان نہیں کر سکتی خیر اب میں اپنے ماں باپ کے گھر تھی اور ایک بات کا میں اللہ پاک کا شکر ادا کرتی تھی اس وقت کے میرے دونوں بچے میرے ساتھ تھے کچھ دن تو ایسے ہی روتے ہوئے میرے گزر گئے پھر ایک دن میرے موبائل فون پر میرے شوہر کا میسج آیا کہ اگر تم نے نہیں آنا تو بچے واپس بھیج دو تو تمہارے لئے اچھا ہو گا ورنہ بچے تو میں حاصل کر ہی لوں گا چاہے مجھے اس کیلئے تمھاری اور تمھارے گھر والوں کی لاش سے ہی کیوں نہ گزارنا پڑے یہ تمہاری غلط فہمی ہے میرے بچوں کو تم اپنے پاس رکھ لو گی یہ میرے بچے ہے اور آج تک تیرے ماں باپ نے تمہیں کیا دیا ہے مانگ مانگ کر گزرا کرتے ہو تم لوگ تمہارے ماں باپ کے پاس ہے کیا جو وہ میرے بچوں کو دینگے اس لئے تمہاری خیریت اس میں ہے کہ میرے بچے واپس کر دو۔
میں نے بات کو ختم کرنے کے لئے آگے سے کوئی جواب نہیں دیا اور تھوڑی دیر کے بعد امتیاز نے گالیاں دیتے ہوئے فون غصے میں بند کر دیا دن سے ہفتے اور کئی ماہ گزر گئے پھر ایک دن ہمارے دروازے پر دستک ہوئی میرا چھوٹا بھائی باہر گیا تو دیکھا کہ میرے سسرال سے ایک دو بزرگ افراد آئے جن کو بھائی بھی پہچانتے تھے تو ان کو اندر بلالیا گیا السلام و علیکم حال پوچھنے کے بعد انھوں نے امی جان اور ابو جان سے میرے واپس جانے کی بات شروع ہوئی میں نے ساری صورتحال ان کو بتائی اور جو میسج مجھے امتیاز نے کیے تھے وہ بھی ان کو بتائے کہ امیتاز نے یہ میسج مجھے کیے تھے تو ان بزرگوں نے کہا کہ ہم جانتے ہے کہ بندہ جب غصے میں ہوتا ہے تو بہت کچھ بول دیتا ہے کافی دیر بات چیت کے بعد آخر کار واپس جانے پر ختم ہو گئی اور آئندہ ایسی کوئی بھی بات چیت نہ ہونے کی ساری ذمہ داری انھوں نے لی میں جانا تو کسی بھی صورتحال میں نہیں چاہتی تھی مگر اپنے ماں باپ کی عمر اور ان کے ہاتھوں کو باندھ دیکھ کر مجبوراً جانا پڑا واپس جا کر ایک دو ماہ ہی گزرے ہونگے گے کہ پھر وہی لڑائی جھگڑے شروع ہو گئے کچھ دن تو میں نے برداشت کیا پھر میں نے ایک دن ان بزرگوں کو بلاویا اور ساری صورتحال ان کو بتائی انھوں نے بھی میری ساس اور میرے شوہر کو کافی سمجھایا مگر ان لوگوں کی سمجھ میں کوئی بات آنے کو تیار ہی نہیں تھی میرے شوہر کہنے لگے یہ میرے گھر کا مسئلہ ہے بہتر یہی ہو گا کہ آپ میرے گھر کے مسئلے میں بار بار مت آئیں تو وہ دونوں بزرگ بڑے غصے میں چلے گئے اور جاتے جاتے بس اتنا ہی بول کر گئے میری ساس کو کہ آخر آپ کی بھی بیٹی ہے بہو کا نہ سہی اس کا ہی سوچ لیں اگر یہ سب کچھ آپ کی بیٹی کے ساتھ ہو تو پھر آپ لوگوں پر کیا بیتے گی اگر اللہ پاک نے آپ کو تھوڑی سی بھی عقل دی ہے تو ہماری بات کو ایک بار سوچنا اور سمجھانا بہتر یہی ہو گا کہ آپ لوگ اسے اپنی بہو نہیں بیٹی بنا کر رکھے اور وہ اتنی بات کرتے ہوئے گھر سے باہر نکلے گئے۔
دوسری طرف میری ساس پتہ نہیں کس مٹی کی بنی ہوئی تھی کسی بات کو ماننے کو تیار ہی نہیں ہو رہی تھی میں اپنے کمرے میں چلی گئی اور وہ دونوں ماں بیٹا پتہ نہیں کتنی دیر باتیں کرتے رہے رات بھر پریشانی کی وجہ سے مجھے نیند بھی نہیں آ رہی تھی میں مسلسل ایک ہی بات سوچ رہی تھی کہ پتہ نہیں اب یہ صورتحال ہے تو آگے کہ زندگی کیسے گزرے گی یہی سوچتے سوچتے پتہ نہیں کب میری آنکھ لگ گئی جب صبح میری آنکھ کھلی تو سورج کافی نکل آیا تھا میں گھر کے کاموں میں مصروف ہو گئی اتنی دیر میں کمرے سے باہر آتے ہوئے میری ساس نظر آئی اور کمرے سے باہر آتے ہوئے میرے شوہر امتیاز کو آواز دیتے ہوئے کافی غصے میں بولی امتیاز کہاں مر گئے ہو پتہ نہیں دن نکل آیا ہے اور ہم جائینگے کب اور واپس کب آئیں گےامی جان کا شور سن کر میرے شوہر کمرے سے جلدی سے باہر آ گئے اور آتے ہیں کہنے لگے وہ میں وہ میں تیار ہو رہا تھا اس لئے دیر ہو گئی امی جان خاموش رہی اور باہر کی طرف چل پڑی میرے شوہر بھی خاموش رہے اور امی جان کے پیھچے پیچھے چل پڑے میں کیچن سے یہ سب دیکھ اور سن رہی تھی میرے دماغ پہلے ہی کام نہیں کرتا تھا اور پھر یہ سوچ میرے خیالات کو بہت دور کی سوچوں تک لے گئی کہ آخر یہ دونوں ماں بیٹا گئے کہاں ہے میں یہ سب سوچ ہی رہی تھی کہ اندر سے میری بیٹی نیلم کے رونے کی آواز آئی تو میں بھاگ کر اندر گئی اور اسے چپ کروانے کے لئے سینے سے لگایا مگر وہ بھوک کی وجہ سے چپ نہیں ہو رہی تھی میں اسے گود میں ہی اوٹھا کر کیچن میں گئی کہ اسے دودھ گرم کرکے دیتی ہوں جب کیچن میں دیکھا تو دودھ بھی نہیں تھا میں نے بیٹی کو کمرے میں بیٹھ کر ہمسایوں کے ہاں گئی دودھ کا پتہ کرنے کہ آج آپ لوگوں نے ہمارے گھر دودھ نہیں دیا گھر میں مجھے مہوش ہی نظر آئی۔
جب میں نے مہوش سے پوچھا کہ مہوش آج آپ لوگوں نے ہمارے گھر کیوں دودھ نہیں دیا خیریت ہے ناں تو مہوش نے کہاں بھابھی شمائلہ بات تو کوئی نہیں امی اور ابو گھر نہیں تھے کسی کام سے صبح صبح چلے گئے ہے تو میں چاچی بشیراں کی وجہ سے دودھ دینے نہیں گئی آپ کے گھر میں نے کہاں کہ امی جان تو گھر نہیں ہے وہ اور آپ کے بھائی بھی کہیں گئے ہے باہر کام سے اتنے میں مہوش کہنے لگی کہ مجھے پتہ تھا کہ وہ آج لازمی آپی شبنم کی طرف جائنگے میں نے کہا کہ شبنم کی طرف خیر تو ہے اور یہ تم کو کیسے پتہ کہ وہ شبنم کی طرف لازمی جائینگے اتنے میں میری بات سن کر مہوش خاموش ہو گئی میں نے کہا مہوش آپ میری دوست بھی ہو اور چھوٹی بہنوں کی طرح بھی پلیز مجھے بتاوں کہ آخر بات کیا ہے میرے گھر کے بارے تو آپ کو پتہ ہی ہے اس لئے پیلز مجھے بتاوں کہ کیا ہوا ہے شبنم کو اور امی جان اور میرے شوہر کیوں گئے ہے شبنم کی طرف تو مہوش نے کہا بھابھی آپ کو پتہ ہے چاچی بشیراں کی عادت کا مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں ان کو پتہ چل گیا تو پھر چاچی ہمارا کیا حال کرے گی میں نے مہوش کی بات کٹ کرتے ہوئے کہا کہ مہوش پلیز میں آپ کے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوں مجھے بتاو ہوا کیا ہے مہوش نے میرے ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا بھابھی ایسا تو مت کرے میں بتاتی ہوں آپ کو مہوش نے کہا بھابھی آپی شبنم کی بھی اپنے شوہر سے لڑائی ہوئی ہے اور وہ کہتا کہ کہ اب میں نے اسے نہیں رکھنا اور یہ باتیں رات کو چاچی بشیراں اور بھائی امیتاز دونوں کر رہے تھے جو میں نے سنی تھی اسی لئے مجھے امید تھی کہ آج وہ لازمی جائینگے آپی شبنم کی طرف یہ بات سنتے ہی میرے دل کو پتہ نہیں کیا ہوا میں نے آگے سے مہوش کی پوری بات بھی نہیں سنی اور جلدی سے دودھ لے کر گھر واپس آ گئی۔
اور آتے ہی جلدی نیلم کے لئے دودھ گرم کرنے لگی اور میرے ذہن میں مختلف خیالات نے جنم لینا شروع کر دیا کہ امی جان اور میرے شوہر واپس آ کر شبنم کے سسرال کا بھی غصہ میرے پر ہی اتارے گے میں مسلسل اپنے راب سے یہی دعائیں کر رہی تھی کہ اللہ تعالی سب خیر ہی کرے اور شبنم کے گھر کوئی زیادہ الجھن نہ ہو مگر میرے خدا کو پتہ نہیں آج کیا منظور تھا دوپہر کا وقت تھا میرا بیٹا امجد بھی سکول سے واپس آ گیا میں نے اس کے کپڑے تبدیل کئے اور کھانے دیا تو امجد کہتا ہے ماما آج پاپا اور دادی اماں نظر نہیں آ رہے کہاں ہے میں نے پیار کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسی کام سے باہر گئے ہے بس ت?وڑی دیر کے بعد آ جائینگے امجد کھانا کھا کر فارغ ہوا تو کمپیوٹر پر گیم کھیلنے لگا گیا اور میں گھر کی صفائی میں لگ گئی ابھی گ?ر کی صفائی ہوئی ہی تھی کی باہر دروازے پر بیل ہوئی میں باہر گئی تو آگے سے میری ساس میرے شوہر اور ان کے ساتھ شبنم بھی تھی جیسے ہی میں نے شبنم کو دیکھا تو میرے دماغ کے آگے دن کو ہی تارے نظر آنا شروع ہوگئے میرے شوہر نے مجھے پکڑ کر راستے سے ایک طرف کرتے ہوئے کہا کہ جب سے یہ منحوس ہمارے گھر میں آئی ہے ہمارے گھر کو تو ایسے جیسے کسی کی نظر لگ گئی ہے اور میرے شوہر کے ساتھ ساتھ میری ساس نے بھی کوئی کمی نہ آنے دی میری بیعزتی کرنے میں میرے ماں باپ بہن بھائیوں کو گالیاں دی گئیں میری ساس نے کہا کہ جب سے یہ کنجری کنجر خاندان کی ہمارے گھر میں آئی ہے۔
ہمارے گھر کو تباہ برباد کرکے رکھ دیا ہے اس منحوس نے میری بہنوں کو وہ وہ الفاظ بولے گئے جو کسی بھی عزت دار کے لئے مرنے کا مقام ہے میری برداشت اس وقت جواب دے گئے جب میرے شوہر نے میری چھوٹی بہنوں کو گندے سے گندے الفاظ بولے میں نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا کہ پیلز جو کہنا ہے مجھے بول لیں مگر خدا کے واسطے میرے گھر والوں کو تو نہ کچھ بولے میری زبان سے اس گھر میں میرے خیال میں یہی آخری الفاظ تھے کہ میری ساس نے شبنم کو کہا کہ جاؤ اندر سے تیل لے کر آو شبنم جانے ہی لگی ت?ی کہ میرے شوہر نے اسے روک دیا اور جلدی جلدی آپ تیل لینے چلے گئے کچھ دیر تلاش کرنے کے بعد واپس آ کر کہنے لگے امی گھر میں تیل نہیں ہے میری ساس نے بڑے غصے سے میرے شوہر کو گالی دیتے ہوئے کہا کہ جا بے غیرت موٹرسائیکل سے پٹرول ہی نکل لیں میری بیٹی کا گھر اجاڑا ہے تو میں اس کنجری کا گھر بھی آباد نہیں رہنے دوں گی آج اس کو مار کر ہی سانس لوں گی اب یہ رہے گی یا میں اتنے میں میرے شوہر جو بس نام کے ہی میرے شوہر تھے پیٹرول لے کر آ گئے اور میرے اوپر ڈالنا شروع کر دیا میرے نند شبنم جلدی سے کیچن میں گئی اور ماچس لے کر آتے ہیں تلی جا کر میرے اوپر پھنگ دی جس سے میں اونچی اونچی آواز سے رونا شروع ہو گئی بچو بچو کرتی رہی مگر وہ انسان کہنے کے لائق ہی نہیں تھے انھوں نے مج?ے کیا بچنا تھا ہمارے محلے والے بھی سب اکھٹے ہو گئے مگر میری ساس کی وجہ سے کوئی پاس نہیں آیا جب تک آگ ختم ہوئی تھی تب تک بہت دیر ہو چکی تھی مجھے کوئی ہوش نہیں رہا میں زندہ بھی ہوں کہ نہیں
کہانی بیٹی زحمت تو نہیں آخری حصہ
کل رات ہی مجھے ہوش آیا ہے یہ دن کس قدر میں نے اذیت میں گزرے ہے یہ میں ہی جانتی ہوں یا میرا خدا جانتا ہے زندگی کا تو مجھے اب بھی پتہ نہیں ہے کہ میری زندگی کتنی باقی ہے کس وقت میری موت کا وقت آ جائے اگر میں کچھ سوچتی ہوں تو اپنے بچوں کے بارے میں بس میرے بعد میرے بچوں کا کیا بنے گا کیا ہو گا ان کے ساتھ میرے لئے اور بھی یہ لمحے اذیت ناک ہوتے ہے مگر ایک بات میں آپ سے کرنا چاہتی ہوں جو میرے سسرال والوں نے میرے ساتھ کیا ہے کیا وہ ٹھیک ہے آج تک کتنی بہوؤں کو زندہ جلا کر مار دیا گیا ہے کبھی کسی کو انصاف ملا ہے مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آتی جب کسی کی بیٹی آرام کرے تو وہ بیمار ہے اور اسی گھر میں جب کبھی بہو بیماری کی وجہ سے لیٹ جائے تو وہ ڈرامے باز اپنی بیٹی کو بار بار آرام کہتے ہیں کر لو اگر بہو آرام کرے تو وہ بہانے کرتی ہے میں آخر میں بس یہی کہوں گی کوئی ب?ی ماں باپ بیٹی کی پیدائش سے کبھی نہیں ڈرتے اگر ان کو کوئی خوف یا ڈر ہوتا ہے تو وہ ان کے نصیب سے خدارا اگر سب لوگ بہوؤں کو ہی بیٹیاں مان لیں تو کوئی بھی گھر برباد نہ ہو بچوں سے ان کی ماں کبھی دور نہ ہو. بچے کبھی یتیم نہ ہوں بچوں کے سر پر ہمیشہ ماں کا سایہ رہے جو دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن واپس اپنے خدا کے پاس لازمی جانا ہے اور اپنے کیے پر جواب دے ہونا ہے۔
دوستوں میں نے یہ جو لکھا ہے وہ میری برداشت سے بہت باہر ہے جب مجھے پتہ چلا کہ شمائلہ کا انتقال ہو گیا ہے وہ لمحہ میں ہی جانتا ہوں آخر میں میری ایک چھوٹی سی بیٹی کے پیار پر نظم
بیٹیاں تو پھول جیسی ہوتی ہیں
ان کو کانٹوں پر سلاتے تو نہیں
ملتی ہیں قسمت سے قسمت والوں کو
سو برا ان کو بلاتے تو نہیں
ان کو سینے سے لگا کر ہی رکھوں
اک تماشا سا بناتے تو نہیں
یہ خدا کی خاص رحمت ہوتی ہیں
یوں زکیر ان کو رلاتے تو نہیں
تحریر : زکیر احمد بھٹی