ہمیشہ سے میری یہ کوشش رہی ہے کہ میں اپنے موضوع کا جو بھی انتخاب کرو وہ نہ صرف اپنے قارئین کے علم میں اضافے کا باعث بنے بلکہ عملی، ذہنی، روحانی اور قومی وملی زندگی کو بھی جلا بخشے ۔آج کا موضوع دختر پاکستان ملک وملت کی آبرو ،ہمارے سرکا تاج ،ہمارا سرمایہ افتخار ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہیں جو عدُد ِاسلام اور دشمنان ملک وقوم کے بدترین تشدد اور انتقام کا نشانہ بنیں ۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے متعلق یہود ونصاریٰ نے من گھڑت کہانیاں بیان کرکے یہ ثابت کرنے کی سعی لا حاصل کی کہ ڈاکٹر عافیہ کا تعلق دہشتگرد تنظیم القاعدہ کے ساتھ تھا اور ان کے لیے کام کررہی تھی۔یہ ایک ایسا لا یعنی قصہ خوانی اور طویل افسانہ نگاری ہے جس کا حقیقت کے ساتھ دور دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ۔ڈاکٹر عافیہ کا تعلق ایک نہایت سلجھے ہوئے اور اسلامی گھرانے سے ہے جو صوم وصلوة کے پابند ہیں ۔آپ صدیقی فیملی سے ہیں اور یہ وہ خاندان ہے جس کا شجرہ نسب خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق سے جاملتا لہذا اسی واسطے سے یہ خاندان ”صدیقی”کہلاتا ہے ڈاکٹر عافیہ 2مارچ1972میں کراچی میں پیدا ہوئیں ۔ابتدائی تعلیم انہوں نے کراچی ہی میں حاصل کی ۔پیشے کے اعتبار سے آپ کے والدچونکہ ڈاکٹرتھے لہذا عافیہ صدیقی بھی ڈاکٹر بننے کی تمنا اپنے دل میں رکھتی تھیں۔
عافیہ صدیقی بچپن ہی سے ذہانت و فظانت اور عادات واطوار میں دیگر بچوں میں سے اپنی ایک الگ پہچان رکھتی تھیں ایک طرف عافیہ صدیقی چاہتی تھیں کہ وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے بیرون ملک جائے تو دوسری طرف ان کے والد بھی اس بات کو شدت کے ساتھ محسوس کر رہے تھے کہ ایسی خصوصیات کی حامل بچی کو یقینا ایسی تعلیم یا تعلیمات سے آراستہ کیا جائے جس سے مخلوق خدا مستفیض ہو سکے چنانچہ عافیہ صدیقی کا یہ شوق و جذبہ ،قابلیت اور والد کی خواہش بالآخر انہیں امریکہ لے گئی جہاں انہوں نے امریکا کی صف اول کی یو نیورسٹی ایم آئی ٹی سے 1995میں بیالوجی کی ڈگری امتیازی نمبروں میں حاصل کی ۔بعدازاں عافیہ صدیقی نے امریکی ریاست میسا چورس میں علم الاعصاب پر تحقیق کرتے ہوئے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کرلی ۔اپنی پی ایچ ڈی کے دوران ڈاکٹر عافیہ نے ایک پاکستانی ڈاکٹر امجد خان سے شادی کرلی جن سے تین بیٹے پیدا ہوئے پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد 1999میں ڈاکٹر عافیہ ،انکے خاوند ڈاکٹر امجد اور چند دوستوں نے مل کر بوسٹن میں ایک فلاحی ادارے ”اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف ٹریننگ”کی بنیاد رکھی اس ادارے کی صورت میں ڈاکٹر عافیہ کی وہ تمنا پوری ہوگئی جس کی خواہش وہ اپنے دل میں رکھتی تھیں۔
ادارے کا بنیادی مقصد اسلامی تعیلمات پر تحقیق ،انسانی حقوق کی بازیابی اور فلاحی کاموں میں عام لوگوں کی مدد کرنا تھا ۔ادارے نے جب کچھ شہرت پکڑی تو امریکہ ہی میں قائم ایک سعودی فلاحی ادارے ”الکُفا”کے CEOنے ڈاکٹر عافیہ سے رابطہ کیا اور مل کر فلاحی کاموں کو آگے بڑھانے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کا عہد کیا۔یہ دونوں فلاحی ادارے اسلامی وانسانی خدمات انجام دینے لگے ۔دوران خدمات ان دونوں اداروں نے بوسینیا کے مظلوم اور ستم رسیدلوگوں کی امداد کا بھی بیٹرہ اٹھایا ۔امریکیوں کو یہ بات قطعی ناگوار گزری کہ انکی ریاست کے اندر گویا ایک اسلامی ریاست قائم ہونے جارہی ہے لہذا امریکی ایجنسیوں نے انہیں مختلف حیلوں بہانوں سے تنگ کرنا شروع کردیا ۔اسی اثناء میں 9/11کا ظالمانہ وسفاکانہ خود ساختہ واقعہ رونما ہوا اور پاکستانیوں کو چن چن کر امریکا سے نکالا جانے لگا ۔یہ دونوں ادارے بھی چونکہ امریکی خفیہ ایجنسیوں کی نگاہ میں تھے اور ان پر کوئی ایکشن لینا چاہتے تھے لہذا موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے خاوند ڈاکٹر امجد خان نے ڈاکٹر عافیہ کو مشورہ دیا کہ اب ہمیں امریکا کو خیر باد کہہ دینا چاہیے اس لیے کہ حالات اب ہمارے موافق نہیں مگر ڈاکٹر عافیہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے کون سا ایسا کوئی غیر قانونی کام کیا ہے جس کا انہیں ڈر ہو،دوسری طرف وہ یہ بھی چاہتی تھیں کہ ان کے بچے یہیں پر تعلیم حاصل کریں اور پھر اپنے اس ادارے کی سرپرستی کریں مگر ڈاکٹر امجد خان انکی کسی بات سے اتفاق نہیں کر رہے تھے۔
یہ بحث اور حالات نہج تک پہنچ گئے کہ نوبت طلاق تک آن پہنچی ۔ڈاکٹر امجد اپنی اہلیہ اور بچوں کو چھوڑ کر کراچی آگئے اور ملازمت اختیار کرلی ۔چار وناچار ڈاکٹر عافیہ کو بھی پاکستان آنا پڑا اور وہ اپنی والدہ کے پاس گلشن اقبال کراچی میں رہنے لگیں ۔کچھ عرصہ کے بعد ڈاکٹر عافیہ نے راولپنڈی جانے کا قصد کیا ۔وہاں پر کوئی کام کرنا چاہتی تھیں لہذا والدہ سے اجازت لیکر وہ بچوں سمیت ایک ٹیکسی میں کراچی ائیر پورٹ کے لیے گھر سے راونہ ہوئیں مگر ائیر پورٹ تک نہ پہنچ پائیں اس لیے کہ انہیں راستے ہی میں بچوں سمیت اغوا کرلیا گیا تھا ۔چند روز تک جب عافیہ اور انکے بچوں کا کچھ اتا پتہ نہ چلا تو گھر والوں کو شدید پریشانی لاحق ہوئی ۔یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ یہ 30مارچ 2003ء کا ذکر ہے ۔ اس وقت ڈاکٹر عافیہ کی عمر صرف 30برس جبکہ بڑے بیٹے کی عمر سات سال ،اس سے چھوٹے کی چار سال اور سب سے چھوٹے بیٹے کی عمر ایک سال تھی۔
پانچ سال تک سال تک ڈاکٹر عافیہ کا کچھ پتہ نہ چلا ۔اس دوران ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور انکی والدہ اسماء صدیقی اس وقت کے وزیر داخلہ فیصل صالح حیات سے ملیں مگر انہیں تسلیوں کے سوا کچھ نہ ملا ۔یہ شور اب پورے ملک میں مچ چکا تھا اور پورے ملک کی سیاسی ومذہبی جماعتوں کے قائدین اس کا ذمہ دار حکومت اور امریکا کو قرار دے رہے تھے ۔اور پھر پہلی مرتبہ ڈاکٹر عافیہ کا ذکر امریکا کی بگرام جیل کے قیدی نمبر 650کے طور پر منظر عام پر آیا ۔والدہ اسماء اور بہن فوریہ صدیقی نے اپنی آواز بین الاقوامی سطح پر بلند کی مگر خاطر خواہ کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا ۔اس پوری تگ ودو کے دوران ڈاکٹر فوزیہ اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے چار مرتبہ ملیں ۔پہلی بار 25جنوری 2010دوسری مرتبہ یکم فروری 2010تیسری مرتبہ 7فروری 2010اور چوتھی مرتبہ5جولائی 2010اسی طرح میاں نواز شریف سے 15فروری 2010اوراسی روز ہی وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز سے بھی ملاقات کی ۔21مارچ 2010کو رحمان ملک سے 7 اکتوبر 2010مشاہد حسین سے 7فروری2010کو فاروق ستار سے ملاقاتیں کیں مگر کسی بھی طرف کوئی مثبت کاروائی دیکھنے کو نہ ملی ۔اس تمام عرصہ میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر بے پناہ تشدد کیا جاتا رہا ۔است بدترین ذہنی ٹارچر کیا گیا حالانکہ نہ تو ان کا کوئی قصور تھا اور نہ ہی انہوں نے ایسا کوئی غٰر قانونی کام کیا تھا جس کی بنا پر انہیں اس طرح کے بہیمانہ سلوک اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ڈاکٹر عافیہ کے ساتھ ایسا کیوں کیا گیا؟جیسا کہ آپ کو بتایا گیا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو کراچی سے اغوا کیا گیا مگر امریکیوں نے یہ بات پھیلائی کہ عافیہ کو صدیقی کو افغانستان سے گرفتار کیا گیا اور دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے ساتھ ملوث پائی گئی۔
یہ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے بالکل اسی طرح جس طرح 9/11کاواقعہ دنیا کا سب سے بڑا ڈرامہ تھا بلکہ ایک فلاپ ڈرامہ تھا ۔اب ہم ڈاکٹر عافیہ کی سزا کی طرف آتے ہیں جو امریکی عدالت نے ہر طرح کی اخلاقیات ،آئین وقوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے انہیں سنائی ۔ڈاکٹر عافیہ کو امریکی عدالت نے 86سال عمر قید کی سزا سنائی ۔عدالت نے سات مختلف الزامات میں ڈاکٹر عافیہ کو یہ سزا سنائی یعنی امریکی شہریوں پر قاتلانہ حملہ سزا20سال عملداروں اور اہلکاروں پر حملہ سزا 20سال حکومت اور فوج پر ہتھیار اٹھانا سزا20سال تین اہلکاروں پر حملہ سزا24سال اسلحہ کا ناجائز استعمال سزاعمر قید ۔اس طرح کل 86سال کی سزا سنا دی گئی ۔حیرت اور شرم کا مقام ہے انسانیت کے علمبرداروں پر جو ایک نازک اندام اور صرف تیس سالہ لڑکی پر ایسے گھنائونے اور شرمناک الزامات لگاتے نہیں تھکتے ۔ان الزامات پر اگر غور کیا جائے تو یوں لگتا ہے گویا کوئی گوریلاکاروائیوں کا بہت بڑا ماہر امریکیوں کے ہاتھ لگ گیا جسے ان خوفناک کاروائیوں کی پاداش میں عبرتناک سزائیں دی گئیں ۔چیئرمین سینیٹ سٹینڈنگ کمیٹی طلحہ محمود نے اپنے لائیو انٹرویو میں بہت کھل کر باتیں کیں اور بتایا کہ میں 2008میں بگرام جیل میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ملا۔اس وقت وہ شدید زخمی حالت میں تھیں اور انہیں گولیاں بھی لگی ہوئی تھیں ۔ڈاکٹر عافیہ نے مجھے بتایا کہ مجھے ایک کمرے میں بٹھا دیا گیا جس کے ساتھ ایک اور کمرہ تھا جہاں امریکی فوجی موجود تھے ،مجھے انکی باتیں کرنے کی آوازیں آرہی تھیں ۔دونوں کمروں کے درمیان بس پردہ لگا ہوا تھا ،میں پردہ ہٹا کر اس طرف گئی۔جونہی میں اس کمرے میں داخل ہوئی امریکی فوجیوں نے مجھ پر گولیاں برسادیں جس سے میں شدید زخمی ہوگئی جبکہ ڈاکٹر عافیہ کے ایک گردے کے ناکارہ ہوجانے کا خدشہ بھی تھا ۔ڈاکٹر عافیہ کی حالت دیکھی نہ جاتی تھی ۔وہ نہایت لاغر اور ذہنی طور پر شدید اضطراب کا شکار تھیں۔
طلحہ محمود نے اپنی گفتگو میں نہایت واضح طور پر کہا کہ پاکستان نے ڈاکٹر عافیہ کا مقدمہ سنجیدگی کے ساتھ لڑا ہی نہیں اور نہ ہی اس معاملے کو سنجیدگی کے ساتھ دیکھا گیا بلکہ میں تو اس بات پر حیران ہوں کہ جس وکیل صفائی کو دوملین ڈالر دئیے گئے وہ یہ بات کہہ رہا ہے کہ اس لڑکی سے غلطی سرزد ہوگئی ہے لہذا سزا کچھ کم ہو نی چاہیے ،اس کا مطلب نہایت واضح اور صاف ہے پاکستانی حکومت اور امریکی حکمران آپس میں ملے ہوئے تھے یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر عافیہ آج تک نہ تو رہا ہوسکی اور نہ ہی انکی سزامیں کوئی کمی کی جاسکی ۔اس تمام کہانی کے پیچھے اصل حقائق کیا ہیں ؟حقیقت میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی نہایت قابل نرولوجسٹ ماہر تھی اس کے علاوہ بائیوکیمسٹری پر انکی ریسرچ بہت کلاسیفائیڈ تھی ۔امریکیوں کو اس بات کا خدشہ تھا اور دکھائی دے رہا تھا کہ یہ لڑکی آگے چل کر بائیوجیکل ویپنز بنانے کی ماہر ہو سکتی ہے۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ معاملہ بالکل محسن پاکستان ڈاکٹر اے کیو خان سے میل کھاتا ہے ۔جس طرح انہیں نظر بند کرکے ہمیشہ کے لیے ناکارہ کر دیا گیا بالکل اسی طرح ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بھی ہمیشہ کے لیے منظر عام سے ہٹا دیا گیا تاکہ پاکستان کسی قسم کی ایسی ٹیکنالوجی میں آگے نہ بڑھ سکے جو امریکیوں کے مکروہ عزائم ومقاصد کی راہ میںرکاوٹ بن جائے