پٹنہ (کامران غنی) واٹس گروپ”بزم غزل” نے آن لائن بین الاقوامی مشاعرے کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے گزشتہ شب ایک شاندار بین الاقوامی موضوعاتی مشاعرے کا اہتمام کیا۔ یہ موضوعاتی مشاعرہ ”بیٹی” کے عنوان سے رکھا گیا تھا۔ مشاعرہ کی صدارت صدارتی ایوارڈ یافتہ بزرگ شاعر پروفیسر عبدالمنان طرزی نے فرمائی جبکہ نظامت کا فریضہ معروف شاعر و صحافی اور سہ ماہی دربھنگہ ٹائمز کے مدیر ڈاکٹر منصور خوشتر انجام دیا۔
مشاعرہ میں بے نام گیلانی، نصرین اظہری، جمال کاکوی، مظہر وسطوی، سنجیدہ عنبریں، ایم رضا مفتی، گلریز شہزاد، ڈاکٹر شاکر خلیق، نور جمشید پوری، احمد عثمانی، گلریز شہزاد، منصور قاسمی، نصر بلخی، ڈاکٹر آرتی، اصغر شمیم، مرغوب اثر فاطمی، رخسار ناظم آبادی، ایم آر چشتی، سید منظر زیدی، ڈاکٹر منصور خوشتر، ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی اور پروفیسر عبدالمنان طرزی نے اپنے کلام پیش کئے۔ مشاعرہ میں ہمیشہ کی طرح دنیا بھر سے باذوق ناظرین بھی شریک ہوئے۔
ان میںڈاکٹر عبد الحنان سبحانی، ڈاکٹر سید ارشد اسلم، انور آفاقی، انس عباد، ابو ریحان، انعام عازمی، فاطمہ احمد عثمانی، ڈاکٹر زرنگار یاسمین، نوشاد منظر، شاہ نواز بدر قاسمی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔
استقبالیہ کلمات ادا کرتے ہوئے پروفیسر اسرائیل رضا، سابق صدر شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ نے منتظمین بزم غزل کو اس مشاعرے کے انعقاد پر مبارکباد اور نیک خواہشات پیش کیں۔ انہوں نے کہا کہ قومی اور بین الاقوامی شہرت کے حامل متعدد شعرائے کرام کی بزم میں شمولیت سے اس کو مزید اعتبار حاصل ہوا ہے
۔پروفیسر عبدالمنان طرزی کے منظوم صدارتی کلمات اور کامران غنی صبا کے اظہار تشکر کے ساتھ دیر رات گئے مشاعرہ کامیابی کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچا۔ مشاعرہ میں پیش کئے گئے کلام کا منتخب حصہ قارئین کی خدمت میں پیش ہے:
جمال کاکوی
دوسروں کو جو فیضیاب کرے
زندگی وہ کمال ہے بیٹی
بے نام گیلانی
بیٹیوں کی زندگی ہے گلشن پر خار سی
نیک و بد کے درمیاں ہے آہنی دیوار سی
مظہر وسطوی
ہو گیا جو گھر منور بیٹیوں کی ذات سے
مجھ کو اس گھر کی چہکتی روشنی اچھی لگی
ایم رضا مفتی
باعث افتخار ہوتی ہیں
بیٹیاں تو قرار ہوتی ہیں
گلریز شہزاد
حقیقت ہے کہ دنیا کا نرالا حسن ہے بیٹی
اگر بیٹی نہیں ہوتی تو رشتے جنم کیا لیتے
سنجیدہ عنبریں
رب کی رحمت کی نشاں ہیں بیٹیاں
راحت پیغمبراں ہیں بیٹیاں
نصر بلخی
بیٹی خدا کے فضل کا حسنِ ظہور ہے
وجہ سکون قلب ہے، آنکھوں کا نور ہے
احمد عثمانی
مقام شکر ہے احمد میاں کہ بیٹیوں سے ہی
مری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، مرے دل کی حرارت ہے
اصغر شمیم
کیا کہوں حاصل بیاں تم کو
میری دنیائے شاعری ہو تم
مرغوب اثر فاطمی
ہاں وہی سبزیوں کی بکتی ہے/ہاں وہی روز ننگی ہوتی ہے /گھونٹی جاتی ہے اس کی ہی گردن/نار نفرت میں وہ جھلستی ہے
ڈاکٹر شاکر خلیق
ہم صاحب کردار ہیں، حق کی علم بردار ہیں
باطل اگر ہو سامنے ، اس کے لئے تلوار ہیں
اس مادرِ علمی کی ہم، پازیب کی جھنکار ہیں
ہر فتنہ و شر کے لئے ، فولاد کی دیوار ہیں
ملت کی ہم ہیں بیٹیاں، صغریٰ کی ہم ہیں بچیاں
ڈاکٹر منصور خوشتر
گھر ہمارے آئی اک ننھی پری
جیسے خوابوں کی ہو شہزادی کوئی
یہ محبت کا ہماری اعتبار
اس کو ہی تو کہتے ہیں فصلِ بہار
یہ شگفتہ کے چمن کی ہے کلی
آرزو کہئے دلِ منصور کی
یہ گُلستانِ وفا کی ہے بہار
سید منظر زیدی
خاص بندوں پہ کرم رب کی عطا ہے بیٹی
صحن ہستی میں سدا جلوہ نما ہے بیٹی
ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی
وہ جب ”پی” کے گھر کو چلی/ماں نے کہا/مکھن کی ڈلی/پھولوں جیسی میری بیٹی/من کے اندر آگ لگے یا/طوفانوں کے جھونکے آئیں/جیون بھر بس یاد یہ رکھنا/اچھا نہیں ہوتا/عورت کے منھ میں زباں کا ہونا
منصور قاسمی
بار جس پر گزرتی ہے بیٹی
میرے آقاۖ کی اس پہ لعنت ہے
ایم آر چشتی
دادی ماں بیوی کی صورت
رشتوں پہ قربان ہے بیٹی
رخسار ناظم آبادی
یہ وہ دھن ہے جو بڑا بوجھ ہے نردھن کے لئے
بیٹی اک بوجھ ہے ماں باپ کے جیون کے لئے
پروفیسر عبدالمنان طرزی
جان و دل کا قرار بیٹی ہے
فصل پروردگار بیٹی ہے