تحریر : ملک نذیر اعوان
قارئین محترم چند دن پہلے میں حسب معمول اخبار پڑھ رہا تھااچانک میری ایسی خبر پر نظر پڑی کہ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے قارئین بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں ایک پتھر دل ممتا نے اپنی چار بیٹیوں کو زندہ پانی کی ٹینکی کے اندر ڈال دیا۔اس کی وجہ صرف اتنی تھی کہ اس خاتون کے ہاں بیٹا پیدا نہیں ہواکیا ایسے لوگ قرآن پاک کا مطالعہ نہیں کرتے ہیں۔قرآن پاک فرقان حمید کی(سورةٰ الشوریٰ) میںارشاد باری تعالیٰ ہے(ترجمعہ)اللہ کریم جس کو بیٹے دے ،چاہے جسے بیٹیاں دے یا چاہے جس کو کچھ نہ دے یہ اللہ پاک کا اپنا اختیار ہے۔
بہت سے دانشوروں اور ڈاکٹروں کی اولاد نہیں ہے میں بھی اولاد جیسی نعمت سے محروم ہوں مگر اللہ پاک کی ذات سے مایوس نہیں ہوں اگر میری قسمت میں اللہ تعالیٰ نے اولاد لکھی ہے تو مجھے ضرور ملے گی۔لیکن آج موجودہ دور میں جس طرح ہمارے معاشرے کا کلچر بن چکا ہے کہ جس گھر میں بیٹا پیدا ہوتا ہے یہاں پر خوشیاں منائی جاتی ہیں اور مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں۔
مگر اس کے بر عکس اگر بیٹی پیدا ہوتی ہے ہم خوشی کا اظہار نہیں کرتے ہیں قارئین ہر کام میں اللہ پاک کی رضا ہوتی ہے مگر انسان کو قدر اس وقت آتی ہے جب کوئی چیز میسر نہ ہو مثال کے طور پر جن کی اولاد نہیں ہے وہ بیچارے بیٹی کے لیے بھی ترس رہے ہیںاورجس گھر میں بیٹی پیدا ہوتی ہے اللہ کریم اس گھر میں رحمتیں نازل کرتا ہے۔
قارئین میں نے اکثر اپنی زندگی میں مشاہدہ کیا ہے کہ بڑھاپے میںاپنے والدین کا بیٹیاں ہی سہارا بنتی ہیں۔ پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰۖ کا فرمان مبارک ہے کہ جس آدمی نے اپنی دو بیٹیوں کی صحیح طرح پرورش کی اور پھر انہیں اچھے طریقے سے رخصت کیا ایسا شخص قیامت کے دن اس طرح میرے قریب ہو گا جس طرح دونوں ہاتھ کی انگلیاں ایک دوسرے کے نزدیک ہیںبیٹیاں اللہ کی بہت بڑی نعمت ہیںمگر ہم ان کی قدر کریںہم اپنے بیٹوں کو تو اچھے سکول میں تعلیم دیتے ہیں لیکن اکثر والدین اپنی بچیوں کو سرکاری سکولوں میں تعلیم دیتے ہیںاور آج بھی دیہاتوں میںبچیوں کو پرائمری سے آگے تعلیم نہیں دی جاتی ہے۔
اکثر والدین اپنی بچیوں کو سلائی کا کورس کراتے ہیںبہت سے والدین کی یہ بھی خواہش ہوتی ہے کہ شادی سے پہلے ہم اپنی بیٹی کوہر کام سکھائیں تاکہ سسرال کے گھر اسے کوئی پریشانی نہ ہومگر والدین کی مساوی سوچ ہونی چاہیے وہ اپنی بیٹی کو بھی اتنی عزت دے جتنی اپنے بیٹوں کو دیتا ہے۔
لیکن آج کے موجودہ کے دور میںاگر مشاہدہ کیا جائے تو بیٹیاں بیٹوں سے بڑھ کر اپنے والدین کا بڑھاپے میں سہارا بنتی ہیں۔قارئین آخر میں میری یہ دعا ہے کہ اللہ پاک ہماری اولادوں کو اپنے والدین کا فرماں بردار بنائے اور ہر اولاد کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کا احترام کرے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر : ملک نذیر اعوان