قائد اعظم نے 17 ستمبر 1944ء کو گاندھی جی کے نام اپنے ایک خط میں تحریر فرمایا:۔
” قرآن مسلمانوں کا ضابطہ حیات ہے۔ اس میں مذہبی اور مجلسی ، دیوانی اور فوجداری ، عسکری اور تعزیری ، معاشی اور معاشرتی سب شعبوں کے احکام موجود ہیں۔ یہ مذہبی رسوم سے لے کر جسم کی صحت تک ، جماعت کے حقوق سے لے کر فرد کے حقوق تک ، اخلاق سے لے کر انسدادِ جرائم تک ، زندگی میں سزا و جزا سے لے کر آخرت کی جزا و سزا تک غرض کہ ہر قول و فعل اور ہر حرکت پر مکمل احکام کا مجموعہ ہے۔ لہذا جب میں کہتا ہوں کہ مسلمان ایک قوم ہیں تو حیات اور مابعد حیات کے ہر معیار اور پیمانے کے مطابق کہتا ہوں “۔کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ قائد اعظم نے پاکستان کی تخلیق سے پہلے ہی پاکستانی قوم کے لیے قرآن کو ضابطہ حیات منتخب کرلیا تھا لیکن ہمارے کرپٹ اور نااہل حکمرانوں نے قرآ ن سے استفادہ کرنے کے بجائے انگریز کے نو آبادیاتی نظام کو اپنے لیے منتخب کر لیا یہی وجہ ہے کہ آج بھی ہم نے غلامی کا طوق اپنے گلے سے نہیں اُتارا۔دُنیا ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے گلوبل ولیج کا روپ دھار چکی ہے ۔ سالوں کی مسافت دنوں میں، دنوں کی گھنٹوں اور گھنٹوں کی منٹوں میں بدل چکی ہے۔آئی ٹی اور ذرائع ابلاغ نے اتنی ترقی کر لی ہے کی سیکنڈوں میں تصاویر اور ڈیٹا ایک موبائل سے دوسرے موبائل اور ایک ملک سے دوسرے ملک میں موجود شخص کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ساری دُنیاقلم قرطاس کو چھوڑ کر کمپیوٹرز کی بدولت پیپرلیس انوائرمنٹ میں داخل ہو چکی ہے لیکن ہمارے ملک کا نظامِ حکومت آج بھی اٹھارہویں صدی چھوڑنے کو تیار نہیں ہے۔ کہنے کو تو ہم نے بہت ترقی کر لی ہے، اپنی ذاتی زندگی میں بھی انقلاب کی حد تک تبدیلیاں لاچکے ہیں۔ نئے نئے ماڈل کی مہنگی ترین گاڑیاں، خوبصورت بنگلے اور ولاز،قیمتی موبائل اور وہ سب کچھ جو ہماری ذاتی آسائش کے لیے جدید دور کی ڈیمانڈ ہے لیکن ہماری معاشرتی زندگی آج بھی ان تمام تر ایجادات اور مصنوعی ترقی کے باوجودماضی بعید میں دفن ہے جسے جگانے نہ جانے کون سا مسیحا آئے گا۔الیکٹرانک میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق نادرا نے سمارٹ کارڈ کی مد میں عوام سے 1500روپے فی کس وصول کر کے ٹیکہ لگایا جبکہ اس کی لاگت 750 روپے فی کس تھی۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں شناختی کارڈ کا حصول آسان بنا دیا گیا ہے اور کوئی بھی شناختی کارڈ ہولڈگزیٹڈ آفیسر کی جگہ تصدیق کر سکے گا اور شناختی کارڈ کا حصول آسان بناتے ہوئے شہریوں کو انکی دہلیز پر مہیا کیے جائیں گے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کو استعمال میں لاتے ہوئے بینکوں کی طرف سے چیک بک سے اے ٹی ایم اور اب تھمب امپریشن اکاونیٹنگ کا آغاز بلا شبہ ایک اچھا اقدام ہے لیکن عملی طور پر ہم آن لائن سعادت حسن منٹو کے افسانے “نیا ء قانون “1935کی طرح ہی ہوئے ہیں۔ ہمارے تمام حکومتی ادارے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ آن لائن خدمات سرانجام دے رہے ہیں لیکن ان کی آن لائن خدمات صرف معلومات کی حد تک ہی ہیں۔آج بھی پاکستانی شہری کو کاغذات مکمل کرنے کے ہیر پھیر میں ڈال کرذلیل و خوار کیا جاتا ہے۔یہ کیسا انگریزوں کا دیا نظام حکومت ہے کہ جہاں بچے کے پیدا ہونے پریونین کونسل یا میونسپلٹی میں اندراج ، اسکے بعد نادرا سے فارم ب ،پھر ڈومیسائل کے کھٹن مراحل طے کرانے کے بعد اٹھارہ سال کی عمر میں شناختی کارڈ بنایا جاتا ہے جسکی اب کئی اقسام متعارف کروائی جا چکی ہیں۔ ملک سے باہر جانے کے لیے پاسپورٹ درکار ہوتا ہے جو پہلے پانچ سال کے لیے جاری کیا جاتاتھا اب جسکی معیاردس سال کردی گئی ہے۔ان تمام کاغذات کی تکمیل کے مراحل طے کرنے کے لیے ایک سائل کو ذلیل و خوار کر کے ناکوں چنے چبوا دیئے جاتے ہیں۔کیا یہ بہتر نہیں کہ ان تمام دستاویزات کے بجائے ایک ہی کارڈ جاری کر دیا جائے جسکی چپ میں تمام معلومات کا انداج ہو اور آن لائن ہونے کے ساتھ ساتھ صارف کے لیے اندرون و بیرون ملک قابل قبول ہو؟اس ملک میں جہاں دیگر قباعتیں ہیں وہیں طلباء کو چونا لگانے میں بھی جمہوری حکومت پیچھے نہیں ہے۔ ایک ڈگری جو کسی تعلیمی بورڈ نے جاری کی ، وہی اب اپنی ہی جاری کی ہوئی ڈگری کی فیس لے کر تصدیق کرے گا اس کے بعدایک بند لفافے میں وہ ڈگری طالب علم انڑبورڈ چیرمین کمیٹی(آئی بی سی سی)اسلام آباد کے آفس لائے گا جوپہلے سے تصدیق شدہ ڈگر ی کو الگ سے فیس لے کرتصدیقی مہر ثبت کرے گاجس کے لیے طالب علم کو متعدد چکر لگانے پڑیں گے اور اگر ایک طالب علم ملک سے باہر پڑھنے کے لیے جانا چاہتا ہے تو گریجویشن یا اس سے بالا ڈگریوں کی تصدیق کے لیے ہائیر ایجوکیشن سے تصدیق کروا کر فارن آفس سے مجوزہ فیس ادا کرکے اسناد کی تصدیق کروائے گا تب جا کر معاملہ اپنے اختتام کو پہنچے گا۔ ذلالت کی انتہا دیکھیں کہ ایک طالب علم جس نے میڑک راولپنڈی بورڈ سے کی اور والدکی ملازمت میں ٹرانسفر کی وجہ سے ایف اے لاہور بورڈ اوربی اے اسلامیہ یورنیورسٹی بہاولپور سے کی جبکہ ایم اے سندھ یورنیورسٹی جام شورو سے کی تو ہونا تو یہ چاہیے کہ اگر اس طالب علم کو اگر ڈگریوں کی تصدیق کروانی ہے تو وہ آئی بی سی سی یا ہائیر ایجوکیشن کمیشن میں اپنی تمام اسناد جمع کروائے اوروہ یہ ڈگریاں متعلقہ بورڈزیا یورنیورسٹیوں کو تصدیق کے لیے بھجوائی جائیں اور ایک مقررہ مدت جو دس دن سے زائد نہ ہو واپس وہیں آئیں اور طالب علم کو ون ونڈو فراہمی یقینی بنائی جائے۔اگر آپ کسی تعلیمی بورڈ کا دورہ کریں توآپ حیران ہونگے کہ وہاں بورڈ کی طرف سے طلباء کو بھجوائے جانے والے اعتراضات کی وجہ سے طلبا و طالبات، مردوں اور عورتوں کا ایک جم غفیربورڈ کی دیواروں سے ٹکریں مارتے دیکھائی دینگے ۔ ہر اعتراض کو دور کرنے کے لیے فیسوں کا باقاعدہ ایک شیڈول دیا گیا ہے ۔ بورڈ آفس میں پہنچنے والے ان طلباء کا شاید قصور یہ ہے کہ انہوں نے اس مادر ملت میں تعلیم حاصل کرنے جیسا جرمِ عظیم کرنے کی سعی کی تھی۔ یہ طلباء نام نہاد آن لائن نظام ہونے کے باوجود اپنا ٹائم ، پیسہ اور ٹرانسپورٹ کی مشکلات جھیلنے کے باوجوداس عذاب سے ایک دن میں چھٹکارہ نہیں پا سکتے بلکہ انہیں ایک ہفتے بعد معاملہ حل ہونے کی نوید سنائی جاتی ہے۔
جمہوری حکومتیں اپنے شہریوں کی زندگی سہل بنانے کے دعوئے تو بہت کرتی ہیں لیکن عملی طورپرانکی کارکردگی مایوس کن حد تک ناکارہ ہے۔ عوام کو تھانے ۔کیچہری اور سرکاری دفاتر کے چکر لگوا لگوا کر یہاں تک زچ کر دیتی ہے کہ انسان قبر میں پہنچ جاتا ہے مگر اس کے خلاف مقدمہ یا کوئی دیگر معاملہ جو کسی سرکاری دفتر میں زیر سماعت ہو تا ہے وہ ختم نہیں ہوتا۔میں اپنے ملک کی عوام کی جانب سے دونوں ہاتھ جوڑ کراس ملک کے حکمرانوں سے التجا کرتا ہوں کی خدارا اس ملک کے باسیوں پر رحم کرو۔ اس ملک کے لوگوں کے حقوق کو جونکوں کی طرح چوسنا چھوڑ دو۔ کب تک ان معصوم لوگوں کے ساتھ کھلواڑ کرتے رہوں گے؟ انہیں کم سے کم جینے کا حق تو دو! میں ان تعلیم کے نام پر باجا بجانے والے سیاسی مداریوں سے بھی اپیل کرتاہوں کہ تعلیم کے نام پر ٹیکس لینا بندکرو اگر تعلیم دے نہیں سکتے تو تعلیم فری کرنے کے دعوٰے کیوں کرتے ہو؟ آئی بی سی سی جیسے نکمے اور بے کار ادارے سے اگر طلباء کی فلاح نہیں ہو سکتی تو اسے بند کردیا جانا چاہیے۔