تحریر: انجم صحرائی
جس زمانے میں نسیم لیہ بلدیہ لائبریری کے لائبریرین ہوا کرتے تھے بلدیہ لا ئبریری علم و ادب کا مرکز ہوا کرتی تھی برکت اعوان، فیاض قادری۔ امان اللہ کاظم۔ عدیم صراطی، جمعہ خان، شعیب جاذب اور منظور بھٹہ جیسے احباب سے میری ملا قا توں کی شروعات اسی لائبریری کی مر ہون منت ہیں۔ حکومت پنجاب کی جانب سے بلدیہ لائبریری کے لئے دو بار خوبصورت عمارتیں تعمیر کی گئیں پہلی عمارت لیہ بپلک سکول کے قیام کے لئے مستعار لی گئی جو واپس نہ ملی۔ لیہ پبلک سکول کا قیام ڈپٹی کمشنر احمد حسین سلیم کے زما نے میں ہوا۔
لیہ پبلک سکول کے با نیوں میں قا ضی غلام نبی نا صر ، میاں محمد بشیر ، جلال خان ایڈ وو کیٹ اور رانانذ یر احمد مجا ہد ایڈ وو کیٹ شا مل تھے لیہ پبلک سکول کا آ ئیڈ یا رانا مجا ہد کا تھا اور رانا نذیر احمد مجا ہد کو ہی لیہ پبلک سکول کے پہلے با نی پر نسپل بننے کا اعزاز حا صل ہے ۔رانانذ یر احمد مجا ہد ایڈ وو کیٹ نے اپنے دور میں لیہ پبلک سکول کو ایک ماڈل تعلیمی ادارہ بنا نے میں دن رات محنت کی رانا نذیر اور ان کے رفقائے کار کی اسی شب و روز محنت نے لیہ پبلک سکول کو لیہ کا ایک منفرد اور باوقار تعلیمی ادارہ بنا یا ۔ انتہا ئی خدا ترس ، اسلام اور پا کستان سے محبت کر نے والی شخصیت ہیں ۔ قیام پا کستان کے وقت انتہا ئی اوائل عمر میں اپنے والدین کے ہمراہ پا کستان کے لئے ہجرت کی ۔ قیام پا کستان کے لئے مہاجرین کی دی گئی قر با نیوں کے عینی شا ہد ہیں ۔ مجھے ان کا ایک طویل انٹر ویو کر نے کا اعزاز حا صل ہے اپنے اس انٹر ویو میں رانا نذیر احمد مجا ہد نے سفر ہجرت میں اپنے خاندان کے ساتھ پیش آ نے والے کئی واقعات کو بیان کیا جس سے اندازہ ہو تا ہے کہ پا کستان کتنی قیمتی سر زمین ہے کہ جس کی آزادی کے لئے ہر نسل اور ہر عمر کے مسلما نوں نے قر با نی دی ہے اپنی جاں نذر کی ہے اور اپنا خون پیش کیا ہے ۔رانا نذیر مجا ہد نے اپنے خاندان کے سفر ہجرت بارے جو یاداشتیں مجھے سنا ئیں ان میں سے ایک وا قعہ آپ کو سنا تا چلوں رانا نذیر احمد مجا ہد نے بتا یا کہ بھارت سے پا کستان آ نے والے مہاجرین کی ٹرین جب ملتان پہنچی تب وہ ریل گا ڑی کا فی دیر تک ملتان کینٹ سٹیشن پر کھڑی رہنے کے بعد مظفر گڑھ کے لئے روانہ ہو ئی میں میرے با با امی اور چھوٹا بھا ئی علیم ٹرین کی چھت پر تھے اور ہاں ایک اور مسا فر بھی تھا ہمارے سا تھ ہم سفر اور وہ تھی میری ننھی منی سی چند مہینوں کی معصوم بہن سر وری جو اماں کی گود میں دنیا و ما فیہا سے بے خبر سو ئی ہو ئی تھی جب گا ڑی ملتان سے مظفر گڑھ کے لئے روانہ ہو ئی ابا کو شدید بخار تھا۔
شام کے دھند لکے سا ئے پھیل چکے تھے ٹھنڈی ہوا نے تقریبا سبھی مسا فروں کو اپنا اسیر بنا لیا تھا لگتا تھا کہ سبھی سو گئے ہوں گے کہ اچا نک اماں کی گھبرا ئی ہو ئی آ واز سنا ئی دی “ہا ئے میری سر وری “۔ اس گھٹی گھٹی سی چیخ نے کو سبھی کو بیدار کر دیا اس وقت گا ڑی دریا ئے پنجاب کے پل سے گذر رہی تھی ہوا یہ تھا کہ جو نہی ریل گا ڑی پنجاب پل پر پہنچی اماں کو بھی اونگھ آ ئی ہو ئی تھی ریل پٹری کے جھٹکوں سے معصوم سر وری اماں کی گود سے اچھلی اور دریا میں جا گری ۔ مسا فروں کے چیخنے چلا نے پر گاڑی کو روکا گیا گاڑی دریا سے سے کا فی آ گے جا کر رکی تھی گاڑی کو واپس لا یا گیا کا فی دیر مسا فر معصوم سر وری کو ڈھو نڈتے رہے مگر سر وری کو پا نی نے نگل لیا تھا اسے نہ ملنا تھا اور وہ نہ ملی تھک ہار کے سروری کی تلاش ختم کر دی گئی اور گاڑی ایک بار پھر ماں کی خالی گود کے ساتھ اپنی منزل کی طرف روانہ ہو ئی ۔ اماں کی آ نکھیں پتھرا چکی تھیں اور ابا بخار میں جل رہے تھے جب ہم مظفر گڑھ پہنچے ۔ کا فی رات بیت چکی تھی ہم گا ڑی سے اترے اور اماں ہمیں اور اپنے بخار میں جلتے شو ہر کو لے کر سٹیشن کی عمارت کے سا منے بر گد کے درخت تلے جا بیٹھیں تھوڑی ہی گذ ری تھی کہ ابا بھی ہم سے روٹھ گئے اور اللہ کو پیارے ہو گئے۔۔۔ رانا نذیر احمد مجا ہد نے بھی وکیل بننے سے قبل پاک آ ر می میں ملازمت کی تھی لیہ پبلک سکول کے پرنسپل بنے تو پیشہ وکا لت کو خیرباد کہہ دیا ۔ ان کے کے ایک بیٹے رائو فہیم الزماں بھی پاک آ ر می سے وابستہ ہیں ۔ رائو فہیم پا ک آ رمی میں میجر جزل کے عہدے پر خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ میجر جزل رائو فہیم الزماںلیہ سے تعلق رکھنے والے دوسرے میجر جزل ہیں اس سے قبل لیہ کے میجر جزل (ر) طارق عزیز مرا نی بھی پاک آر می میں خد مات انجام دے چکے ہیں۔
ذکر ہو رہا تھا لا ئیبریری بلڈ نگ کا تو قارئین لیہ شہر میں مطا لعہ کے شا ئقین کے لئے دوسری لا ئبریری بلڈ نگ جو فیملی پارک کے ساتھ بنا ئی گئی تھی اسے بھی نظر لگ گئی اور یہ خو بصورت بلڈنگ بھی مکمل ہو نے ٹیکنیکل ایجو کیشن اینڈ وو کیشنل ٹریننگ اتھارٹی (TEVTA) کو دے دی گئی جس نے اس میں وو کیشنل ٹریننگ سنٹر قائم کر لیا اور یوں اس بلڈنگ میں بھی لا ئبریری قا ئم نہ ہو سکی لطف کی یہ بات یہ ہے کہ لا ئبریری کی اس نو تعمیر بلڈ نگ کو بھی عارضی طور پر (TEVTA) کو دیا گیا تھا مگر لا ئبریری بلڈنگ کی یہ کہا نی ہماری کتاب دوستی کا منہ بو لتا ثبو ت ہے ۔ ستر کی دہا ئی میںمحلہ لا ئبریری کا جادو بھی سر چڑھ کر بو لتا تھا ان محلہ لا ئبر یریوں میں ایک آ نہ روز کے کرا یہ پر کتا بیں لے کر پڑ ھنے والے اپنی پیاس بجھا تے تھے۔ محلہ لا ئبر یریوں مین زیادہ تر عمران سیریز اور ابن صفی کی جا سو سی کتب زیادہ ملتی تھیںمحلہ چا نڈیہ والوں میں مسعود لا ئبریری اور محلہ بیلے والا کی ریاض لا ئبریری سے تو میں نے بھی استفادہ کیا ہے۔
اس زما نے کے علمائے کرام میں جنہیں مجھے ملنے یا سننے کا اتفاق ہوا ان میں محلہ عید گاہ کے مولانا عطا ء للہ ،مو لوی غلام حسین ، مو لا نا حامد علی ،مو لانا محمود نظا می ،مو لا نا گل محمد (عر بی ما سٹر ) عبد الصمد آزاد اور مو لا نا محمد حسین تھے ۔ میرے بزر گوں کی مو لوی غلام حسین کے سا تھ خا صی عقیدت مندی تھی میرے چھوٹے دا دا ابو چوہدری محمد شریف صاحب جو ریٹائرڈ تھا نیدار تھے مو لوی غلام حسین کے مدرسہ کے با نی ارا کین میں سے تھے میں نے بھی کئی بار اپنے تایا ابو محمد حسین کے ساتھ مو لوی غلام حسین کی مسجد میں نماز جمعہ پڑھی ۔اس زما نے میں شیخ نصیر احمد پرا چہ اور چو ہدری شریف متحرک اور معروف سما جی کارکن تھے شیخ نصیر احمد پرا چہ کا جناح ویلفیئر سو سا ئٹی ایک فعال ادارہ تھا ۔ امیر محمد استرا نہ جناح ویلفیئر سو سا ئٹی کے جزل سیکریٹری ہوا کرتے تھے اس زما نے میں محکمہ خوراک کا آفس دربار عارف شہید کے قریب ہوا کرتا تھا بعد میں اس بڑے محل نما مکان میں شیخ نصیر احمد پرا چہ نے جناح ویلفیئر سو سا ئٹی کے سلا ئی کڑھا ئی سکول قا ئم کر لیا تھا ۔کل کا وہ ڈی ایف سی آ فس اور جناح ویلفیئر سو سائٹی کا وو کیشنل سکول کس حالت میں ہے ؟ اس بارے اربا ب اقتدار زیادہ جا نتے ہوں گے۔
دربات عارف شہید سے یاد آ یا اس زما نے میں دربار کے متولی میاں زاہد حسین ہوا کرتے تھے ان دموں مجھے میاں زاہد حسین کا انٹرویو لینے کا اتفاق ہوا ، یہ انٹر ویو ہفت روزہ نوائے تھل میں شا ئع ہوا تھا ۔ میاں زا ہد حسین کے آ ستا نہ میں مجھے بھی حا ضری کا موقع ملا محمد اقبال اورعبد الو حید سے بھی میری آ شنا ئی اسی آ ستانہ پر ہو ئی تھی بعد میں نہ معلوم کیسے یہ دو نوں نو جوان منشیات کے عادی ہو گئے تھے ، عبد الوحید جو کہ محلے میں رہتا تھا اور منشیات کا شکار ہو نے سے پہلے سول کورٹس میں خو بصورت تحریر کا مالک ایک قابل منشی تھا اسے منشیات کا شکار ہو نے کے بعد بہت سے میرے ہم عصر لو گوں نے انتہا ئی نا گفتہ بہہ حا لت میں پا گل بنے پھرتے دیکھا ہو گا اور انہیں یاد بھی ہو گا مجھے یاد ہے کہ میں نے کے ایل گا با کے نام کا پتھر بھی دربار عارف شہید کے آس پڑوس میں کسی گھر کے دروازے کے او پر لگا دیکھا تھا۔
آگے بڑھنے سے پہلے کچھ ذکر ہو جا ئے لیہ کے بازار میں ریڈ لا ئٹ ایریا کا ۔ جی یہ کو نہ بھی دیکھا ہم نے ہے نا عجیب اعتراف ۔ اس زما نے میںپا کستان کے دیگرشہروں کی طرح لیہ میں بھی ریڈ ایریا مو جود تھے نیاز سینما کے ساتھ شمالی گلی اور لیہ کو ٹلہ ھاجی شاہ کے درمیان ریلوے سگنل کے سا تھ یہ وہ علا قے تھے جنہیں ریڈ ایریا کہا جا تا تھا ۔ اک دن ہوا یوں کہ ہم استاد ارمان عثما نی کے حجرے سے گھر جا نے کے لئے نکلے تو ۔۔لیکن شا ئد میں پہلے آپ کو بتا چکا ہوں کہ ارمان عثما نی اپنے وقت کے بڑے شا عر تھے یہ انہی کا شعر ہے۔۔
میں اسی خیال سے آج تک اپنے دل کی بات نہ کہہ سکا
کہ وہ دردو غم سے ہے نا آ شنا کہیں مسکرا کے نہ ٹال دے
ارمان عثما نی ناز سینما کے مالک منور احمد کے دوست تھے انہیں کے ساتھ بہا ولپور سے لیہ آ ئے اور ساری زند گی نا ز سینما کے پچھواڑے میں ملحق ایک کمرے میں گذار دی ۔نہ شا دی کی اور نہ وہ شادی کے حق میں تھے شادی جیسے مقدس بند ھن بارے ان کے جو ریمارکس مجھے یاد ہیں اگر ” شب و روز زند گی “میں lلکھ دوںتو یار لوگ مجھے سنگسار کردیں گے تو بس ان سے نظریں چراتے آ گے بڑ ھتے ہیں کہ ہم جو استاد کے حجرے سے نکل کر گلی سے سٹیشن جا نے کے لئے گذر رہے تھے کہ ریڈ ایریا کی اس گلی کے ایک مکان کے باہر سر راہ پیڑھی پر بیٹھی ایک عورت نے “پا ئی جی” کہہ کے ہمیں آ واز دی ۔مو ٹی سی بڑے بڑے نین نقش والی اس لنگڑی عورت کو میں نے بار ہا دروازے پر بیٹھے دیکھا تھا اس کے ساتھ اس کی جوان بیٹی بھی رہتی تھی جس نے اپنی ناک میںسو نے کا بڑا سا “لونگ ” پہنا ہو تا تھا مگر وہ لڑ کی اپنی ماں کی طرح دروازے پر نہیں بیٹھتی تھی ۔ اس عورت کو میں نے بارہا دیکھا تھا وہ ہمیں کبھی بھی آ نکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتی تھی اور ہم بھی دانش کی جیکٹ کے سبب اپنی گردن اکڑا کے ، اپنی آ نکھیں پتھرا کے وہاں سے گذ رجاتے تھے اس نے مجھے پا ئی جی کہہ کر کیا پکارا کہ ہم تو پا نی پانی ہو گئے ۔ غصے اور دکھ کے ساتھ ہم اس کی طرف متو جہ ہو ئے تو بو لی۔۔
پائی جی ، تسی اخبار آلے ہو نا
جی ۔۔میں نے مختصر جواب دیا
میں تہا نوں ای دسناں چا ہندی آن ۔۔اس نے ٹھیٹھ پنجابی لہجے میں کہا
کیا مسئلہ ہے ؟ میں نے اپنے چٹختے اعصاب پر قابو پاتے سوال کیا مسئلہ اے ہے جی ۔۔ تسی اخبار آلے او ناں ۔۔اس نے پلکیں جھپکا ئے بغیر مجھے گھورتے ہو ئے ایک بار پھر تصدیق چا ہی ۔ہاں جی میرا تعلق اخبار سے ہی ہے کیا بات ہے ؟میں نے پو چھا تے جی میرا مسئلہ اے ہے جی ۔اک بندہ ہے ہر تیسرے چو تھے دن آ جاندا ہے کہندا ہے کہ میں اخبار آ لاں وا ۔منہ وی کالا کردا اے تے پنج رپیئے وی لے جاندا اے ۔ میں کی کراں ۔ اساں تے تنگ آ گئے آن جی اوس کو لوں ۔ اس نے ایک ہی سانس میں اپنی ساری کتھا سنا دی ۔ اس کے لہجے میںمجھے منہ کالا کرنے سے زیادہ پنج رپیئے جانے کا دکھ زیادہ محسو س ہوا ۔ اس کا مسئلہ مجھے اور زیادہ دکھی اور شر مندہ کر گیا۔میرے پو چھنے پر پا ئی جی کی اس لگتی نے اس وکھرے بندے کا جو حلیہ اور قد کاٹھ بتا یا اس سے میں اندازہ نہ کر سکا کہ وہ افلاطون کون تھا ۔میں اس کی کیا مدد کرتا لیکن یہ میرے لئے اطمینان کی بات تھی کہ اس کا مجرم ہم میں سے کو ئی نہیں تھا ۔ میں نے اسے کہا کہ اچھاپتہ کرتے ہیں میں نے اسے یہ بھی کہا کہ مرے کو مارے شاہ مدار پر عمل کر نے والا وہ جعلی صحافی اگر دوبارہ اسے تنگ کر نے آ ئے تو وہ اسے اپنے کمرے میں بٹھا کر کسی ذر یعہ سے رشید نیوز ایجنسی یا پھر استاد ارمان عثما نی کے حجرے میں اطلاع دے ہم اس کا بندو بست کریں گے ۔لیکن اس عورت نے دوبارہ ہمارے دروازے کے زنجیر عدل ہی نہیں ہلا ئی کہ ہم اس جعلساز کا بندو بست کرتے ۔ ہم اس کا مجرم تونہیں ڈھو نڈ سکے لیکن یہ واقعہ ہمیں اک نئے مو ضوع سے روشناش کرا گیا ۔ سو ہم نے بڑی محنت ،تحقیق اور دنوں خاک چھا ننے کے بعد ” لیہ کے بازار حسن ” کے عنوان سے ایک مضمون تحریر کیا جس میں لیہ کے ریڈ ایریاز میں بسنے والے خاندانوں اور عورتوں کی سچی کہا نیاں تھیں مگر وہ کسی بھی اخبار میں شا ئع نہ ہو سکی چو نکہ کو ئی بھی اس ننگی تحریر کو شا ئع کرنے پر تیار ہی نہ ہوا ۔ وہ موٹی سی لنگڑی پنجا بی عورت اور اس کی بیٹی کو لیہ کا ایک کو چوان کہیں سے بھگا کے لا یا تھا جسے ایک ریٹا ئرڈ تھا نیدار کی پشت ہنا ہی حا صل تھی اس نے اسے اور اس کی بیٹی کو بازار کی زینت بنا دیا تھا اور بعد میںاس ٹانگے والے نے ٹانگہ چھوڑ کے بو سکی کی قمیض اور سفید لٹھے کی شلوار پہن لی تھی کہ اس کا نیا کا روبار ٹانگے سے زیادہ آمد نی دینے لگا تھا اسی طرح ناز سینما کے ساتھ ریڈ ایریا والی گلی میںمقامی کنجروں کی اجارہ داری تھی جب کہ ریلوے سگنل کے ساتھ ریڈ ایریا پر ایک تپ دق زدہ چہرے والے موٹے بے ڈھبے بندے کی ٹھیکیداری تھی جو اپنے آپ کو کشمیری کہتا تھا اس نے اس بازار میں ایک ہو ٹل بھی بنایا ہوا تھا جہاں چائے کی ایک پیا لی شہر سے زیادہ مہنگی ملتی یھی۔۔ باقی اگلی قسط میں
تحریر: انجم صحرائی