تحریر :۔ انجم صحرائی
کچھ دنوں کے بعد ہم “بے روزگار اور بے روز گاری “کے موضوع پر ایک مجلس مذاکرہ 8 فروری 1977 کو بلدیہ کے جناح ہال میں منعقد کرنے میں کامیاب ہو ہی گئے۔ مجلس مذاکرہ کی صدارت اس زمانے کے اسسٹنٹ کمشنر چوہدری نذیر احمد نے کی جب کہ مہمان خصوصی فضل حق رضوی تھے۔
اس تقریب کے مقررین میں میں ظفر زیدی، فضل محمود قریشی ایڈووکیٹ، پروفیسر سعید احمد ِمہر کرم حسین لیبر آفیسر (شو گر مل لیہ) ملک غلام حیدر لنگاہ۔ محمد انور گھمن ایڈووکیٹ ، عبد الحکیم شوق اور مہر عبد القادر لو ہا نچ ایڈ وو کیٹ شا مل تھے ۔ اس زما نے میں آ ٹے کا خا صا بحران تھا تقریب ابھی جا ری تھی کہ مجھے صدر تقریب نے کہا کہ سر کا ری مصروفیات کے سبب انہیں کہیں جا نا ہے آپ مجھے تھوڑا وقت دے دیں تا کہ میں شر کا ئے تقریب سے معذرت کر کے اجازت لوں ۔ میں نے کہا ٹھیک ۔ مو قع ملتے ہی میں نے انہیں سٹیج پر آ نے کی دعوت دی مو صوف ابتدا ئی چند لفظ کہنے کے بعد بو لے آ ٹے کا بحران ہے مجھے شہریوں کی شکا یات مو صول ہو رہی ہیں میں نے یہ مسئلہ حل کر نا ہے آپ کا مو ضوع بہت اہم ہے مگر آ ٹا بھی اہم ہے اس لئے انجم صاحب آ پ اپنی بین بجا ئیں اور مجھے اپنا کام کر نے دیں ۔ اور یوں اے سی بہادر نے سنجیدہ تقریب کو اپنی شکفتہ بیا نی سے مسکراتی نششت میں تبدیل کر دیا ، مجلس مذا کرہ میں صرف ایک مقرر ایسے تھے جنہوں نے پوری تیاری کے ساتھ اپنا مقا لہ لکھا اور پیش کیا تھا اور وہ تھے پرو فیسر سعید احمد جو گورٹمنٹ کالج میں اکنا مکس کے پرو فیسر تھے۔
تقریب کے بعد پرو فیسر سعید نے اپنا وہ لکھا ہوا مقا لہ مجھے دے دیا مجھ سے زیا دتی یہ ہو ئی کہ میں نے وہ مقا لہ اپنے نام سے قو می اخبار کو بھیج دیا جو شا ئع ہو گیا ۔ مقا لہ کی اشاعت کے بعد مجھے اپنی اس دانستہ غلطی پر بہت شر مند گی ہو ئی مضمون کی اشاعت کے بعد جب میری ملا قات پرو فیسر سے ہو ئی تومیں نے شر مند گی سے اپنی اس غلطی کا اعتراف کرتے ہو ئے ان سے معا فی ما نگی تو وہ ہنس پڑے کہنے لگے کو ئی بات نہیں لیکن اگر آپ کا اپنا لکھا ہو تا تو بہت اچھا ہو تا ۔ ان کی بات میں نے اپنے پلے باندھ لی اور اس کے بعد جو بھی لکھا خود لکھا ۔ایک دن شیر محمد خان دفتر میں ایک ایسے بزرگ دوست کو لا ئے جو ایک پرا ئمری سکول کے گیٹ پر چاٹ فرخت کرتا تھا۔
میں اس بزرگ کا نام بھول رہا ہوں ۔ شیر محمد خان اور ہمارے ایک مشترکہ دوست خالق قر یشی کی گو شت کی دکان بمبئے بازار میں واقع پرا ئمری سکول کے ساتھ ہوا کرتی تھی ۔ اور یہ بزرگ دوست اسی سکول کے گیٹ پر اپنا چاٹ کا خوانچہ لگا یا کرتے تھے میجر اسحق کی مزدور کسان پا رٹی سے ان کا تعلق تھا بڑے لٹریری ،نظریا تی کا مریڈ شخصیت تھے جب ہما را ان سے تعارف ہوا تو ہم نے انہیں سٹڈی سرکل کے اجلاس میں بطور مہمان خصو صی دعوت دی اور تمام سا تھی ان کی گفتگو سے مستفیذ ہو ئے ۔ایک دن ایک دوست نے تجویز دی کہ کیوں نا تمام سفارت خانوں کو خط لکھے جا ئیں اور ان سے دریا فت کیا جا ئے کہ ان کی حکو متوں نے اپنے مما لک میں بے روز گاری کے مسئلہ کے حل کے لئے کیا اقدا مات کئے ہیں ہم اس زما نے میں تنظیم کا پندرہ روزہ خبر نا مہ بھی شا ئع کیا کرتے تھے جو سا ئکلو سٹا ئل ہو تا تھا ۔ سب دو ستوں نے اس تجویز کو منظور کر لیا ۔ سو ہم نے ایک خط تحریر کیا سب دو ستوں کو پڑھا یا جب سب نے منظور کر لیا ہم نے وہ خط تمام معروف سفارت خا نوں کو بذ ر یعہ بھجوا دیا خط میں صرف ایک سوال لکھا تھا کہ آ پ کی حکو مت نے اپنے ملک میں بے روز گاری کے خا تمہ کے لئے کیا اقدا مات اٹھا ئے ہیں ؟ یہ خط لکھے چند ہفتے گذ رے تھے کسی کا وا پسی جواب بھی ہمیں نہیں ملا تھا کہ ایک دن رشید نیوز ایجنسی پر غافل کر نا لی ملے اور کہنے لگے او بھا ئی کیا کرتے پھر رہے ہو ایجنسیاں تمہا ری تلاش میں ہیں ۔ میں نے پو چھا کیا ہوا کہنے لگے ایک ہر کارہ آ یا تھا تمہارے اور تمہاری تنظیم بارے پو چھ رہا تھا کہہ رہا تھا کہ کرا چی کے پو لیس آ ئی جی نے تمہا رے بارے رپورٹ ما نگی ہے میں ہنس دیا اور کہا کہ استاد جی خدا کا خوف کرو کیوں ہم بے روز گا روں کو ڈرا رہے ہو ۔ اور یوں بات آ ئی گئی ہو گئی۔
ایک صبح جب میں اپنے دفتر گیا تو دیکھا کہ دفتر کے اکلوتے کمرے کا تالا کھلا ہے اور اندر سامان بکھرا ہوا تشویش تو ہو ئی مگر اتنی نہیں کہ دفتر میں سانان کو نسا تھا جو چرایا جا تا ۔انہی دنوں مجھے کسی دوست کے کام کے سلسلہ میں تھانہ سٹی جا نا پڑا ۔ صدر بازار میں قائمآج کی تھا نہ چو کی عمارت میں تھا نہ سٹی ہوا کرتا تھا چوہدری وارث تھا نیدار تھے ۔ کام تو انہوں نے ہمارا فو را کر دیا ۔ مگر جب میں ان کا شکریہ کر کے جا نے لگا تو بو لے انجم صحرائی تیرے کچھ دوست آ ئے ہو ئے ہیں تمہیں ملنا چا ہتے ہیں بیٹھو تمہیں ان سے ملا تے ہیں یہ کہتے ہو ئے انہوں نے گھنٹی بجا ئی اور آ نے والے کا نسٹیبل سے کہا کہ غفار کو بلا ئو ۔ ان کی بات سن کر مجھے غا فل کر نا لی کی بات یاد آ گئی اور میں نے سو چا کہ لو جی اب کھیل شروع ہو نے والا ہے تھوڑی دیر میں ایک شخص جو سول کپڑے پہنے ہو ئے تھا کمرے میں آ یا اور مجھے اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ کیا میں نے تھا نیدار بہادر کی طرف دیکھا تو انہوں نے بھی سر کے اشارے سے اجازت دے کر آ نکھیں چرا لیں ۔ میں نے کر سی سے اٹھتے ہو ئے قدرے بلند آ واز سے اپنے سا تھی سے کہا کہ وہ چلا جا ئے اور اگر میں ایک گھنٹہ تک آ پ سے را بطہ نہ کروں تو آپ دو ستوں کو بتا دیں کہ مجھے پو لیس نے اٹھا لیا ہے یہ کہتے ہو ئے میں اس شخص کے ساتھ چل پڑا ۔ وہ مجھے تھا نے کے سا منے پو لیس ملازمین کی رہا ئش کے لئے بنی بیرک کے ایک کمرے میں لے گیا ۔ جس میں دو بچھی ہو ئی چار پا ئیوں میں سے ایک پرسفید کپڑے پہنے ہو ئے ایک شخص بیٹھا تھا میں نے اس سے ہا تھ ملا یا اور سا منے والی چا رپا ئی پر بیٹھ گیا دونوں کا رویہ پو لیس کے عام رویے سے مختلف تھا انہوں نے بتا یا کہ ان کا تعلق ملتان سپیشل برانچ سے ہے اور وہ میرے اور انجمن بے روز گا ران پا کستان بارے کچھ پو چھنا چا ہتے ہیں انہوں نے کہا کہ آپ کی Reput بہت خراب ہے آپ کی ایکٹیویٹیز بارے اوپر سے رپورٹ طلب کی گئی ہے میں نے انہیں بتا یا کہ انجمن بے روز گا ران پا کستان کو ئی سیا سی فورم نہیں ہے بلکہ سیا ست سے ماورا بے روزگاروں کی ایک تنظیم ہے جو ملک میں بڑ ھتی ہو ئی بے روز گاری حکو مت کی تو جہ مبذول کرا نے کی جدو جہد کر رہی ہے انہوں نے مجھ سے پو چھا آپ کے ممبر کتنے ہیں ۔ میں نے تھوڑی دیر سو چا اور جواب دیا کہ سب کا تو پتہ نہیں مگر ہمارے انجینئر ممبران کی تعداد 48 ہزار کے لگ بھگ ہے میرا جواب سن کر وہ بہت حیران ہو ئے کہنے لگے کہ کیا آپ ہمیں اپنے ممبر شپ فا رم دکھا سکتے ہیں میں نے کہا ہمارے ہاں ممبر شپ فارم کے بغیر ممبر سا زی ہو تی ہے وہ کہنے لگے کیسے میں نے جواب دیا جو بھی یہ سمجھتا ہے کہ بے روز گا ری ختم ہو نا چا ہیئے وہ ہما را ممبر ہے مجھے سے پو چھا گیا کہ یہ بے روزگار انجینئر ممبر کیسے بنے میں نے کہا کہ پچھلے دنوں پی پی پی پنجاب حکو مت کے ایک وزیر ڈاکٹر عبد الخا لق کا بیان شا ئع ہوا ہے کہ پنجاب میں اتنے بے روز گار انجینئر ہیں چو نکہ یہ سب بے روزگار ہیں اسی لئے ہما رے ممبر ہیں میرا جواب سن کر وہ بہت محظوظ ہو ئے میری با توں نے ما حول کو خا صا دو ستا نہ سا کر دیا وہ اس لئے کہ میں ان کی ہر بات کا تفصیلی جواب دے رہا تھا ۔ جب سوال و جواب کی نششت خا صی طو یل ہو گئی تو میں نے انہیں کہا کہ آ ئیں با ہر چلتے ہیں اور کہیں چا ئے بھی پیتے ہیں اور باقی با تیں بھی کرتے ہیں۔
وہ قدرے تامل کے بعد مان گئے اور ہم تھا نے کے قریب ہی اقبال سویٹ پر آ بیٹھے ۔ اقبال سویٹ اس زما نے میں مٹھا ئی کی ایک خو بصورت اور اچھی دکان ہوا کر تی تھی ۔ جیب میں پیسے نہیں تھے میں نے چو ہدری اقبال سے کہا کہ ڈیڑھ پا ئو گلاب جا من دے دیں اور باہر سے ڈیرھ پا ئو دودھ پتی بھی منگوا دیں ۔ تھوڑی دیر بعد ہم قیا مت کے ادھار پر مٹھا ئی کھا رہے تھے اور چا ئے پی رہے تھے ۔شپیشل برانچ کے ان دو نوں دو ستوں کا تعلق لیہ سے تھا چا ئے پیتے پیتے میں نے ایک صاحب سے پو چھا کہ ان کے کتنے بچے ہیں کہنے لگے ایک نے ایف اے کیا ہے اور دوسرا میٹرک کا سٹو ڈنٹ ہے میں نے پو چھا کہ بڑے کو ملازمت ملی کہنے لگے کہاں جی کئی بر سوں سے بے روز گار ہے ان کا یہ جواب سن کر میں نے مسکراتے ہو ئے ایک سوال اور پو چھا کہ اگر آ پ کا لڑ گا بے روز گار ہے تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وہ بے روزگار نہ رہے اور اسے روزگار ملے تو اس نے کہا کہ کون چا ہتا ہے کہ بچے بے روزگار رہیں ۔ میں نے زور سے قہقہہ مارا اور بو لا مبارک ہو آج آپ اور آپ کا بیٹا بھی انجمن بے روز گا ران پا کستان کے ممبر بن گئے ہیں ۔ اس نے مجھے ایسے دیکھا جیسے کو ئی عقلمند پا گل کو دیکھتا ہے اور یوں ہماری یہ میٹنگ ختم ہو گئی ۔اسی دور سے جڑا ایک اور واقعہ کچھ اس طرح سے ہے کہ ان دنوں ہماری راتیں پوری دنیا اور خاص طور پر پا کستان سے بے روزگاری کے بارے سو چتے اور بحث و مبا حثہ کر تے گذ ر تی تھیں اور اس ٹاک شو کے لئے ہم نے ریلوے سٹیشن کے دونوں پلیٹ فارموں کو ملا نے والے برج کو ہا ئیڈ پارک کا درجہ دیا ہوا تھا ۔ دن ڈھلے ہی ہم خا صے دوست وہاں اکٹھے ہو تے بات چیت کرتے اور رات جب بھیگنے لگتی اپنے اپنے آ شیا نوں کو لوٹ جا تے ایک دن کیا ہوا کہ سب دوست چلے گئے میں اور شیر خان میں زوروں کی بحث جا ری تھی کہ ہم با تیں کرتے کر تے وہیں برج پر سو گئے رات کو جب گلستان سینما کا شو ٹو ٹا تب ہمیں گشت پر ما مور دو پو لیس والے وہاں آ گئے انہوں نے جب ہمیں وہاں بے سدھ سو تے دیکھا پہلے تو پر یشان ہو گئے کہ یہ کون لوگ ہیں جو پینٹ شرٹ میں ملبوس سو ئے پڑے ہیں اس زما نے میں شیر خان بیل باٹم پتلون اور دھا ری دار شرٹ پہنتے تھے اور میں بھی کبھی کبھار لنڈے کے مال پر معزز بن جا یا کرتا تھا ۔ خیر انہوں نے سب سے پہلے شیر خان کو جھنجھوڑ کر جگا یا اور پو چھا کون ہو تم ؟ آ گے بھی شیر خان تھے بلا آ نکھ ملے اور کھو لے جواب دیا کہ پا کستا نی ۔ شیر خان کا یہ جواب سن کر سپا ہی خان کا فیوز اڑ گیا اور زور سے بو لا تو کیا ہم انڈ یا سے آ ئے ہیں ۔ میں نے شور سنا تو خود ہی اٹھ بیٹھا ، اپنا تعارف کرایا تب جان چھوٹی ۔ مگر صاحب ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں کے مصداق جان کہاں چھوٹی تھی ۔ہم دو نوں برج سے اترے اور صدر بازار سے ہو تے ہو ئے چوک قصا باں پہنچے۔
میں شیر خان کو خدا حافظ کہہ کر اپنے چو بارے پر چڑھ گیا ابھی میں نے دفتر کے کمرے کا دروازہ نہیں کھو لا تھا کہ اچا نک مجھے نیچے سے شور شرابے کی آ واز آ ئی مجھے لگا کہ جیسے بڑے غیض و غضب کے لہجے کے سا تھ چوک قصا باں میں شیر خان ا نقلا بی تقریر کر نے میں مصروف ہیں اور استعماری قو تیں شیر خان کی را ہیں کھو ٹی کر نے کے لئے پوری قوت سے دھمکیاں دے رہی ہیں ۔یہ شور شرا با سن کر میں نے دفتر کی دیوار سے نیچے جو جھا نکا تو عجیب منظر تھا چوک کے عین بیچ میں ایک سپا ہی اور ایک بندے نے شیر خان کو ڈو لی ڈنڈا کیا ہوا ہے اور شیرخان انقلا بی دھن مینںانہیں صلوا تیں سنا رہے ہیںجتنی دیر میں میں اوپر سے نیچے آ یا وہ لوگ شیر خان کو تھا نہ سٹی لے جا چکے تھے ، جب میں ان کے تعا قب میں وہاںپہنچا تب شیر خان نفی میں سر ہلا تے عاشق خان کا نسٹیبل کے الز مات سے انکار کر رہے تھے اور کا نسٹیبل عا شق خان مصر تھے کہ یہ بیل با ٹم پینٹ اور لمبے با لوں والا شخص انہی لو گوں میں سے ہے جنہوں نے پچھلے دنوں واپڈا ہا ئوس لا ہور میں دھما کے کئے ہیں اور تھا نے کا منشی رمضان بے چا رہ رات کے تین بجے اس نا گہا نی افتاد کے با عث نیند خراب ہو نے پر خا صا جز بز یہ کہنے ہی والا تھا کہ” چلو ملزم نوں اندر ڈھکو سویرے ویکھاں گے” کہ میں پہنچ گیا۔ باقی اگلی قسط میں
تحریر :۔ انجم صحرائی