تحریر : انجم صحرائی
پولیس نے اتنی آنسو گیس پھینکی کہ گلی کی مارکیٹ میں بند دکانوں میں بھی آنسو گیس جمع ہو گئی۔ اس آنسو گیس سے ہماری بند دکان بھی بھر گئی جس سے فاروقی کی حالت خراب ہو نے لگی اس نے مجھے کہا کہ دکان کھلواو۔ میں نے فاروقی کی بگڑتی حالت دیکھتے ہوئے درزی کو زور زور سے آوازیں دینا اور شٹر بجانا شروع کر دیا مگر درزی تو اپنی جان بچانے کے لئے کہیں اور چھپا ہوا ہو گا وہ کیسے آتا جب میری بار بار پکارنے اور شٹر بجانے پر بھی دکان کا بند دروازہ نہ کھلا تو فاروقی اپنے سینے کو ایک ہا تھ سے دبا تے ہو ئے میری طرف بڑھا اور میرا گریبان پکڑ کے ہذ یا نی انداز میں چلا یا دروازہ کھو لو۔
اوئے دروازہ کھول ۔ میں بھلا کیا کرتا میں نے ایک جھٹکے سے اپنا گریبان چھڑ وایا تو فا رو قی نے حلق سے ایک زور دار آ واز نکا لی اور نیم بے ہو شی کے عالم میں دھڑام سے زمیں پر گر پڑا ۔ میں اس کی یہ حالت دیکھ اور بھی پر یشان ہو گیا بند دکان میں بھری آ نسو گیس مجھے بھی متا ثر کر رہی تھی آ نکھوں اور ناک سے شدید جلن کے ساتھ پا نی بہنے لگا تھا ۔ میں ایک بار پھر زور زور سے چیخنے اور زور زور سے دروازہ بجا نے لگا مگر کسی نے میری آ واز نہ سنی ۔ با ہر نعرے اور آ نسو گیس کی گو لیوں کی تڑ تڑاہٹ ختم ہو چکی تھی اور اندر دکان میںفارو قی زمین پر پڑا بے ہو شی کے عالم میں لمبی لمبی سا نسیں لے رہا تھا میں نے ادھر ادھر دیکھا تو مجھے دکان میں رکھا پا نی کا کو لر نظر آ یا میں نے کو لر کے پا نی سے فا رو قی کے چہرے پر چھینٹے مارے اور اس کے منہ میں بھی کا فی سارا پا نی ڈال دیا جس سے فارو قی کسمسا یا اور اس نے آ نکھیں کھول دیں مگر بو لا کچھ نہیں اور نیم وا آ نکھوں سے مجھے دیکھتا رہا پھر میں نے اسی کے سر پر بند ھے پگڑی نما کپڑے کو لیا اور اسے کو لر کے پا نی سے گیلا کر کے اپنی آ نکھوں پر ملنے لگا یہ عمل کر نے کے بعد میری آ نکھوں اور چہرے پر جلن کا اھساس کم ہوا۔
میں ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ چیخنے اور دروازہ پیٹنے کا عمل دوبارہ شروع کروں کہ ایک دھما کے سے دکان کا شٹر اوپر اٹھ گیا ۔ دروازہ کھلتے ہی فاروقی نے چیتے کی ما نند زقند بھری اور یہ جا اور وہ جا ۔ فارو قی دوبا رہ کتا بت کے لئے واپس نہیں آ یا اور یوں وہ عظیم کتاب شا ئع نہ ہوسکی جس میں دوسرے دوستوں کے علا وہ کو ٹلہ حاجی شاہ کے سانول شاہ کا انٹر ویو اورایک تصویر بھی شا مل اشا عت ہو نا تھی اگر یہ تصویر شا ئع میری کتاب اس کتاب میں شا ئع ہو تی تو تصویر کا کیپشن یوںہو تا “انجم صحراائی پی پی پی کے سینئر راہنما سید سانول شاہ سے انٹر ویو لیتے ہو ئے “ہماری یہ کتاب تو شا ئع نہ ہو ئی مگر ہماری یہ تصویر سا نول شاہ نے اسی کیپشن کے ساتھ اپنے والد محترم حکیم فدا حسین شاہ کی کتاب” مواز نہ اقبال و غالب ” میں شا مل اشا عت کر کے ہمیں سدا کے لئے اپنی محبتوں کا اسیر کر لیا ۔چند ماہ قبل بھا گل کے معروف صحا فی صدیق پڑ ہاڑ نے ایک ملا قات میں بتا یا کہ فاروقی آج کل صاحب فراش ہے اور آپ کو یاد کررہا ہے میں اسے ملنے اس کے گھر گیا وہ خا صا کمزور ہو گیا تھا اور بہت سی بیماریوں کا شکار ۔ میں نے اسے پیشکش کی کہ وہ لیہ آ سکے تو اس کا کسی اچھے ڈاکٹر سے چیک اپ کراتے ہیں وہ اپنے بیٹے کے ساتھ لیہ آ یا اس کا چیک اپ بھی ہوا مگر صرف چیک اپ اور چند ہہمدردی کے لفظ تو ادویات کا نعم البدل نہیں بن سکتے علاج اور ادویات کے لئے پیسے کی ضرورت پڑتی ہے اور پیسہ ہی تو نہیں ہے اس ملک کے غریب لو گوں کے پاس ۔ اس کے بعد میں کبھی فاروقی سے ملنے اس کے گھر نہیں گیا ۔ مجھے نہیں پتہ کہ اب فاروقی کس حال میں ہے میں اس سے کیا ملوں سوائے چند روائتی لفظوں کے اس کے لئے میرے پاس کچھ بھی نہیں اور میںاپنے آپ کو سسکستا ، بلکتا اورلمحہ لمحہ مرتے نہیں دیکھ سکتا۔
تو بات ہو رہی تھی سردار بہرام خان سیہڑ کی ۔2 دسمبر 1988 کو بے نظیر بھٹو نے پا کستان کی پہلی خاتون منتخب وزیر اعظم کی حیثیت سے حکومت سنبھا لی اور عوام کی اقتصادی تر قی کے لئے پیپلز پروگرام کا آغاز کیا ۔سردار بہرام خان سیہڑ کو پیپلز پروگرام لیہ کا ایڈ منسٹریٹر مقرر کیا گیا ۔ ہم نے صبح پا کستان کے فورم میں سردار بہرام خان سیہڑکو بحیثیت ایڈ منسٹریٹر پیپلز پروگرام دعوت دی ۔ ایوان صبح پا کستان کی یہ تقریب مر جان ہو ٹل میں منعقد ہو ئی اور لیہ کے بیشتر سیا سی و سما جی اور علمی دانشوروں نے اس پروگرام میں شر کت کی ۔بے نظیر حکو مت کے بعد مسلم لیگ ن بر سر اقتدار آ ئی جس کے خلاف حکو مت مخا لف جما عتوں نے پیپلز ڈیمو کریٹک الا ئینس ((PDAکے نام سے ایک محاذ تشکیل دیا ۔ پی ڈی اے میں شامل قا بل ذکر سیا سی جما عتوں میں پی پی پی ،تحریک استقلال ، تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور مسلم لیگ قاسم گروپ شا مل تھیں ۔ پی ڈی اے پا کستان کے جزل سیکریٹری خور شید محمود قصوی منتخب ہو ئے جن کا تعلق تحریک استقلال سے تھا اور میں ان دنوں تحریک استقلال پنجاب کے جوا ئنٹ سیکریٹری کی حیثیت سے ذمہ داریاں ادا کر رہا تھا ۔ لیہ میں بھی پی ڈی اے کی تنظیم سازی کے لئے ایک اجلاس مرجان ہو ٹل میں منعقد ہوا جس میں ان جما عتوں کے تقریبا سبھی نمایاں اور سر گرم پارٹی عہد یداروں اور کار کنوں نے شر کت کی جس میںبالا تفاق رائے سردار بہرام خان سیہڑ کو پی ڈی اے کا ضلعی صدر اور مجھے جزل سیکرٹری منتخب کیا گیا ۔ پی ڈی اے کے پلیٹ فارم سے مجھے اور سردار بہرام خان کو بار ہا حکو مت مخالف سیاسی احتجاجی جلسوں اور ریلیوں سے اکٹھے خطاب کر نے کا موقع ملا ۔اسی تحریک کے دوران ہمیں راجن پور بھی جا نے اتفاق ہوا ۔راجن پور میں پی ڈی اے کی جانب سے یوم سیاہ کی ریلی اور احتجاجی جلسہ کا پروگرام تھا مجھے صو با ئی چیئرمین تحریک استقلال بیگم مہناز رفیع کی جانب سے ہدایت کی گئی کہ میں راجن پور میں ہو نے والے پی ڈی اے کے اس پروگرام میں تحریک استقلال کی نما ئند گی کروں ۔پروگرام سے ایک دن قبل مجھے سردار بہرام خان سیہڑ کا پیغام ملا کہ انہوں نے بھی راجن پور جا نا ہے اگر میں ان کے ساتھ جانا ہا ہوں تو ست بسم اللہ ۔ مگر میں نے معذرت کرتے ہو ئے عرض کیا کہ میں ان کا ہم سفر نہ بن سکوں گا ۔ اسی دن مجھے راجن پور سے پی پی پی کے سینئر راہنما چو ہدری سرورایڈ وو کیٹ کا بھی فون مو صول ہوا وہ پوچھ رہے تھے کہ میں کس طرح اور کتنے بجے راجن پور پہنچوں گا تاکہ راجن پور کے دوست پرو گرام کے مطا بق مجھے ریسیو کر سکیں میں نے انہیں عرض کیا کہ آپ مجھے بتا دیں کہ میں نے راجن پور کہاں آ نا ہے میں وہاں حا ضر ہو جا ئوں گا ۔میں وقت مقررہ پر راجن پور پی پی پی کے مجید مزاری کے پاس پہنچ گیا ۔ سردار بہرام خان سیہڑ کے علاوہ ملتان کے حیدر گر دیزی بھی پرو گرام میں شر کت کے لئے وہاں مو جود تھے ۔ کھانے کا انتظام سردار شو کت حسین مزاری کی طرف سے کیا گیا تھا ۔ پر تکلف کھا نے کے بعد ہم سبھی کارکن شوکت بھٹی مارکیٹ پہنچے جہاں جلسہ کا اہتمام کیا گیا تھا ۔ مقررین کی تقریروں کے علا وہ اس جلسہ کی خاص بات جام پور کے ایک شا عر کی طرف سیپڑھی جا نے والی وہ انقلا بی نظم تھی جس کا ایک شعر مجھے یاد ہے
نہ لغاری رہے نہ مزاری رہے
جنگ جاری رہے جنگ جاری رہے
جلسہ عام کے بعد احتجا جی ریلی نکا لی گئی جو راجن پور کے صدر بازار میں اختتام پذ یر ہو ئی ۔ رات گئے جب ہماری واپسی ہو ئی تب میں سردار بہرام خان سیہڑ کا ہم سفر تھا ۔ دوران سفر سارا وقت وہ بڑے اپ سیٹ رہے انہیں مزاری اور لغاری کے خلاف اعلان جنگ کرنے والے جام پور کے اس شا عر سے بڑی شکا یت تھی جس نے مزاری کے گھر کھانا کھا نا کر انہی کے خلاف نظم پڑھی تھی ۔ بہرام خان کا موقف تھا کہ یہ کتنا بڑا تضاد ہے اگر یہ مزاری اور لغاری نہ ہوں تو یہ کھانے ، یہ بسیں اور سیاست کے یہ اخراجات کون برداشت کرے راجن پور سے لیہ تک سردار بہرام خان کی گفتگو کا مر کزی محور یہی رہا میں سنتا رہا اور میں خا موش رہا اس لئے کہ ان کی اس بات میں سچا ئی تھی کہ وڈیروں کے ہما چوں پر بیٹھ کر مرغ مسلم کھا کے جا گیرداری نظام کے خلاف انقلا بی نظمیں پڑ ھنے اور سننے والے صرف ایک مذاق ہی تو ہیں۔
سردار بہرام خان سیہڑ کی وفات کے بعدپی پی پی کے سر گرم جیالے آج کے قا ضی احسان اللہ خان ایڈوو کیٹ جو ان دنوں احسان دانش کے نام سے صبح پا کستان کی ٹیم میں شا مل تھے نے مشورہ دیا کہ کہ صبح پا کستان کے زیر اہتمام مرحوم سردار بہرام خان سیہڑکی سیاسی خد مات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ایک تعزیتی ریفرنس منعقد کیا جا ئے سو ہم نے بلدیہ جناح ہال میں منعقد ہو نے والے اس تعزیتی ریفرنس کی تقریب کے لئے مقررین اور سا معین کو دعوت نا مے جاری کر دیئے ۔ تقریب کے انعقاد سے شائد دو دن پہلے دو پہر کا وقت تھا کہ دفتر ضلعی زکواة عشر کمیٹی کا ایک اہلکار صبح پا کستان کے دفتر آ یا اور مجھے کہا کہ سردار شہاب الدین خان سیہڑ آپ کوضلعی زکواة عشر کمیٹی کے دفتر میں بلا رہے ہیں اس زما نے میں ممتاز رسول خان ایڈ وو کیٹ زکواة عشر کمیٹی کے ضلعی چیئر مین تھے میں جب وہاں پہنچا تو دفتر میں ممتاز رسول خان اور سردار شہاب الدین خان سیہڑ کے ساتھ ہمارے ایک سینئر صحافی بھی مو جود تھے سلام دعا کے بعد شہاب خان کہنے لگے کہ آپ میرے والد محترم سردار بہرام خان سیہڑ مرحوم بارے تعزیتی ریفرنس کر رہے ہیں یہ میرے اور میرے اہل خا نہ کے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے لیکن آپ جا نتے ہیں کہ میرے والد محترم پیپلز پاٹی کے با نی ارکان میں سے تھے ان کی پا ر ٹی کے لئے بہت قر با نیاں ہیں اسی لئے میں چا ہتا ہوں کہ ان کا تعزیتی ریفرنس ان کے شان شایان منعقد کیا جا ئے ہم مرحوم سردار بہرام خان کے تعزیتی ریفرنس کی صدارت کے لئے فاروق خان (فاروق لغاری جو ان دنوں صدر مملکت تھے ) کو بھی دعوت دے سکتے ہیں ۔ یہ سب میں ارینج کروں گا اور تعزیتی ریفرنس صبح پا کستان کے پلیٹ فارم سے ہی منعقد ہو گا لیکن آپ یہ کل ہو نے والی تعز یتی تقریب منسوخ کر دیں ۔ مجھے سردار شہاب خان کی یہ بات سن کر بڑی حیرانی ہو ئی وہ اس لئے کہ نہ تو میں پی پی پی کا عہدیدار یا کارکن تھا اور نہ ہی ہم نے اس تقریب کے انعقاد کے لئے سیہڑ فیملی سے کو ئی تعاون ما نگا تھا لیکن میں نے اپنی حیرانی کا اظہار کئے بغیر شہاب خان سے یہ کہتے ہوئے کہ یہ تعزیتی ریفرنس صبح پا کستان کی تقریب ہے ہم اس تعزیتی ریفرنس کے دعوت نا مے تقسیم کر چکے ہیں علا قائی سیاسی و سما جی مقررین کو بھی دعوت دے چکے ہیں اس لئے اس مر حلے پر اس تقریب کی منسو خی نا ممکن ہے معذرت کر لی وہاں موجود سبھی دوستوں نے مجھے سمجھا نے کی کو شش کی مگر مجھے ان کی بات سمجھ نہ آئی اور یوں یہ تعزیتی ریفرنس پروگرام کے مطابق منعقد ہوا ۔ اور اس تقریب کی انفرادیت یہ تھی کہ اس تعزیتی ریفرنس میں پی پی پی سمیت سبھی سیاسی جما عتوں کے مقا می راہنما ئوں نے نہ صرف شرکت کی بلکہ ایک سیا سی کارکن ہو نے کے نا طے سردار بہرام خان سیہڑ کی شخصیت اور خدمات کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین بھی پیش کیا۔۔ با قی اگلی قسط میں
تحریر : انجم صحرائی