تحریر: عمران چنگیزی
14 فروری یعنی ویلنٹائن ڈے کوہر سال محبت کرنے والے یومِ اظہارِ محبت کی حیثیت سے مناتے ہیں۔ بالخصوص مغربی ممالک میں یہ دن بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے لیکن اسلامی ممالک میں اِس کا کوئی رواج نہیں ہے۔ سب ممالک میں یہ دن مختلف طریقوں سے منایا جاتا ہے اور بعض ممالک بالخصوص ایشیائی اور مسلم ممالک میں اِس دن کو برا سمجھا جاتا ہے ! یہاں تک کہ ہندوستان میں جہاں ویلنٹائن ڈے نوجوانوں میں مشہور ہوتا جا رہا ہے، ہر سال دائیں بازو کے سخت گیر ہندو کارکن محبت کے اِیسے جوڑوں کے خلاف دھمکیاں دیتے رہے ہیں۔
حالیہ برسوں میں ویلنٹائن ڈے کا تہوار تیزی سے مقبول ہواہے۔چند عشرے پہلے تک جنوبی ایشیا ءمیں یہ نام بھی شاید کم ہی لوگ جانتے تھے، مگر اب ویلنٹائن کے موقع پر پاکستان تک کے اکثر شہروں میں پھول ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔ برطانیہ میں یومِ ویلنٹائن کو مقبولیت سترہو یں صدی عیسوی میں ملی۔ اٹھارویں صدی کے وسط تک دوستوںاور محبت کرنے والوں کے درمیان ا±س دن ہر پیغامات کا تبادلہ عام ہوگیا۔اِس صدی کے اختتام تک ویلنٹائن ڈے کے طباعت شدہ کارڈز سامنے آگئے جو جذبات کے اظہار کا آسان ذریعہ بنے۔یہ برطانیہ کا وہ دور تھا جب عورتوں مردوں کا گھلنا ملنا زیادہ اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔امریکیوں میں بھی ویلنٹائن ڈے کے پیغامات کا تبادلہ اٹھارویںصدی میں شروع ہوا۔ ویلنٹائن ڈے پر مختلف طرز کے تحفے دینے کا رواج ہے۔ا ِن تحائف میں پہلی بار جو تحفہ سامنے آیاوہ نقش ونگار والی پیپرلیس تھی جس کو امریکہ میں تیار کیا گیا تھا۔اِس کے بعد بر طانیہ میں ویلنٹائن ڈے کارڈ کا رواج عام ہوا۔
امریکن گریٹنگ کارڈ ایسوسی ایشن نے اندازہ لگایا ہے کی دنیا بھر میں اِ س دن تقریباََ ایک ارب کارڈ بھیجے جاتے ہیں اور اِسی لحاظ سے یہ دوسرا بڑا دن ہے جس دن اتنے کارڈ بھیجے جاتے ہیں۔دنیا میں سب سے ذیادہ کارڈ کرسمس پر لوگ ایک دوسرے کو بھیجتے ہیں۔ ایسوسی ایشن نے ایک اور اندازہ لگایا ہے کہ 85 فیصد عورتیں ویلنٹائن کی چیزیں خریدتی ہیں۔ا±نیس ویں صدی میں ہاتھوں سے لکھے گئے خطوط اِس دن بھیجنے کا رواج تھا جس نے بعد میں گریٹنگ کارڈ کی شکل اختیار کرلی۔ یوم ِویلنٹائن اب ایک جشن ہی نہیں بلکہ بہت بڑے کاروبار کا دن بھی ہے۔رواں سال کینیا ، بھارت اور دیگر ممالک سے لاکھوں ڈالر کے سرخ گلاب برطانیہ پہنچے ہیں۔بیس ویں صدی میں امریکہ میں کارڈز کے ساتھ ساتھ مختلف تحائف بھی بھیجے جانے لگے جو کہ عموماََ مرد عورتوں کو بھیجتے تھے۔ اِن تحائف میں سرخ گلاب کے پھول اور چاکلیٹ جن کو دل کی شکل کے ڈبوں میں رکھ کر سرخ رنگ کے ربن کے ساتھ سجایا جاتا ہے شامل ہیں۔ ویلنٹائن ڈے والے دن ہیر ے کے جواہرا ت بھی تحفے میں دیئے جاتے ہیں۔ امریکہ کے بعض ایلیمنٹری اسکو لوں میں طلبہ سے اپنی جماعتوں کو سجانے کیلئے اور اپنی جماعت میں موجود تمام ساتھیوں کو ویلنٹائن کارڈ یا تحفہ دینے کیلئے کہا جاتا ہے۔برطانیہ سے رواج پانے والے اِس دن کو بعد میں امریکہ اور جرمنی میں بھی منا یا جانے لگا۔ تاہم جرمنی میں دوسری جنگِ عظیم تک یہ دن منانے کی روایت نہیں تھی۔ دوسرے ممالک میں یہ دن مختلف طریقوں سے منایا جاتا ہے۔ برطانیہ میں ویلنٹائن ڈے کو علاقائی روایات مانا جاتا ہے۔
نور فولک میں ”جیک“ نامی ایک کریکڑ گھروں کے پچھلے دروازوں پر دستک دتیا ہے اور بچوں کیلئے دورازے پر ٹا فیاں اور تحالف چھوڑ جاتا ہے۔ویلز میں بہت لوگ اِس دن کی جگہہ 25جنوری کو سینٹ ڈائینونز ڈے مناتے ہیں۔فرانس روایتی طور ہر ایک کیتھولک ملک ہے، یہاں ویلنٹائن ڈے کو” سینٹ ویلنٹین“ کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہاں یہ دن مغربی ممالک کی طر ح ہی منا یا جاتا ہے اور سپین میں بھی یہ دن دوسرے مغربی ممالک کی طرح منایا جاتا ہے۔ڈنمارک اور ناروے میں یہ دن بڑے پیمانے پر نہیں منایا جایتا مگرکئی لوگ اِس دن اپنے ساتھی کے ساتھ رومانوی ڈنر پرجا تے ہیں اور ایک دوسرے کو کارڈز اور تحائف دیتے ہیں۔ سویڈن میں اِس دن کو ” آل ہارٹس ڈے“ کہا جاتا ہے اوریہاں یہ دن پہلی بار1960 میں منایا گیا جس کی بنیاد فلاور انڈسٹر ی نے رکھی تھی۔فن لینڈ میںاِس دن کو”فرینڈ ڈے“کہا جاتا ہے اور اِس دن کو خاص دوستوں کیلئے اور ا±ن کی یاد میںمنایا جاتا ہے۔ سلوانیا اور رومانیا میں یہ دن عام مغربی ممالک کی طرح منایا جاتا ہے۔ اور اِس دن روایتی طور پر چھٹی ہوتی ہے۔
برازیل میں اکیس جون کو” بوائے فرینڈ ڈے“ منایا جاتاہے اور اِس دن جوڑے آپس میں چاکلیٹ ، تحائف، کارڈز اور پھولوں کا تبادلہ کرتے ہیں۔ جاپان ، چین، کوریا اور دوسرے ایشیائی ممالک میں بھی یہ دن منایا جاتا ہے اور اِس دن تحائف، کارڈز اور خاص طور پر ایک دوسرے کو سر خ گلاب تحفے اور محبت کی نشانی کے طور پر دئیے جاتے ہیں۔ بھارت میں بھی اِس دن کو بہت جوش وخروش سے منایا جاتا ہے۔ کئی بھارتی تنظیمیں اِس دن کو منانے کے خلاف ہیں۔
کئی ممالک میں اِس دن کو منانے پر پابندی ہے جن میں ایران، سعودی عرب اور دوسرے کئی ممالک شامل ہیں۔ سعودی عرب میںویلنٹائن ڈے پر تحائف کے طور پر دی جانے والی چیزوں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔پاکستان میں بھی یہ دن منانے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ ٹی وی چینلز پر اِس دن کی خصوصی نشریات دکھائی جاتی ہیں۔ ایک دوسرے کو تحائف دینا، تفر یحی مقامات پر جانا اور کھانے کی دعوت دینا اِس دن کی مناسبت سے عام ہے۔پہلے محبت قربانی کا جذبہ مانگتی تھی، اب خرچہ مانگتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اِسے بھر پور اندازا میں منانے والے اِس بات سے لاعلم ہیں کہ اِسے کیوں منایا جاتا ہے۔ اِس دن شہر کی سڑکوں پر عجیب و غریب مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ پھولوں کی دکانوں سے پھول اچانک غائب ہوجاتے ہیں، بس اسٹاپ پر منچلے لڑکے لڑکیوں سے چھیڑ خانی کرتے اور پھول پھینکتے ہوئے دکھا ئی دیتے ہیں جب کہ تما م پارکوں میں نوجوانوں کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے اور اِس دن کے لحاظ سے لڑکیوں نے سرخ لباس زیبِ تن کئے ہوتے ہیں تاکہ اِس دن بھر پور انداز میں لطف اندوز ہوا جاسکے۔ اِب یہ ایک فیشن بن گیا ہے اور پاکستان میں ہرکوئی اِس فیشن کو اپنانے کے لئے سرگرداں ہے۔
ویلنٹائن ڈے کیا ہے یہاں اِس کا ذکر انتہائی ضروری ہے ۔بہت سے لوگ اِسے ایک مغربی رسم قرار دیتے ہوئے مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں جبکہ بہت سوں کا خیال ہے کہ جب ہم جنگیں لڑنے کے دن منا سکتے ہیں تو سال میں ایک دن باہمی محبت کے نام کیو ں نہیں کرسکتے؟۔ ہمیں مغربی انداز پسند نہیں تو اِپنی مذہبی ومعاشرتی اقدار میں رہتے ہوئے بھی ہم ”یومِ محبت“ منا سکتے ہیں۔لیکن ایک سوچ یہ بھی ہے کہ ہم جتنے پیسے اِس قسم کی سر گرمیوں پر خرچ کرتے ہیں اگر وہی رقم کسی ضرورت مند کو دے دیں تو کیا زیادہ مناسب نہیں ہوگا؟ ویلنٹائن ڈے کا مطلب ہے اپنے محبوب کو تحفہ دینا اور محبت نبھانے کا عہد کرنا۔ ویلنٹائن ڈے پر تحقیق کرنے سے پتہ چلا کہ یہ صدیوں پرانی روایت ہے مگر وقت گزرنے کے سا تھ ساتھ اِب یہ جدید شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ جب سے کمیونیکیشن نے فاصلے کم کرنے شروع کیئے ہیں ایک علاقے کے رسم و رواج دوسرے علاقوں میں تیزی سے پہنچنا شروع ہوگئے ہیں۔ ٹی وی، ڈش، کیبل اور انٹرنیٹ نے اِب گھر کا کوئی فرد ایسا نہیں چھوڑا جو دوسرے خطوں کے رسم ورواج سے متاثر نہ ہواہو۔ انڈیا کی ثقا فت کی پاکستان پر یلغار سب کے سامنے ہے۔
ویلنٹائن ڈے بھی عاشقوں کیلئے ایک نعمت بن کر واردہوا ہے۔ اِب آپ جس سے محبت کرتے ہیں مگر اِب تک اظہار کرنے کی جرات نہیں کر پائے ا±سے صرف پھول یا پھر ایک سستا سا کارڈ بھیج کر اپنے دل کی آواز ا±س تک پہنچا سکتے ہیں۔آگے آپ کے محبوب کی مرضی ہے کہ وہ بہت ساری آفروں میں سے کس کی آفر قبول کرتا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ہم نے ویلنٹائن ، بسنت اور ہندوانہ طرز کی شادی کی رسومات کو تو بہت آسانی سے اپنا لیا مگر یورپ اور ہندوستان کے اچھے ا±صولوں کو نہیں اپنایا۔ ویلنٹائن ڈے کو عاشقوں یا محبت کرنے والوں کا دن کہا جاتا ہے۔
یہ دنیا کے قدیم ترین تہواروں میں سے ایک ہے۔ کہتے ہیں کہ پہلا ویلنٹائن 498 عیسوی میں روم میں منایا گیا تھا یعنی 15 سو سال سے بھی زیادہ پہلے مگر محبت کی تاریخ اس سے بھی زیادہ پرانی ہے۔ اتنی ہی پرانی جتنا کہ آدم و حوا اگر محبت نہ ہوتی تو دنیا میں اولاد آدم بھی نہ ہوتی۔ مگر محبت ہے کیا؟ شاعر اور ادیب اسے سب سے لطیف اور پاکیزہ جذبہ قراردیتے ہیں۔ دنیا بھر کے اوب و فن میں جتنا کچھ اس پر تخلیق کیا گیا ہے، اس کا عشرعشیر بھی کسی اور موضوع کے حصے میں نہیں آیا۔ سائنس دان کہتے ہیں کہ محبت کا جذبہ کرہ ارض کے ہر ذی روح مخلوق میں موجود ہے۔
طبی ماہرین کا کہناہے کہ محبت دماغ کے ایک مخصوص حصے میں رونما ہونے والی کیمیائی تبدیلی ہے۔ یہ اس تبدیلی کے متشابہ ہے جو کوئی نشہ آور چیز کھانے سے دماغ میں پیدا ہوتی ہے۔ طب یونانی میں اسے دیوانگی قراردیتے ہوئے اس کا علاج تجویز کیا گیا ہے۔ نفسیاتی ماہرین محبت کو عورت اور مرد کے درمیان ایک دوسرے کے لیے موجود فطری کشش کا نام دیتے ہیں۔ ان کا کہناہے کہ ماو¿ں کواپنے بیٹوں سے، بہنوں کو اپنے بھائیوں سے اور بیٹیوں کو اپنے والد سے زیادہ پیار ہوتا ہے۔ سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ صنف مخالف سے محبت کے سوا تمام محبتیں معاشرے اور ماحول کے تقاضوں ، ضرورتوں اور ان کے اثرات کے تابع ہوتی ہیں۔
انسان کب محبت میں گرفتار ہوتاہے؟ سماجی ماہرین کے خیال میں یہ ایک طویل عمل ہے جو بتدریج آگے بڑھتا ہے مگر شاعری میں اسے ایک ایسا تیر قرار دیا گیا ہے جو آناً فاناً جگر کے پار ہوجاتاہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سائنس اس نظرئیے کی تصدیق کرتی ہے لیکن ان کا کہناہے کہ عشق کا تعلق دل سے نہیں بلکہ دماغ سے ہے۔ ایک حالیہ سائنسی مطالعہ سے ظاہر ہواتھا کہ عشق پہلی ہی نظر میں ہوجاتا ہے اور جیسے ہی کوئی چہرہ نظروں کو بھاتا ہے‘ دماغ کے ایک مخصوص حصے میں برقی لہریں پیدا ہوتی ہیں ، جنہیں ایم آر آئی (MIRI)کے ذریعے ریکارڈ کیا جا سکتا ہے۔
طبی ماہرین عشق کے مطابق تین درجے ہیں۔ ہر درجے میں دماغ میں مختلف قسم کے ہارمون پیدا ہوتے ہیں۔نفسیاتی ماہرین کو پہلی نظر میں محبت کے نظرےئے سے قدرے اختلاف ہے۔ ان کا کہناہے کہ عشق میں گرفتار ہونے میں ڈیڑھ سے چار منٹ کا وقت لگتا ہے۔ان کا کہناہے کہ عشق کی پہلی منزل لاشعوری طور پر جنسی کشش کے تابع ہوتی ہے۔ دوسری منزل پر عاشق اپنے محبوب کے ہر انداز اور ہر پہلوکوبخوبی سمجھنے لگتا ہے اور آخر میں وہ ”رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی“کی منزل پر پہنچ جاتا ہے۔
نفسیاتی ماہرین عشق اور شادی کودو الگ چیزیں قرار دیتے ہیں۔وہ کہتے ہیں اکثر صورتوں میں محبت کی شادی ناکام ہوجاتی ہے کیونکہ محبت میں دونوں کی توقعات بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں ، جن کا پورا ہونا عملی طورپر ممکن نہیں ہوتا، جس سے دل کو ٹھیس لگتی ہے۔ یہ وہ منزل ہے جہاں ایک دوسرے کی خوبیاں بھی خامیاں دکھائی دینے لگتی ہیں اور ناکامی کاسفر شروع ہوجاتاہے۔نفسیاتی ماہرین کا کہناہے کہ شادی ٹھنڈے دل و دماغ سے خوب سوچ سمجھ کرکرنی چاہئے۔ دیرپا محبت وہ ہوتی ہے جو لمبے عرصے کے میل ملاپ اور ایک دوسرے کی خوبیاں اور خامیاں قبول کرنے سے پروان چڑھتی ہے۔
ویلنٹائن کے آغاز کے بارے میں بہت سی روایات مشہور ہیں۔ بعض کے نزدیک یہ وہ دن ہے جب ”سینٹ ویلنٹائن“ نے روزہ رکھا تو اور لوگوں نے اسے محبت کا دیوتا مان کر یہ دن اسی کے نام کردیا۔ کئی لوگ اسے” کیوپڈ “(محبت کے دیوتا)اور ”وینس“(حسن کی دیوی)سے موسوم کرتے ہیں جو کیوپڈ کی ماں تھی۔سینٹ ویلنٹائن ، جن کی یاد میں ویلنٹائن ڈے منایا جاتاہے، نوجوان جوڑوں کی شادیاں کراتے تھے۔ 270ءکے لگ بھگ روم کے بادشاہ کلاوڈس دوئم نے نوجوان فوجیوں کی شادی پر پابندی لگادی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ اس سے ان کی کارکردگی بہتر ہوگی۔ سینٹ ویلنٹائن چوری چھپے ان کی شادیاں کرانے لگے اور بالآخر قید کردئیے گئے۔ زیادہ تر روایات کے مطابق انہیں 14 فروری 270ءمیں سزائے موت دے دی گئی۔
بعض تاریخ دانوں کا کہناہے کہ جیل میں ایک لڑکی ان سے ملنے آتی تھی۔ وہ اس کی محبت میں گرفتار ہوگئے جس کا اظہار انہوں نے سزائے موت سے قبل لڑکی کے نام آخری خط میں کیا تھا۔ خط کے آخری الفاظ تھے ’ ’تمہارا ویلٹنائن“۔آج بھی ویلنٹائن ڈے پر بھیجے جانے والے کارڈوں پر کسی کے دستخط نہیں ہوتے۔ یہی صرف دو الفاظ ہوتے ہیں۔ایک سروے کے مطابق گذشتہ سال ایک ارب ویلنٹائن کارڈ بھیجے گئے تھے۔ اس سال یہ تعداد بڑھ سکتی ہے۔
محبت انسان کا ایک بنیادی اور فطری جذبہ ہے۔ انسانی وجود، رشتوں اور تعلقات میں یہ جذبہ بڑے جمال اور حسن کے ساتھ اپنا ظہور کرتا ہے۔ خدا اور بندے، اولاد اور والدین، دوست اور اقربا کے رشتوں کی ساری خوبصورتی نہ صرف اس جذبہ کی عطا کردہ ہے بلکہ ان رشتوں کو زندگی کے ہر امتحان میں اگر کوئی سرخرو کرتا ہے تو بلا شبہ یہی محبت کا جذبہ ہے۔ محبت کے رشتہ کی ایک اور لطیف شکل وہ ہے جو آغاز شباب میں دل کے صحرا پر پہلی پھوار کی طرح برستی ہے۔ بحر زندگی ایک نئے تلاطم سے آشنا ہوتاہے۔ قدم بے اختیار کسی سمت اٹھتے ہیں۔ نظر بے سبب کسی کو ڈھونڈتی ہے۔ دل کی دھڑکن بلاوجہ تیز ہوجاتی ہے۔ نگاہ پر بجلی سی کوندتی ہے۔ قلب جتنا بے چین ہوتا ہے دماغ اتنا ہی آسودہ رہتا ہے۔ دل کو بارہا بے وجہ قرار ملتا ہے اور بے وجہ قرار ملنے سے دل بہت بے قرارسا رہتا ہے۔
محبت کے اس جذبہ کا ودیعت کرنے والا وہ خالق دو جہاں ہے جو خدائے قدوس ہے۔ ہر تعریف کا مستحق، ہرخوبی کا سرچشمہ، ہر جمال کا خالق اور ہر جذبہ کا مالک۔ وہ جس طرح اپنی عطا میں لازوال ہے اسی طرح اپنی حکمت میں بھی باکمال ہے۔ وہ قدسیوں کا ممدوح ہی نہیں عارفوں کا محبوب بھی ہے۔ اس کی یہ حمد اور اس کی یہ محبت بے سبب نہیں۔ زندگی کی کہانی کا ہر ورق اسی نے لکھا ہے اور ہر سطر اسی کے زور قلم کا نتیجہ ہے۔ اس کہانی کا آغاز وہ محبت کی اسی نرم و نازک کونپل سے کرتا ہے، جسے نکاح کے تحفظ کے بعد وہ ایک شجر سایہ دار کی طرح دیکھنا چاہتا ہے۔ اسی لیے وہ نوجوان محبت کے بیج کو دلوں کی زمین پر اگاتا ہے اور مضبوطی کے لیے جنس و شہوت کی کھاد ڈال دیتا ہے۔ مگر اس حیات بخش کھاد کوگناہ کی دلدل بنادینے والا ابلیس لعین ہے۔ وہ شیطان مردود جو اپنی سرکشی کی وجہ سے بارگاہ ربوبیت سے دھتکاردیا گیا تھا اور جس ہستی کے حسد میں دھتکارا گیا تھا وہ یہی انسان تھا، جس کا دل محبت کے دریا میں بہرحال ڈوبتا ہی ہے۔ شیطان ملعون نے خدائے ذوالجلال کی عزت کی قسم کھاکر انسان کی بربادی کا عزم کیا تھا۔ وہ اس دریا کا رخ نکاح کے بحر زیست کے بجائے بدکاری کے گندے نالے کی طرف موڑنے کا خواہش مند رہتا ہے۔ وہ عفت کی پاکیزگی کے بجائے شہوت کی گندگی کو مقصود زیست ٹھہراتا ہے۔ وہ نکاح کے تقدس کے بجائے زنا کی غلاظت کو لذیذ تر بناکر پیش کرتا ہے۔ وہ حیا کی بلندی کے بجائے آوارگی کی پستیوں کو مقصود حیات بنادیتا ہے۔
آخری زمانے کی یہ مغربی تہذیب کہ جس نے ہزار برس سے قید شیطان کو رہا کرایا ہے، بحر و بر کو مسخر کرنے کے بعد دو عالم میں غالب ہے۔ یہ تہذیب میڈیا کی راہ سے شیطان کا ہتھکنڈہ بن کردنیا اور اس کی اقدار پر حملہ آور ہوئی ہے۔ اس کا سب سے بڑا حملہ یہ ہے کہ اس نے محبت کے پاکیزہ تعلق کو شہوت کی غلاظت سے لتھڑ دیا ہے۔ اس نے (Love Affair) کو(Lust Affair) بنادیا ہے۔ جو نامطلوب تھا اسے مقصود بنادیا ہے اور جو مطلوب تھا اسے آزادی کی راہ میں کہیں کھو دیا ہے۔
ہمیں نہ محبت سے نفرت ہے نہ جوانی میں دل کی بے ترتیب دھڑکنوں کے ہم دشمن ہیں۔ نہ انسانی جذبوں سے ہم ناواقف ہیں نہ شباب کے رنگوں کو پہچاننے سے اندھے۔ ہم مغربی تہذیب کے دشمن ہیں نہ مغربی اقدار و تہوار کے۔ نہ جوانی کے سیلاب پر بندھ باندھنے کے خواہاں ہیں نہ جدیدیت کی موج کو قدامت کے کوزے میں بند کرنے کے خواہش مند۔ صرف قوم کے فرزندوں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ان کے پروردگار نے ان کے لیے اس دنیا میں ایک ہی ویلنٹائن ڈے مقرر کیا ہے۔ وہ ان کی شادی کا دن ہے۔ رہی ان کی محبت تو اس کا اظہار ہر روز ہونا چاہئے تو پھر صرف 14 فروری کا دن ہی کیوں؟ اور اگر ویلنٹائن ڈے اظہار محبت کا وہ دن ہے جس روز آپ جسے پیار کرتے ہیں اس کی جانب اپنے احساس کا اظہار کرتے ہیںتو پھر یہ دن ان تمام افراد کیلئے ہونا چاہئے جن سے آپ کو پیار ہے۔یہ افراد آپ کے والدین ، بھائی، بہنیں،دوست یا رشتہ دار ہوسکتے ہیں کیونکہ محبت صرف ایک شخص کیلئے نہیں ہوتی ہے۔ اگر ویلنٹائن ڈے پیارکے اظہار کا دن ہے تو اِس میں اِن تمام لوگوں کو کیوں نہ شامل کریں جن سے آپ محبت کرتے ہیں۔
تحریر: عمران چنگیزی