تحریر : ابن نیاز
ماہ عشق پھر چمکا ہے ،پھر سے نوجوانوں سے لیکر بوڑھو ں تک میں عشق کا سانس بھر گیا ہے۔ پھر علمائے سُو نے محفلیں سجانے کا پروگرام بنا لیا ہے۔ پھر سے لوگوں سے پیسے بٹورنے کا کام شروع ہو چکا ہے۔ ہر شہر میں ہر مقام پر ہر چوک میں بڑے بڑے بینرزآویزاں کر دیے گئے ہیں، بڑے بڑے پوسٹرز دیواروں، دروازوں پر چسپاں کر دیے گئے ہیں۔ اور بڑے بڑے خوبصورت الفاظ میں بینرز اور پوسٹرز بنوانے والوں نے ایسے ایسے الفاظ لکھے ہیں کہ بس دنیا میں ان سے بڑھ کر عاشق کوئی نہیں۔ ان سے بڑھ کر چاہنے والا کوئی نہیں۔ چاہے وہ بچہ ہے، چاہے نوجوان، جوان ہے یا بوڑھا عشق کی داستان پھر سے انھوں نے اپنے دل و دماغ میں تازہ کر دی ہے، کہ انھوں نے جوشِ خطابت کا مظاہر کرنا ہے۔ انھوں نے عشق کے سمندر میں اشکوں کے دریابہانے ہیں۔بڑے بڑے اندھی تقلید کے کی دولت سے مالامال اب اپنے اپنے مطلب کے مطالب قرآن کی آیات سے نکال کر سامنے لائیں گے۔ احادیث سے بھی ثابت کریں گے ۔ ثابت کریں گے یہ عشق کے بہت بڑے متوالے ہیں۔ لہک لہک کر ان کی مدحتیں بیان کریں گے۔ لہک لہک کر ڈھول تھاپوں پہ انکی شان میں شاعری کہیں گے۔ اور ثابت کریں گے انھوں نے موسیقی سے ہر گز نہیں منع کیا۔ استغفر اللہ۔ میرے منہ میں خاک جو میں گستاخی کا مرتکب ہوں۔
ربیع الاول کا بابرکت مہینہ جس میں رسول پاک ۖ کی آمد آمد ہوئی۔ وجۂ تخلیق کائنات آپ ۖ ہیں۔ آپ کی تخلیق کائنات سے کتنے عرصہ پہلے ہوئی اس کا اندازہ کوئی بھی نہیں لگا سکتا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے سے ایک مرتبہ رسول پاک ۖ نے ان کی عمر پوچھی۔ انھوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ۖ، اپنی عمرکا تو مجھے معلوم نہیں لیکن یہ جانتا ہوں کہ آسمان پر ایک ستارہ چمکتا ہے ۔ وہ ستارہ ہر ستر ہزار سال بعد نظر آتا ہے۔ میںاس ستارے کو ستر ہزار مرتبہ دیکھ چکا ہوں۔ رسول پاک ۖ نے فرمایا کہ وہ ستارہ میں ہی تو ہوں۔ پھر انھوں نے اپنے سر مبارک سے عمامہ مبارک اٹھایا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام کو وہ ستارہ رسول پاک ۖ کی پیشانی مبارک میں نظرآیا۔ یہ بات ثابت ہے کہ عربی میں ستر کو مطلب لامحدود ہوتا ہے۔ کیونکہ جب عبداللہ بن ابی منافق فوت ہوا تو اس کے بیٹے جو سچے مسلمان صحابی تھے، رسول پاک ۖ سے اپنے باپ کا جنازہ پڑھانے کا کہا۔
لیکن اللہ پاک نے منع فرما دیا کہ اے نبی ۖ اگر آپ ستر مرتبہ بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کریں گے تو اسکی معافی نہیں ہو گی۔ اس پر آپ ۖ نے فرمایا کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کرنے سے اسکی مغفرت ہو سکتی ہے تو میں ضرور کرتا۔ اس سے تین باتیں ثابت ہوتی ہیں کہ ایک تو یہ رسول پاک ۖ سراپا رحمة اللعلمین ہیں کہ وہ چاہتے تھے کہ منافقین کی بھی مغفرت ہو۔دوسری بات یہ کہ آپ غیب کا علم نہیں جانتے تھے جیسا کہ بہت سے کہتے ہیں۔ میری اس بات کی وضاحت ہے سورة آل عمران کی آیت ١٧٩ سے بھی ہوتی ہے۔ اللہ پاک نے فرمایا : “اللہ وہ نہیں کہ چھوڑ دے مسلمانوں کو اس حالت پر جس پر تم ہو جب تک کہ جدا نہ کردے ناپاک کو پاک سے اور اللہ نہیں ہے کہ تم کو خبر دے غیب کی لیکن اللہ چھانٹ لیتا ہے اپنے رسولوں میں جس کو چاہے، تو تم یقین لاؤ اللہ پر اور اس کے رسولوں پر اور اگر تم یقین پر رہو اور پرہیزگاری پر تو تم کو بڑا ثواب ہے۔” تیسری بات یہ ہے کہ ستر مرتبہ عربی میں کم از کم ان وقتوں میں لامحدود کے لیے استعمال ہوتا تھا۔
جب ہم عشق کا دعویٰ کرتے ہیں توپھر تمام عمر اس پر قائم کیوں نہیں ہوتے۔ کیا عشق ہمارا صرف بارہ دنوں کے لیے ہوتا ہے، وہ بھی نام نہاد۔ صرف بینر لگانے سے، بڑے بڑے جھنڈے لگانے سے، لبیک یا مصطفٰی ۖ کہنے سے ہمارا عشق ہو جاتا ہے۔ اللہ پاک قرآن میں درود کے بارے میں فرماتے ہیں ۔” بے شک اللہ اور اسکے فرشتے نبی پاک ۖ پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! آپ بھی ان پر درود و سلام بھیجو۔” کیا کوئی مجھے بتائے گا کہ اس میں ربیع الاول کے مہینے کی تخصیص کہاں پر ہے؟ قرآن پاک کے جتنے احکامات ہیں ان میں سے معدودے چند ہی مخصوص ایام کے لیے ہیں جیسے روزے کا حکم، حج کا حکم۔ ورنہ تو تمام عمر کے لیے باقی احکامات ہیں۔ تو درود پڑھنے کا حکم تو سب احکامات پر حاوی ہے،افضل ہے۔ کیونکہ اللہ پاک نے باقی احکامات کے بارے میں یہ ہر گز نہیں کہا کہ چونکہ اللہ یا اسکے فرشتے بھی یہ کام کرتے ہیں تو اے ایمان والو آپ بھی کرو۔ پس درود پاک پڑھنا تو ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اور یہ فرض اس پر تمام دن، پورا ہفتہ، پورا مہینہ ، مکمل سال بلکہ تمام عمر ہے۔وضو بغیر وضو کے وہ درود پاک پڑھتا رہے۔ بے شک اللہ نے اپنے ذکر کا بھی حکم دیا ہے۔ فرمایا ، ” اپنے دلوں کو اللہ کے ذکر سے سکون دو (مطمئن کرو)َ۔” لیکن درود پاک بھی ضرور پڑھنا چاہیے۔ کہیں پر پڑھا تھا کہ اگر کچھ بھی نہ پڑھا جائے تو کم از کم دن میں دس مرتبہ تو ضرور پڑھا جائے۔ کیا ہم لوگوں کے پاس اتنا وقت بھی نہیں ہے؟ تو پھر ہمارا عشق کا دعویٰ کیا ہوا؟
لوگوں سے پوچھا جائے، جنھوں نے یہ محفلیں سجانی ہیں کہ انھوں نے اپنی زندگی میں رسول پاک ۖ کی پیاری سنتوںپر کتنا عمل کیا ہے۔ ان کے احکامات کو کس حد تک اپنی زندگی کا حصہ بنایا ہے۔ انھوں نے اصراف سے، فضول خرچی سے منع فرمایاہے۔ تو یہ جو آپ نے بازاروں میں جھنڈے، بینر، قمقمے سجائے ہیں ان پر کتنا خرچہ آیا ہے؟ اگر یہی خرچہ آپ ان غریبوں میں تقسیم کردیتے ، جن کو دو وقت کی روٹی نصیب نہیں، جنھیں تن ڈھانپنے کو کپڑا نصیب نہیں۔ جنھیں اس شدید سردی میں سرڈھانپنے کو چھت میسر نہیں۔ اگر ان جھنڈوں، بینروں اور محافل پر کیے گئے اخراجات سے ان کو یہ چیزیں مل جاتیں تو وہ اللہ کے دربار میں آپ کی بخشش کرانے میں اپنا حصہ ضرور ڈالتے۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک بوڑھی عورت کو اسکے پوتوں وغیرہ کے ساتھ اس کی مدد کی ، انہیں بھوک میں خوراک مہیا کی تو اس عورت نے کہا کہ کاش تو عمر کی جگہ ہوتا۔
تو کیا یہ لوگ ان لوگوں کو دعائیں نہیں دیں گے۔ لیکن جب ہم اپنے اخراجات اسی طرح فضول خرچی کی مد میں جاری رکھیں گے تو پھر آپ ادھر رسول پاک ۖ کی شان میں نعتیں کہہ رہیں ہوں گے، اور اُدھر ان کی زبان سے آپ کے لیے کیا نکلے گا۔ یہ آپ بہتر جانتے ہیں۔شانِ مصطفی بیان کرنی ہے تو پھر پورا سال کرو، ان کی سنتوں کو عام کرو ، خود بھی ان پر عمل کرو تب ہی دوسرے بھی عمل کریں گے۔ حضور سرور کائنات ۖ کے پاس ایک خاتون اپنے بیٹے کے ساتھ تشریف لائیں اور عرض کی یا رسول اللہ ۖ ! یہ میرا بیٹا ہے۔ میٹھا بہت کھاتا ہے۔ اسے نصیحت کیجئے۔آپ ۖ نے فرمایا کہ کل آنا۔ اگلے دن وہ خاتون پھر آئیں۔
آپ ۖ اس بچے سے صرف اتنا فرمایا ۔ کہ بیٹا میٹھا کم کھایا کرو، یا نہ کھایا کرو۔ (اللہ پاک کمی بیشی معاف فرمائے) ۔ اس خاتون نے عرض کیا ۔ یا رسول اللہ ۖ ۔ یہ بات تو آپ کل بھی فرما سکتے تھے۔ فرمایا۔ کل میں نے خود کھجور کھائی ہوئی تھی، تو بچے کو کیسے منع فرماتا۔ تو قارئین کرام ! کیا ہم میں یہ خاصیت موجودہے؟ کیا ہم سنتِ نبوی ۖ پر عمل کرتے ہیں۔ ہمارا تو یہ حال ہے کہ اگر ایک سنت پر عمل کرنے کے لیے کسی کو کہیں تو وہ کہتا ہے کہ اور کون سی سنتوں پر عمل ہو رہاہے۔ نہیں ہر گز نہیں۔ فقہائے کرام لکھتے ہیں کہ آپ حضرات ایک سنت پر تو عمل کریں۔ جس پرآسانی سے کر سکتے ہیں اس کو ہر گز نہ چھوڑیں۔ پھر آپ خود ہی کسی دوسری سنت کو بھی اپنا لیں گے۔ ان شاء اللہ بہت جلد ہی آپ بنا سوچے سمجھے حضور پاک ۖ کی ہر سنت کو اپنی زندگی میں اس طرح شامل کر لیں گے کہ جس دن کوئی سنت رہ جائے گی، آپ کو زندگی بیکار لگے گی۔
حضور ۖ کے پاس ایک شخص حاضر ہوا۔ عرض کیا ، کوئی نصیحت فرمائیے۔ آپ ۖ نے فرمایا کہ جھوٹ نہیں بولنا۔ وہ شخص شراب پیتا تھا۔ شاید اس وقت تک شراب کی حرمت مکمل طور پر قائم نہ ہوئی ہو گی۔ اس شخص نے وعدہ کر لیا۔ وہ گھر گیا۔ نماز کا وقت ہونے لگا تھا۔ اس نے شراب کو منہ کے ساتھ لگایا ہی تھا کہ خیال آیا اس وعدے کا۔ جام نیچے رکھا۔ سوچا کہ کل رسول پاک ۖ پوچھیں گے شراب کا، تو میں کیا کہوں گا۔ اگر کہوں گا نہیں پی تو جھوٹ ہو گا۔ اور اگر ہاں کہوں گا تو یہ ان کو ناپسند ہے۔ شراب چھوڑ دی۔
تو میرے پیارے ساتھیو! جب عشق ہی کرنا ہے تو پورا سال کرو، اور ایک بار کرو۔ یہ نہیں کہ بارہ دن کی اور پھر گناہوں کی راتوں میں مشغول ہو گئے ۔یہ عشق اس طرح کرو کہ پھر آپ کی جان، آپ کا مال، آپ کے اعمال، سب کے سب اسوۂ حسنہ کے مطابق نظرآئیں۔ احکامات خدا پر عمل پیرا ہوں اور سنت نبوی ۖ آپ کی زندگی کا حصہ نہیں بلکہ آپ کی زندگی ہی ہو۔ بس پھر کامیابی ہی کامیابی ہے۔
تحریر : ابن نیاز