تحریر : انعام الحق
پاکستانیوں نے ویلنٹائن ڈے بھرپور قومی جذبے اور اسلامی عقیدت کے ساتھ کامیابی سے منایا۔پاکستانی قوم کو مبارک ہو!!!حکمرانوں کو فخر کرنا چاہئے کہ انتہائی غریب، لاچار، محتاج، معصوم، بیروزگار اور بھکاری ہونے کے باوجود ہم نے ”محبت کا دن ”یا یوں کہیں ”ایک دن کی محبت” پر کروڑوں روپے اُڑا دئیے۔ جس پر کسی دل جلے کو مجبور اً لکھنا پڑا… محبت ہو چکی پوری چلوکپڑے پہن لو ویلنٹائن ڈے پر ہونے والی بے حیائیوں اور فضول خرچیوں پر صرف عوام قصور وار نہیں ہیں۔
قصوروار وہ بھی ہیں جو ہمیںاڑسٹھ سالوںمیں دین ہی نہ سکھا سکے،نہ خود سیکھ سکے، نہ خود سمجھ سکے اور نہ ہی ہمیں سمجھا سکے۔مزے کی بات تو یہ ہے کہ وہ دین پھر ٹھیکیداری کے فرائض بخوبی انجام دے رہے ہیں۔کوئی اُن پر اُنگلی اُٹھائے تو سہی…فتووں کے بم یوں برسائیں گے کہ مساجد کے لائوڈ سپیکروں پر واجب القتل کی صدائیں بلند ہو جائیں گی اپنی ”منجی” (چارپائی) کے نیچے کیا ہورہا ہے اُس کی پرواہ ہی نہیں۔ اِن نام نہاد علماء کو، بس فکر ہے تو یہ کہ فلاں کیا کر رہا ہے،فلاں کیوں کر رہا ہے،فلاں کیسے کر رہا ہے۔
اگر ان علماء کا بس چلے تو دینی تعلیم کے چکر میں بیواقوف بنا کر یہ لوگوں کے گھروں میں رات دیر گئے تک علم بانٹیں…لیکن شکریہ ادا کرنا چاہئے میڈیا کا اُنہیں بھی غیرت آتی ہے اور معاشرے میں مولویوں کی درندگی کے واقعات کبھی کبھی منظر عام پر لے آتے ہیں۔ جس سے کم از کم یہ فائدہ تو ہوتا ہے کہ معاشرے کے نام نہاد علماء سے عام عوام بھی واقف ہونا شروع ہوگئی ہے۔
ویلنٹائین ڈے جس کی مخالفت ہر دین دار شخص کرتا نظر آتا ہے۔صاحب سمجھ اور صاحب عقل اس بات کو سمجھتے ہیں کہ اس قسم کی رسم کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ نئی نسل کو کس طرح سمجھایا جائے؟ڈنڈے کے زور پر تو ہرگز نئی نسل اس رسم سے پرہیز نہیں کرے گی۔بلکہ وہ مقابلہ بھی کرنا قبول کریں گے اور ویلنٹائین ڈے بھر پور جوش سے منائیں گے۔اس کی دو وجوہات ہیں ایک تو یہ کہ جس محبت کا درس ہم بچپن سے سُنتے آئے ہیں اُس میںمحبت کم، تنہائی اوربستر کی اہمیت زیادہ ہے۔دوسری وجہ یہ ہے کہ جن نام نہاد علماء کو ہم معاشرے میں دین سیکھانے کاٹھیکہ دیتے ہیں اُن کی نظر میں اور اُن کے بقول متعہ حلال ہے۔
جہاد النکاح حلال ہے،نابالغ بچیوں سے نکاح حلال ہے،لونڈیوں سے بغیر نکاح مباشرت حلال ہے وغیرہ وغیرہ لیکن ویلنٹائین ڈے کا نام لیں تو اُسے حرام کے ساتھ ساتھ” نتیجہ جہنم” کا بھی فیصلہ بھی خود ہی سُنا دیتے ہیں۔ایسااس لئے ہوتا ہے کیونکہ پاکستان کے جاہل علماء کو اپنے مطلب کی چیزیں یاد ہیں اور اپنے مفاد کے تمام عوامل کو حلال قرار دے رکھا ہے۔جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرے میں پھیل رہی بے راہ روی کو روکا جائے اور بات کو طریقے سے سمجھایا جائے ،نہ کہ زبردستی کرنے کی کوشش کی جائے۔
اصل مسئلہ کی بُنیاد یہ ہے کہ جب تک ہمارے دینی مدارس میں داخلے کی شرط کم از کم تعلیم میٹرک قرار نہیں دی جائے گی، تب تک ہمیں جاہل علماء ہی دینی تعلیمات کے لئے ملتے رہیں گے اور یہ ویلنٹائن کی رسم بھی چلتی رہے گی۔
تحریر : انعام الحق